ڈاکٹر پروفیسر اسلم فرخی مرحوم: علم و عرفان کا بحرِز خار

July 07, 2022

برصغیر ہندو پاک میں اردو کے بڑے مراکزدلّی، لکھنؤ، حیدر آباد اور لاہورکے بعد تقسیم ہند کے نتیجے میں کراچی اُردو کا ایک بڑا مرکز کہلایا اور اس مرکزکی پہچان جو ادیب، دانشور، ناقد، کالم نگار اور صحافی بنے اُن میں ایک معتبر، معزز، مقبول اور محترم نام ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم کا ہے۔ وہ خوش فکر شاعر، صاحب طرز ادیب ژوف نگار ناقد اور بہت چاہے جانے والے اُستاد تھے۔ راقم الحروف کواُن کی شاگردی کا فخر حاصل ہے۔ اُن کی تدریس کا عمل نصف صدی سے زائد رہا اور ملک و بیرون ملک اُن کے شاگرد آج بھی اُن سے فیض حاصل کرنے کو باعث ِ افتخار سمجھتے ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے رجسٹرار بھی رہے۔

اُستاد بھی رہے اور جامعہ کے علمی اور ادبی اداروں سے وابستہ بھی رہے۔ اُردو لغت بورڈ کو انہوں نے علم و ادب اورفکر و فن کا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے والے متعدد اساتذہ آج بھی علم کی دولت تقسیم کرنے میں کوشاں ہیں۔ مجھے اُن کی شاگردی کا فخر گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں حاصل ہوا۔ میں چار سال تک اُن سے علم کی روشنی حاصل کرتا رہا اور پانچ سال تک اُن کے ساتھی اُستاد کی حیثیت سے اُن سے کسب فیض حاصل کرتا رہا۔

میری طالب علمی کے زمانے میں وہ ناظم آباد نمبر 4 میں ’’روشن سراج‘‘ نام کی ایک معروف عمارت میں مقیم تھے۔ وہ کالج کے بعد اپنی قیام گاہ پر اپنے طلبا کی رہبری فرماتے تھے اس ذیل میں اُن کی بیگم ’’تاج آپا‘‘ اُن کی معاونت کرتی تھیں۔ اسلم فرخی مرحوم بڑے باوضع، خلیق، ملنسار، منکسرالمزاج ، دوستدار، خوش فکر، خوش لباس اور متواضع انسان تھے۔ اپنے شاگردوں کو وہ اپنے بچوں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔ بعد میں وہ گلشن ِ اقبال میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا گھر علم و ادب، فکر وفن، دیدئہ و دانش اور نظرو بصر کا مرکز بن گیا جہاں پر اتوار کو صاحبان علم، صاحبانِ ذوق، شعرو ادباء اور تصوف سے شغف رکھنے والے جمع ہوتے اور ان کی علمیت آگاہی اور ادراک سے مستفید ہوتے۔

اسلم صاحب، صاحب ِ عرفان بھی تھے اور صاحبِ حال بھی، ہر سال وہ اپنے کچھ چاہنے والوں اور مریدوں کے ساتھ نظام الدین اولیاء کے عرس میں شرکت کیلئے دلّی جاتے جہاں اُن کو علم و عرفان کو نئی جہت مل جاتی۔ مرحوم ہمیشہ ہر کسی کی ہر مدد کے لئے تیار رہتے۔ مولانا محمد حسین آزاد پر ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بہت ممتاز اور مقبول ہوا۔ انہوں نے ملنے والوں کے خاکے بھی لکھے اور حضر ت نظام الدین اولیاء سے متعلق چند رسائل بھی ترتیب دیئے موضوع جو کچھ بھی ہو اُن کی بے ساختہ، سلیس رواں زبان قاری کی دلچسپی حاصل کر لیتی۔

میں زمانۂ طالب علمی میں کالج کی طلباء کی تنظیم کا معتمد ِ عمومی منتخب ہوا تو اسلم صاحب نے قدم قدم پر میری رہبری کی۔ کالج کے اُردو کے اساتذہ ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم، انجم اعظمی مرحوم، شاہد عشقی اور راقم الحروف تدریسی کے وقفے میں جمع ہوتے تو علم و ادب کا ایک گلزار سج جاتا۔ شہر میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا ذکر ہوتا۔

نئی کتابوں پر تبصرہ ہوتا اورکالج کے شعبہ اُردو کو مزید فعال بنانے کی تجاویز زیرِ غور آتیں۔ اسلم فرخی صاحب ریڈیو پاکستان کے لئے مستقل مضامین اور تقاریر لکھتے تھے اس ضمن میں کبھی کبھی کالج میں تابش دہلوی بھی تشریف لے آتے تو اس محفل میں مزید جان پڑ جاتی۔ ذہانت اور اچھی یادداشت اسلم صاحب کا طرئہ امتیاز تھی اُن سے کوئی ادبی سوال کیا جاتا تو وہ :

؎ اِک ذرا چھیڑ ئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے کی تصویر بن جاتے

سوال کا پس منظر اور تاریخ بیان کرتے اگر سوال شاعری سے متعلق ہوتا تو عربی فارسی کی مثالیں اور ساتھ ساتھ دیتے جاتے، انہیں اُردو فارسی اور عربی پر کامل عبور تھا۔ مجھے بہت تعجب ہوا جب اُن کا لکھا ہوا ایک خط پڑھ کر ایک انگریزی اسکول میں پادری پرنسپل نے کہا ’’میں نے آج تک کسی پاکستانی کی ایسی شفاف رواں اور علمی انگریزی نہیں پڑھی‘‘اسلم فرخی مرحوم ہماری ادبی تاریخ کا ایک یادگار اور فکرانگیز حصہ ہیں۔ انہیں پڑھنے والے اور ان کے سیکڑوں شاگرد ان کی علمیت سے ہمیشہ فیض اٹھاتے رہیں گے۔

اِک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے