ڈی این اے ٹیسٹ سے بچوں کی ذہانت جانچنا

July 31, 2022

دنیا ایک دلچسپ مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے، جہاں50ڈالر کا ڈی این اے ٹیسٹ آپ کو یہ بتائے گا آپ کے ڈاکٹریٹ کرنے کے کیا امکانات ہیں؟ آپ غالباً یہ بھی جان سکیں گے کہ آپ کے بچے کا داخلہ کسی مخصوص اسکول یا کالج میںہوپائے گا یا نہیں؟ امریکا سے تعلق رکھنے والے ماہر جینیات رابرٹ پلومن کہتے ہیں کہ مستقبل میں بالکل ایسا ہی ہو گا۔

کئی دہائیوں تک جینیاتی محققین ذہانت کے پیچھے موروثی عوامل کی تلاش کرتے رہے ہیں، لیکن اس میں انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب جینیاتی مطالعہ جات اس قدر وسیع اور مؤثر ہوگئے ہیں کہ یہ ذہانت سے وابستہ جینیاتی فرق کی کھوج لگاسکیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک، جین کو آئی کیو ٹیسٹ کے نتائج سے کبھی منسلک نہیں کیا گیا تھا، تاہم اب ان دونوں کے درمیان تعلق پر تحقیق کی جارہی ہے اور اب تک، دو لاکھ افراد پر ٹیسٹ کرنے کے بعد500سے زائد جینز کو آئی کیو سے منسلک کردیا گیا ہے۔ پلومن کے مطابق، ان دریافتوں کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم ایک چھوٹے بچے کا ڈی این اے پڑھ کر اس کی ذہانت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

پلومن کے ٹیسٹنگ منظرنامے کے کئی پہلو پہلے ہی سے وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ کم از کم تین آن لائن سروسز نے، جن میں ’جِین پلازا‘، اور ’ڈی این اے لینڈ‘ شامل ہیں، لعاب کے نمونے سے کسی بھی شخص کی جینیاتی ذہانت کا تعین کرنے کی سہولت متعارف کروائی ہے۔

ایک کمپنی 23andMe کے مطابق، جو اس وقت صارفین کو ڈی این اے ہیلتھ رپورٹس فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، وہ لوگوں کو ان کے ذہنوں کی ریٹنگ نہیں بتاتی کیوں کہ اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ صارفین کے لیے یہ معلومات قابل قبول نہیں ہوں گی۔

کئی ماہرین تعلیم کے لیے نئی پیش رفت کافی پریشان کن ہے اور ان کی رائے کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے بچوں کے تعلیمی امکانات کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسیسکو میں تعینات ماہر عمرانیات کیتھرین بلس نے اپنی ایک کتاب میں سوشل سائنس میں جینیات کے استعمال کے متعلق کئی سوالات اُٹھائے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک RFID ٹیگ کی طرح ہے، آپ جہاں بھی جائیں گے، ہمارے پاس آپ کے متعلق معلومات ہوں گی۔ ہر کسی کو معلوم ہوگا کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں۔ یہ صورتحال بہت خوفناک ہے‘‘۔

جینز کی تلاش

آئی کیو ٹیسٹ میں ذہانت کے عمومی عنصرـ'g'کی پیمائش کی جاتی ہے۔ جن افراد کی ریاضی، استدلال، بولنے کی صلاحیت اور ٹیسٹ کے ذریعے قابل پیمائش دیگر صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں، ان کا 'g' بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں، بلکہ 'g' کے عنصر کا آپ کی آمدنی، خوشی، صحت اور عمردرازی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ مجموعی طور پر'g' جتنا زیادہ ہوگا، آپ کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پلومن کے مطابق، یہ زندگی کا’قادر مطلع متغیر‘ ہے۔

یہ کافی حد تک موروثی بھی ہے۔ ایک جیسے اور مختلف، اور ایک ساتھ اور علیحدہ پلے بڑھے جڑواں بچوں کے موازنوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہانت کے آدھے سے زیادہ حصے میں جینیات کا ہاتھ ہے، جو جینز کے لحاظ سے بہت بڑا اثر ہے۔ باقی ذہانت میں آپ کے اسکول، آپ کی غذا اور دیگر ماحولیاتی عوامل کا ہاتھ ہے۔

لیکن وہ مخصوص جینز کون سے ہیں جو ذہانت کے ذمہ دار ہیں؟پلومن نے 2010ء میں7900بچوں کےجینوم کا تجزیہ کیا ، تاہم اس وقت یہ کھوج کچھ خاص کامیاب نہیں رہی تھی۔ مئی 2017ء میں، اس سلسلے میںانھیں بالآخر کامیابی ملی۔ 78ہزار308افراد کا جینیاتی ٹیسٹ لیا گیا، جن میںپلومن کے زیر تجزیہ 2ہزار825جڑواں بچے بھی شامل تھے۔ اس ٹیسٹمیںجینز کی 22 اقسام کا آئی کیو کے ساتھ تعلق ثابت ہوا۔ جلد ہی جینیاتی ٹیسٹ لینے والے افراد کی تعداد 1لاکھ 99 ہزار تک جاپہنچی، جب کہ آئی کیو سے 500جینز کاتعلق ثابت ہوا۔

اب تک جو جینیاتی متغیر تلاش کیے گئے ہیں، وہ ذہانت کو یا تو معمولی حد تک بڑھاتے یا کم کرتے ہیں۔ ان انکشافات کو ایک ذاتی ذہانت کے ٹیسٹ میں تبدیل کرنے کا راز کیا ہے؟ بس کسی بھی مخصوص شخص کے جینوم میں پائے جانے والے مثبت اور منفی عناصر کو جمع کردیں۔ اس قسم کے اندازوں کو’پولی جینک اسکورز‘ کہا جاتا ہے۔

پلومن کے مطابق، رنگین بلاکس پر مشتمل ذہانت کے ٹیسٹ بچوں کے لیے شاذونادر ہی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں اور ان میں مستقبل کی کارکردگی کی درست طورپر نشاندہی نہیں ہوپاتی۔ اس کے برعکس، آپ کا ڈی این اے آپ کے پاس آپ کے پیدائش ہی کے دن سے موجود ہوتا ہے اور اس میں کبھی بھی کسی بھی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کے ابتدائی حصوں ہی میں دیگر ٹیسٹ کے مقابلے میں ڈی این اے سے ذہانت کی بہتر طور پیشگوئی ہوسکتی ہے۔

آئی کیوا سکور برائے فروخت

23andMe یا Ancestryجیسے ڈی این اے پیمائش کروانے والوں کو معلومات فراہم کرنے والے پلیٹ فارم پہلے سے ہی جینیاتی ذہانت کے تخمینے پیش کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر GenePlaza کے صارفین اپنا 23andMe کا ڈیٹا اَپ لوڈ کرکے 4اضافی ڈالر ادا کرکے ’انٹیلی جنس اَیپ‘ تک رسائی حاصل کرسکتے ہيں، جہاں 2017ء کے مطالعے سے حاصل کردہ معلومات استعمال کرتے ہوئے ان کے آئی کیو جینزکی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس طرح کی درجہ بندی ’ڈی این اے لینڈ‘بھی کررہی ہے۔