امریکہ میں اسقاط حمل پر نیا فیصلہ

July 02, 2022

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
امریکہ میں اسقاط حمل کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر بیشتر ریاستوں میں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والی خواتین نے اس بات پر شدید احتجاج شروع کیا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف عورتوں کے بنیادی حق کو پامال کیا گیا ہے بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں سوسائٹی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوجائے گا۔ عورت کی مشکلات بڑھ جائیں گی کیونکہ بنیادی طور پر عورت کا امید سے ہوجانا جسمانی طور پر اور بچے کی پیدائش کے بعد تک سماجی طور پر عورت ہی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ تو پارٹنر ہونے کی صورت میں ہے لیکن ریپ کیس میں تو صریحاً عورت ہی کا مسئلہ رہتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں قانونی سن بلوغت پر پہنچنے کے بعد دونوں فریقین کی رضامندی سے جنسی تعلق میں داخل ہوجانا کوئی غیر قانونی فعل نہیں ہے۔ اسے سماجی طور پر بھی قبولیت کا درجہ حاصل ہے لیکن ایسا کرنے والی بڑی تعداد بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ کے تعلق میں بھی بندھ جاتی ہے۔ یعنی وہ میاں بیوی کی طرح اکٹھے رہتے ہیں اور انہیں ریاست بھی قانونی جوڑے کے طور پر تسلیم کرتی ہے، جن میں پھر بڑی تعداد باقاعدہ شادی بھی کرلتی ہے لیکن لڑکوں اور لڑکیوں کی ایسی تعداد بھی کم نہیں جو جنسی تعلق تو پسند کرتے ہیں لیکن کسی قسم کے بندھن میں داخل نہیں ہوتے۔ قانون اور کلچر دونوں میں ایسا کرنے کی بھی آزادی ہے، یہی وجہ ہے کہ عورت اسقاط حمل کی چوائس کو کلچر اور قانونی طور پر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ البتہ ان معاشروں میں زبردستی یا یکطرفہ والے عمل کو ریپ کے زمرے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے والے فریق کو جیل کی لمبی ہوا بھی کھانی پڑ جاتی ہے۔ رضامندی کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں بھی دونوں فریقین کی باہم رضامندی نہ ہو اور دوسرا فریق قانون کا دروازہ کھٹکھٹا دے تو جبر کرنے والے پارٹنر کو لمبی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ایسا ہم نے یہاں بارہا ہوتا بھی دیکھا ہے۔ عدالت اس میں تشدد کا پہلو بھی دیکھتی تو ضرور ہے اور ان کے ماضی کے تعلقات اور اس ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے پس منظر کو اچھی طرح جانچتی اور پرکھتی ہے، میں نے یہاں جبراً جنسی عمل کرنے والے شوہروں کو ایک سال سے سات سال تک کی جیل سزا ہوتے دیکھی ہے۔ امریکہ میں1973ء میں ہی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت اسقاط حمل کے حق کو ریاستی قانون بنادیا گیا تھا لیکن اب حالیہ فیصلے کے بعد عوام بالخصوص خواتین میں غم و غصے کی لہر قابل فہم ہے کیونکہ جس نسل کو اس پابندی میں داخل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے تو کبھی بھی ایسی پابندی دیکھی، سنی ہی نہیں بلکہ وہ تو ان معاشروں پر انگلی اٹھاتے ہیں جہاں ایسا قانون نہیں ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں مذہبی طور پر اسقاط حمل کے خلاف ضوابط موجود ہیں، مثلا ٹیکساس یا کنٹکی ریاستوں میں، جہاں میڈیکل انشورنس بھی اسقاط حمل کو شامل نہیں کرتی۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی طویل مباحث کے بعد1967ء میں متعدد صورتوں میں اسقاط حمل کی آزادی دے دی گئی تھی۔ اس قانون کا اطلاق1968ء سے ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ایسا قانون بننے کے بعد اسقاط حمل نیشنل ہیلتھ کے تحت آگیا تھا۔ یعنی امریکہ کی طرح اس کام کے لیے خواتین کو پرائیویٹ میڈیکل ہیلپ نہیں لینی پڑتی تھی۔ اس قانون کے اطلاق سے آئر لینڈ مستثنیٰ تھا۔ یورپی ممالک اس قانون کے حوالے سے اپنی اپنی علیحدہ تاریخ اور پس منظر رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ میں اسقاط حمل پر پابندی نے عورتوں پر یہ لازمی کردیا ہے کہ وہ اس حق سے محروم رہ کر حمل کی کیفیت کو لے کر چلتی رہیں اور بچہ پیدا کریں، جوکہ عورت کی مرضی کے مکمل خلاف عمل ہوگا۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہمارے پاکستان جیسے ملکوں میں بھی موجود تو ہیں لیکن ہم ان پر اپنے کلچرل حدود اور مذہبی قدغنوں کی وجہ سے کھلے عام بحث کرنے کو تیار نہیں ہوتے، کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے اخلاقی دائروں سے باہر کا ایشو ہے۔ ہم جنسی مسائل پر بات چیت کرنے کے حوالے سے مغربی دنیا سے شاید بہت پیچھے ہی ہوں لیکن مختلف ضرور ہیں، ہمارا شراب کی طرف بھی اسی طرح منافقانہ رویہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شراب پر پابندی ہے لیکن پاکستان میں معززین کی کوئی ایسی محفل نہیں ہوتی جہاں شراب کا استعمال نہ کیا جاتا ہو، بلکہ شراب کے بغیر منعقدہ محفل کو پھسپھسی محفل سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال امریکہ اور یورپ میں ایسے تمام انسانی ایشوز پر پردہ ڈال کے جرم کی طرح عمل کرنے کو بہت منفی قرار دیا جاتا ہے اور ان ایشوز پر بات کرنے، احتجاج کرنے اور فطری امور پر قانون سازی کرنے کو اور جائز بنانے کو درست سمت سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں خواتین سراپا احتجاج ہیں۔