فلسفہ قربانی کی حقیقت

July 01, 2022

مولانا نعمان نعیم

ہمارے زمانے میں بعض لوگ قربانی کے اس واجب عمل پر اپنی ذہنی سطح کی بنیاد پر کچھ اعتراضات کیا کرتے ہیں، اُن کا کہنا یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے امت مسلمہ اس قربانی کے نام پر (نعوذباﷲ) ضائع کرتی ہے اور بے شمار جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد اُن کی سالانہ ضروریات کے اعتبار سے کمی کا باعث بنتی ہے، یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کسی نظر آنے والی چیز کے متعلق اندھا نظر نہ آنے کی شکایت کرے۔

اسلام کا تعلق کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں ہے اس کا بنانے والا، اس کے قواعد و قوانین کا مقرر کرنے والا اور ان قواعد و قوانین کی ضروریات کے مطابق اسباب کا مہیا کرنے والا صرف اور صرف ﷲ تعالیٰ ہی ہے، وہ کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جو بے کار ہو یا جس سے کوئی نقصان ہورہا ہو یا جس کے اسباب میسر یا مہیا نہ ہوں، اگر اُس نے اِن دنوں کے اندر قربانی کو واجب قرار دیا ہے تو اُس کے مقررکردہ اصول و قوانین کے مطابق جانوروں کا مہیا کرنا اُس کی ذمہ داری ہے، عام آدمی کو اس کی پریشانی میں مبتلا ہونے، مبتلا رہنے اور مبتلا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اس سے اندازہ لگائیے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرے نزدیک ان تین دنوں میں جانوروں کے خون بہانے سے زیادہ کوئی اور عمل چاہے وہ کتنا ہی اونچا اور اعلیٰ کیوں نہ ہو محبوب ہی نہیں ہے، دیگر اعمال اپنی جگہ اہمیت برقرار رکھتے ہوئے اس عمل میں نہ رکاوٹ بنتے ہیں، نہ اُنہیں روکاٹ سمجھا جانا چاہیے، ﷲ تعالیٰ کو اپنی خوشیاں ﷲ تعالیٰ کی خوشی کے تحت کرتے ہوئے دکھلانی چاہیئیں اور وہ آپ کے اس عمل پر جانوروں کے کھالوں پر پائے جانے والے تمام بالوں کے برابر نہ صرف نیکیاں عطا فرماتا ہے بلکہ جانور کے ذبح ہوتے ہوئے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اﷲتعالیٰ کے ہاں محبوب ہوجاتا ہے، اﷲتعالیٰ کو تو اسماعیل پسند ہیں وہ قارون، فرعون، نمرود، شداد، ابوجہل، ابولہب وغیرہ وغیرہ کو پسند نہیں کرتا، اُسے اسماعیل اچھے لگتے ہیں جو رب کے حکم پر اور اَب (باپ) کی اطاعت پر بلاچوں و چرا اپنا سَر جھکا دے۔

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ جو قربانی کا عمل کیا گیا تھا وہ وہاں حاضر ہونے والے حجاج کرام کی مہمانی کے حوالے سے کیا گیا تھا، وہاں تویہ قربانی کرنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن دنیا بھر میں جانوروں کا ان تین دنوں میں ذبح کرنا جبکہ کسی بھی جگہ مسلمانوں کا کوئی اجتماع بھی نہیں ہوتا کہ اُن کی مہمانی کی جائے، لہٰذا یہ ایک فضول رسم ہے جو دنیا بھر میں رائج ہوئی ہے۔

یہ اعتراض بھی نابیناؤں والا اعتراض ہے، اِن اعتراض کرنے والوں سے یہ پوچھا جائے کہ اگر حجاج کرام کی مہمان نوازی ہی کرنی ہے تو اس کے لیے جانوروں کو اور اُن کی شرائط کو مخصوص کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ان جانوروں کے علاوہ حلال جانور بھی ذبح کیے جاسکتے ہیں، اگر قربانی میں ذبح کے جانوروں کو اور اُن کے اندر پائی جانے والی شرائط کو مخصوص کیا گیا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا تعلق حجاج کرام کی مہمانی سے نہیں ہے، یہ ایک مستقل علیحدہ عبادت ہے، جس کا حج اور حاجیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس قربانی کا اہتمام تو نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے قیام میں بھی فرمایا ہے، اگر یہ حجاج کی مہمانی کے لیے تھا تو اِن تاریخوں میں تو سارے کے سارے حجاج مکہ مکرمہ اور اُس کے اطراف میں ہوتے ہیں، اُس زمانے کے اندر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا راستہ چند گھنٹوں کا نہیں بلکہ کئی دنوں کا ہُوا کرتا تھا، اِن تین دنوں میں مدینہ منورہ میں قربانی کا گوشت یا اُس سے بنی ہوئی کھانے کی نعمتیں کس طرح محفوظ طریقے سے مکہ مکرمہ پہنچائی جاسکتی تھیں؟ اور جب تک وہ کھانے کی اشیاء مکہ مکرمہ پہنچ پاتیں اُس وقت تک حجاج کرام مکہ مکرمہ سے حج کے اعمال سے فارغ ہوکر واپس جاچکے ہوتے، اتنی سیدھی بات اگر ان معترضین کی سمجھ میں نہیں آتی تو پھر اِن کا اﷲ ہی حافظ ہے۔

کہاں مدینہ منورہ میں قربانی کا عمل اور کہاں مکہ مکرمہ میں حجاج کا اجتماع، آج کی تیزرفتار سواری کے باوجود یہ عمل خوش اسلوبی سے نہیں ہوسکتا تو اُس زمانے کی ناقابل ذکر سواریوں اور ناہموار راستوں میں کیسے روبہ عمل ہوسکتا تھا؟ لہٰذا یہ اعتراض نہ سُنے جانے کے قابل ہے، نہ پڑھنے جانے کے قابل ہے اور نہ مانے جانے کے قابل ہے۔

قربانی کے اس عمل کے پیچھے ایک زبردست واقعہ ہے جس کی یادگار کے طور پر قربانی کا یہ عمل امت مسلمہ کو دیا گیا ہے کہ ہر سال ان تاریخوں کے اندر اس عمل کو کرتے ہوئے اُس واقعے کو اور اُس کے پیغام کو مسلمان اپنے ذہنوں میں تازہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اس واقعے کے پیغام کے مطابق ڈھالیں۔

واقعہ یہ ہے کہ ﷲتعالیٰ کے ایک جلیل القدر نبی ابراہیم علیہ السلام کے نام سے بھی گزرے ہیں، اِن کا لقب خلیل ﷲ یعنی ﷲ کا دوست ہے۔ عربی زبان کے اندر خلیل اُس دوست کو کہتے ہیں جس کے دل کے اندر دوست کی محبت کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو اور جب کبھی کسی ودسرے سے محبت کا مقابلہ پڑ جائے تو وہ دنیابھر کی چیزوں کے مقابلے میں صرف اور صرف دوست کی محبت کو ترجیح دے اور اُس کی چاہت کو پورا کرے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی عمر میں ﷲتعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسماعیل علیہ السلام ہے، والدین کے دل میں اولاد کی محبت فطری چیز ہے اور وہ دنیابھر کی تمام چیزوں میں بیٹے کی محبت کو ترجیح دیا کرتے ہیں، یقینی بات ہے کہ اس عمر میں ملنے والا بیٹا اور بھی زیادہ محبت کا تقاضا کرتا ہے، ﷲتعالیٰ نے اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا اور یہ ایسا امتحان ہے جو اس سے پہلے کسی سے لیا گیا نہ اس کے بعد کسی سے لیا گیا اور نہ قیامت تک کسی سے لیا جائے گا یہ امتحان صرف اور صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق ہے، امتحان یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ﷲ تعالیٰ نے صاف اور ظاہر لفظوں میں نہیں اندرونی اور باطنی پیغام کے طور پر یہ حکم دیا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو میرے حکم سے ذبح کردیں۔

اس حکم کی صورت یہ بنائی گئی کہ آپ کو خواب میں یہ دکھلایا گیا کہ آپ اپنے ہاتھوں سے اسماعیل ؑکو ذبح کرنے کی کوشش کررہے ہیں (خواب میں ذبح کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ذبح ہوتے ہوئے نہیں دکھایا گیا)، نبی کا خواب بھی وحی ہوا کرتا ہے گویا کہ خواب کے اندر اس صورت کے تناظر میں حکم دیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پورا خواب سُنایا اور اسماعیل علیہ السلام نے بھی اس کا وہی مطلب سمجھا جو اُن کے والد محترم حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا تھا، اس خواب کے سُننے اور سنانے کے بعد دونوں باپ بیٹا اس حکم پر عمل کرنے پر نہ صرف تیار ہوئے بلکہ منیٰ میں جاکر اپنے طور پر اپنی پوری قوت و استعداد و صلاحیت اور دل و دماغ کو ایک ہی صفحے پر لاتے ہوئے عمل شروع کردیا۔

ابراہیم علیہ السلام نے پوری کوشش کی کہ میرے ہاتھوں سے اسماعیل ذبح ہوجائے اور اسماعیل علیہ السلام کی پوری معاونت تھی کہ میں اپنے ابّا کے ہاتھوں سے اپنے رب کو جان دے دوں، لیکن قدرت نتیجہ نہیں چاہتی تھی صرف جذبہ دیکھنا چاہتی تھی اور اس جذبہ کو سچائی کا سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے نتیجے کے طور پر جنت سے مینڈھا بھیج کر ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے ذبح کروا دیا، یہ ہے وہ واقعہ جس پر ﷲ تعالیٰ کو اس واقعہ کے دونوں کرداروں پر ایسا پیار آیا کہ اُس نے اپنے ماننے والوں میں سے صاحب استطاعت لوگوں پر (واجب فرماتے ہوئے) سال میں ایک مرتبہ اپنی طرف سے اُس کے بتلائے ہوئے حلال جانوروں میں سے جو شرائط پر پورے اترتے ہوں اُن میں سے کسی ایک کو ان تاریخوں میں سے کسی ایک تاریخ میں ذبح کرکے ﷲتعالیٰ کی رضامندی حاصل کریں اور اُس جانور کی تمام قابل استعمال چیزوں کو اپنے استعمال میں لائیں۔