پیلوسی تائیوان ٹرپ …

August 11, 2022

خیال تازہ … شہزادعلی
امریکی ایوان نمائندگا ن کی اسپیکرنینسی پیلوسی کے گزشتہ ہفتے کے تائیوان ٹرپ سے متعلق بعض نے جو یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ یو ایس ہاؤس سپیکر ٹرپ ایسے وقت میں ہو رہاہے کہ جب چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات پہلے سے ہی خطرناک صورتحال کا مظہر تھے اور اس ایڈونچر سے تعلقات کار مزید خراب ہوں گے یہ تبصرے سچ ٹابت ہوئے ہیں ۔چین نے اس دورہ پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے اور متنبہ کیا کہ اس کے نتائج خطرناک برآمد ہوں گے۔ دی ٹائمز نے اپنے ایک لیڈنگ آرٹیکل میں اس امر کی وکالت کی ہے کہ چین کی مذمت کے باوجود، سینئر امریکی سیاست دانوں کا تائیوان کا دورہ ایک خوش آئند موقف ہے اور یہ کہ تائیوان میں ویسٹرن انگیجمبٹ کو فروغ دینا چاہیے۔ تیانمن اسکوائر کے قتل عام کے دو سال بعد 1991 میں بیجنگ کے دورے پر، نینسی پیلوسی اور امریکی ایوان نمائندگان کے دو دیگر ارکان نے "چین میں جمہوریت کے لیے جان دینے والوں" کے لیے وقف ایک بینر لہرایا تھا۔ اب ایوان کی اسپیکر، نینسی پیلوسی کو کانگریس کے وفد کے سربراہ کے طور پر تائیوان کا سفر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس مبینہ طور پر اشتعال انگیز اشارے نے چین کو جزیرے سے دس میل دور سمندروں میں فوجی مشقوں کا اعلان کرنے پر اکسایا ہے۔ دی ٹائمز نے نینسی پیلوسی کے خلاف اس الزام کو من گھڑت قرار دیا اور یہ لکھا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی آمرانہ ریاست سے مسلسل خطرے میں پڑنے والے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اصولی اظہار تھا۔ تائیوان بین الاقوامی تناظر میں ایک ناقابلِ رشک مقام رکھتا ہے ۔ اس کی آبادی 23ملین افراد پر مشتمل ہے، اپنے پاسپورٹ جاری کرتا ہے اور اس کی اپنی مسلح افواج اور آئینی حکومت ہے۔ اس کے باوجود چین کی ہٹ دھرمی اور بیجنگ کو ناراض کرنے میں دوسری ریاستوں کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے اس کے پاس اتحادیوں کی کمی ہے۔ دی ٹائمز نے یہ بھی لکھا کہ نینسی پیلوسی کا تائیوان کا دورہ حالیہ تاریخ میں منفرد نہیں ہے۔ نیوٹ گنگرچ نے، ایوان کے ریپبلکن اسپیکر کے طور پر، 1997میں ایسا ہی سفر کیا تھا۔ اور یہ کسی بھی صورت میں پوری طرح سے مناسب ہے کہ دنیا کی معروف جمہوریت کے سینئر سیاستدانوں کو آزاد ممالک کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور یہ بھی زور دیا ہے کہ علاقائی دفاع کے لیے تائیوان کی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہیے۔ مغربی ممالک کی سوچ دی ٹائمز کے آرٹیکل سے واضح ہو جاتی ہے جبکہ دوسری جانب چین کا نقطہ نظر خاصا مختلف ہے۔ امریکہ کی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کا تائیوان ٹرپ 1997 کے بعد یہ 25 برس میں تائیوان کا وزٹ کرنے والے امریکہ کے کسی پہلے اعلیٰ شخصیت کا دورہ تھا۔ اس تناظر میں ان اطلاعات کو معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کی قیادت میں ایک امریکی وفد کے دورۂ تائیوان کے بعد چینی افواج نے تائیوان کے گرد چینی فورسز نے تائیوان کے گرد بڑے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نینسی پیلوسی نے دورہ تائیوان میں پارلیمان سے بھی خطاب کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کے آزاد ترین معاشروں میں سے ایک ہونے پر تائیوان کے معترف ہیں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے الیکٹرانکس چپس کی صنعت کیلئے ہونے والی نئی امریکی قانون سازی سے تائیوان کے لیے زیادہ مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دنیا کو مطلقِ العنانیت اور جمہوریت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا سامنا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کی گفتگو چین کو ناراض کر سکتی ہے ۔بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ آبدوز کش حملوں اور سمندری کارروائیوں کی مشق کرے گا۔ تائیوان کاردعمل ہے کہ چین ان مشقوں کو جزیرے پر حملے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان نے چینی مشقوں کی مذمت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کا مقصد آبنائے تائیوان میں طاقت کے موجودہ توازن کو بدلنا ہے۔ چین تائیوان کو اپنے ایک الگ ہونے والے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جہاں بوقت ضرورت وہ طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے لیکن تائیوان کا د عویٰ ہے کہ وہ ایک خود مختار جزیرہ ہے جو خود کو چین سے الگ سمجھتا ہے۔ اس تناظر میں امن کے نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں کی جانب سے تائیوان کو علیحدہ ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی بھی اشارہ چین کے غصے اور اشتعال دلانے کا سبب بنتا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے چینی مشقوں کو غیر ذمہ دارانہ اور انہیں آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے ان کے دیرینہ مقاصد کے منافی قرار دیا تاہم چین نے برملا کہا ہےکہ نینسی پیلوسی کے دورے نے آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ لاحق کر دیا ہے۔ چین نے نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے جواب میں امریکہ کے ساتھ کئی شعبوں میں سفارتی تعاون معطل کر دیا ہے، جس میں اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ بیجنگ کی فوج نے اس جزیرے کے ارد گرد بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں کا انعقاد جاری رکھا، وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات کو روک رہی ہے، ساتھ ہی سرحد پار جرائم کی روک تھام، منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے اور غیر قانونی تارکین وطن کی وطن واپسی پر تعاون کو روک رہی ہے۔ ساتھ ہی امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر پیلوسی اور ان کے اہل خانہ پر تائیوان کے دورے پر ان کے "چین کی سخت مخالفت اور سخت نمائندگی کو نظر انداز کرنے" کی وجہ سے غیر متعینہ "پابندیاں" بھی لگائی گئیں۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے امریکی سفیر نکولس برنز کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا اور خبردار کیا کہ امریکہ کو اس دورے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اور اپنے بیان میں کہا کہ جو لوگ آگ سے کھیل رہے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے بیجنگ کی جانب سے کلائمیٹ چینج، فوجی مذاکرات اور بین الاقوامی جرائم کے خلاف کوشش سمیت مختلف شعبوں میں امریکہ کے ساتھ تعاون کو روک دینے کے اعلانات اور نینسی پیلوسی فیملی پر پابندیاں صورتحال کی سنگینی کا اظہار ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلِنکن نے چین پر واشنگٹن کے ساتھ رابطوں کے اہم ذرائع کو بند کرنے کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ اقدامات کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس تنازع کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چین اور تائیوان بنیادی باتیں جاننے کی ضرورت ہے۔ چین اور تائیوان کے تعلقات کی کشیدگی کی وجہ، چین اس علاقے کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اسے چین کا حصہ بننا پڑے گا، چاہنے اس کے لیے طاقت ہی استعمال کیوں نہ کرنی پڑے۔ تائیوان کو فقط چند ایک ملکوں نے تسلیم کیا ہے۔ اکثریت بیجنگ میں قائم چینی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ کے تائیوان سے سرکاری تعلقات نہیں ہیں لیکن ایک قانون موجود ہے جو اپنے دفاع کے لیے تائیوان کو مدد فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بی بی سی نے اپنے ایک جائزہ میں اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی بتایا کہ نینسی پیلوسی کے اس متنازع دورے کے بعد سے خطے میں سیاسی مباحثے تیز ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک انڈیا نے اس کے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے جو معنی خیز ہے جبکہ دوسری جانب انڈیا کے تقریباً تمام پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، میانمار، نیپال اور سری لنکا نے چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی کی حمایت کی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے تین اگست کو ایک بیان میں یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ ’ون چائنا‘ پالیسی پر قائم ہے اور وہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ توجہ بھی دلائی کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا پہلے ہی سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا کسی ایسے بحران کا سامنا نہیں کر سکتی جس کے عالمی امن، سلامتی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں۔