باغبانی صحت مند زندگی کیلئے ضروری ہے

July 21, 2022

میڈیکل سائنس بھی اب یہ بات بتارہی ہے کہ باغبانی ایک صحت مند اور تعمیری سرگرمی ہے، جس کے انسانی صحت پر مثبت اور طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک طبی مطالعہ کے نتائج سے اَخذ کیا گیا ہے کہ باقاعدگی سے باغبانی اور اس جیسی سرگرمیوں میںحصہ لینے والے افرادکی صحت، نفسیات، سماجی تعلقات اور مجموعی زندگی میں واضح بہتری دیکھی جاتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہفتے میں تین سے پانچ بار 30سے 45منٹ کی باغبانی وزن کم کرنے کی اچھی حکمت عملی ثابت ہوتی ہے۔

باغبانی کے باعث دل کے امراض کے خطرات کم ہوتے ہیں اور آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کا بھربھراپن کی بیماری) میںبھی باغبانی مفید رہتی ہے۔ زمین کھودنے اور پودے لگانے سے ہڈیوں میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے اور پٹھوں کی اچھی ورزش ہوجاتی ہے۔ چونکہ باغبانی ایک آؤٹ ڈور سرگرمی ہے، جس میں دھوپ اور کھُلی فضا میں کام کیا جاتا ہے، یوں جسم میں وٹامن ڈی کی کمی پوری ہوجاتی ہے۔

باغبانی کے ذریعے اسٹریس یعنی ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ بنیادی طور پر ایک خاص قسم کے ہارمون کارٹیسول کے خارج ہونے سے ہوتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ باغبانی کرنے والے لوگوں میں یہ ہارمون باغبانی نہ کرنے والوںکے مقابلے میں کم خارج ہوتا ہے۔

باغبانی کا فائدہ صرف باغبان کو ہی نہیں ہوتا۔ باغبانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سبزے اور ہریالی سے گھر یا ارد گرد رہنے والے لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں۔ سبزے اور ہریالی کے درمیان رہنا انسانی صحت کے لیے کس قدر مفید ہوتا ہے، اس حوالے سے ایک نئی تحقیق نے مزید ثبوت پیش کیے ہیں، جس میں سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ جہاں زیادہ پودے اور ہریالی ہوتی ہے، وہاں رہنے والے افراد نسبتاً زیادہ عمر پاتے ہیں۔

متذکرہ جائزہ انسانی صحت پر ماحول کے اثرات کو سمجھنے کے حوالے سے تھا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ کم ہریالی والے علاقوں میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں قدرتی ماحول سے قریب رہنے والے افراد میں شرح اموات کم تھی۔

یہ مطالعہ ہارورڈ ٹی ایچ چان اسکول آف پبلک ہیلتھ اور بوسٹن میں بریگھم اینڈ وومن ہاسپٹل کی جانب سے کیا گیا تھا، جس سے پتا چلا کہ کم پودوں اور درختوں والے علاقے میں رہنے والے افراد کے مقابلے میں ماحول دوست علاقوں میں رہنے والے افراد میں مجموعی طور پر شرح اموات 12فیصد کم تھی، جس کے بعد محققین نے لکھا کہ شرحِ اموات میں کمی کے نتائج کے ساتھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پودے اور ہریالی ہماری صحت کے لیے کئی طریقوں سے انتہائی مفید ہو سکتے ہیں۔

ہارورڈ ٹی ایچ چان اسکول آف پبلک ہیلتھ سے منسلک تحقیق کے شریک مصنف پیٹر جیمز نے کہا کہ ہم ہریالی کی نمائش میں اضافے اور کم شرح اموات کے درمیان مضبوط تعلق کا مشاہدہ کرنے پر حیران تھے۔ ہمیں بالخصوص گردے، سانس کی بیماری اور کینسر سے متعلق اموات کی شرح میں سب سے بڑے اختلافات ملے۔ اس کے ساتھ ہی محققین نے اپنے تجزیہ میں یہ بھی کھنگالنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح پودے، جھاڑیاں اور سبزے پر استوار ماحول، شرحِ ا موات کم کرسکتا ہے۔

محقق پیٹر جیمز نے کہا کہ، خاص طور پر ہمیں ہریالی کا ذہنی صحت پر ایک اہم مثبت اثر ملا ہے۔ مطالعہ سے ظاہر ہوا کہ وہاں کئی میکانزم تھے، جو کہ ہریالی اور شرح اموات میں کمی کے درمیان تعلق کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جن میں بہتر ذہنی صحت اور سماجی مصروفیت مضبوط ترین عوامل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ اور کم فضائی آلودگی بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

دریں اثناء محققین نے سبزے اور پودوں کے ارد گرد رہنے والی خواتین میں ڈپریشن کی 30فیصد کم سطح کو ہریالی کے فوائد کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ پودے اور درخت ہماری کمیونٹیز کو صحت اور ساتھ ساتھ خوبصورتی کے فوائد فراہم کرتے ہیں۔ یہ مطالعاتی جائزہ برطانوی ماحولیاتی ہیلتھ سائنس کے قومی ادارے (این آئی ای ایچ ایس )کی طرف سے فنڈ کیا گیا تھا۔ اس میں نرسوں کی صحت کے ایک طویل المیعاد مطالعہ میں شامل افراد کے گھروں کے ارد گرد پھیلی ہریالی کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

اپنے مطالعے کے لیے محققین نے سیٹیلائٹ کے ذریعے گھروں کے مقامات سے 250 سے 1,250 میٹر کے اندر اندر سبزہ اور ہریالی کی سطح کا تعین کیا تھا۔

یہ رجحان موت کی الگ الگ وجوہات کے لیے بھی دیکھا گیا تھا او جب محققین نے کم ہرے بھرے ماحول میں رہنے والے افرادکا مقابلہ سبزہ اور ہریالی سے بھرپور علاقوں میں رہنے والے افراد کے ساتھ کیا ،تو انھیں پتا چلا کہ وہاں گردوں کی بیماری کے لیے 41فیصد کم شرح اموات تھی ،اسی طرح سانس کی بیماری کے لیے 34فیصد کم شرح اموات تھی، علاوہ ازیں ماحول دوست علاقوں میں کینسر کے لیے 13فیصد کم شرح اموات پائی گئی۔

محققین نے موت کے خطرے میں اضافہ کرنے والے دیگر عوامل مثلاً شرکاء کی سماجی واقتصادی حیثیت، عمر، جنس، قومیت اور نسل اور تمباکو نوشی سمیت لوگوں کے طرزِ زندگی کو بھی دیکھا اور ان عوامل کو شامل کرنے کے بعد محققین اور بھی زیادہ پُر اعتماد ہیں کہ ان عوامل کے مقابلے میں پودے اور سبزہ شرحِ اموات میں کمی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔