مسائل سے بھری آزادی کا جشن

August 14, 2022

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ویسے کہنے کو تو جذباتی طور پر اور دیوانگی کی حد تک ہمیں اپنے وطن کے قصیدے ہی پڑھتے ہیں کیونکہ شعوری طور پر جب قوم کی مت ماری جائے تو وہ پھر مسائل کے بوجھ میں بوکھلاکر جذباتی اور دیوانہ وار بڑھک بازی شروع کردیتی ہے۔ ہماری آزادی مسائل سے بھرپور ہے مگر یہ شعور جو مسائل و مشکل سے بھرا ہے وہ آزادی کی سرشار فضا میں دب سا جاتا ہے۔ اب بتایئے ذرا اس ملک کا نوجوان جب ون ویلنگ کرتا روڈ کی سائیڈ پر کھڑے لوگوں کو محظوظ کرے گا تو کسی کو یا اسے کیا پڑی ہے کہ وہ نوکری کی فکر کرے۔ جب نوجوان موٹر بائیک کے سائلنسر کے بے ہنگم شور سے دوسروں کی سماتی قوت کو چیخوں سے کمزور کرے گا۔ ایسی رونق میں کون ان جوانوں کو یاد کرے گا کہ کس نے کس عمر میں ’’کے ٹو‘‘ کی چوٹی سر کی اور کون، کون سے پاکستانی ایتھلیٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں کون کون سے تمغے حاصل کیے۔ہمارے کھیل، ہماری ثقافت، ہماری تہذیب اور حتیٰ کہ اب مذہب بھی کہیں پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ ملکی مسائل حس و بے حس کو آزادی کے راگ گانے کی فرصت تو دیتے ہیں مگر جوش و جذبات میں تھوڑی دیر کو آنکھیں بند ہوجاتی ہیں، اس کے بعد پھر سے وہی ناگ رقصاں ہوجاتا ہے، جسے ہم مشکل و مسائل بھری زندگی کہتے ہیں۔ آپ انصاف کیجئے کہ جس محرومی کا شکار ہم لوگ آزادی کی جنگ لڑنے سے لے کر آزادی پانے تک محروم ہیں، کیا ہم نے اپنی کوئی کوتاہی، کوئی غلطی سنواری ہے ابھی تک، ہم مستحکم تو کیا ہوں گے ہم تو پاکستانی قوم کی حیثیت سےاب تک ثابت قدم بھی نہیں۔جو چیز ہمارے یہاں پروان چڑھی ہے وہ صرف اور صرف ہمارے آپسی اختلافات ہیں جو خوب ترقی کررہے ہیں۔ مذہبی اختلافات، فرقہی فسادات و اختلاف، سیاسی اختلافات، نظریاتی اختلافات کی جنگ، شخصی اختلافات، ہم نے تو قائداعظم کے نظریات و افکار کو بھی اپنے اپنے نظریے کی بھینٹ چڑھاکر اپنے ہی طور پر پروان چڑھایا۔ قائداعظم اپنے نوجوان طبقے کو ایسا نہیں دیکھنا چاہتے تھے، انہیں تو نوجوانوں کو پاکستان کا معمار دیکھنا تھا جو ہر قسم سے پاکستان کو بہتر بناسکیں۔ پاکستان کے معمار ترقی تو کیا کریں گے پہلے وہ یہ تو کریں کہ یکجہتی کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر دکھائیں تو جوان بھی کہیں فرقہ بندی اور دوسری گروپ بندی کا شکار ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ ہم نے کسی بھی شعبے میں کوئی خاص ترقی نہیں کی یعنی کہ سائنسی ترقی تو کوئی خاص نہیں کی مگر پاکستان کے عجائب گھر میں سجانے کو ایٹم بم ضرور بنایا ہے وہ بم جو آئے روز غرباء پر گرتا ہے، تو یہ ایٹم بم اس جیسے کئی بموں تو کیا کسی چھوٹے سے بم سے بھی نہیں بچا سکتا۔ حالانکہ اتنے بڑے امریکی ساخت کے ایٹم بم سے تو پاکستانی مسائل کا قلع قمع ہوچکا ہوتا، دلدر دور ہوچکے ہوتے۔جشن آزادی منانا بے شک ہماری دلی و روحانی مسرت اور شادمانی کا نام ہے، مگر یہ روحانی خوشی مزید دوبالا ہوجائے، جب ہماری نوجوان نسل تعلیم کے منازل طے کرنے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے۔ سیاسی جماعتیں عوام و ملک کا سوچیں، خواتین اور بچوں کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہو، کسی کی لاش بریدہ ہوئی، کھیتوں اور نہروں سے نہ ملیں، انسانی جان کی قدرو قیمت ہر حال میں مقدم ہو، ایک دوسرے کو قتل کرنا عام نہ ہو، دولت لالچ کا اور اقتدار کی پامالی نہ ہو، مذہب، زبان، علاقہ پرستی کی تکرار نہ ہو، ہر حکمران خاص و عام کی جان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی عزت ہو، ہر ملک ہماری عزت کرے اور ہم ان سے اچھے تعلقات استوار کریں۔ ہم ترقی میں اس قدر مستحکم ہوں کہ ہمارا مقابلہ و موازنہ نہایت چھوٹے اور پسماندہ ملک سے نہ ہو۔ ہمیں یہ طعنہ سننے کو نہ ملے کہ جس ملک کو ہم ٹکا ٹوکری ملک کہہ کر چھیڑتے ہیں، وہی ملک ہر قسم کی ترقی میں ہم سے آگے نکل جائے۔ اس کی شرح اموات ہم سے کئی گنا کم ہو۔ اس کے بچوں کی تعلیمی میدان میں تناسب98فیصد ہو، جبکہ ہمارے یہاں72فیصد ہو۔ وہاں پر ہر قسم کے مسائل سے ملک کو نکال لیا گیا ہو اور ہم ابھی سیاسی دائو پیچ سے قو م کو نبرد آزما ہونے کے گر سکھا رہے ہوں۔ ہم نے ویسے کھیلوں کے سامان میں ترقی کی ہے، ہمارے سیالکوٹ کا کھیلوں کا سامان دنیا بھر میں دکھائی دے رہا ہے تو وہیں پر بنگلہ دیش بھی دنیا بھر کو گارمنٹس ایکسپورٹ کررہا ہے، آپ یوکے اور یورپ میں کوئی بھی چیز جیسے دسترخوان سے لے کر تولیہ تک خریدیں اس پر میڈ ان بنگلہ دیش کا ٹیگ لگا ہوتا ہے۔ منفی اعتبار سے پاکستان پھر بھی بے شک آگے ہے بنگلہ دیش سے اور ہونا بھی چاہیے۔جیسے جیسے پاکستان پیری و بزرگی کی طرف جاتا ہے، ویسے ویسے ہی اس کی طویل عمری کی دعائیں بھی تیز تر ہوجاتی ہیں کہ:
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
پاکستان کی آزادی ہماری آزادی ہے اور یہ ہمیں ہر طرح سے عزیز ہے، بھلے یہاں اب ترقی ہو یا کب ترقی ہو؟ کسی بھی قسم کی آزادی ہو، مسائل سے بھری یا مسائل سے عاری، ہمیں اس کے پھول او کانٹے ہر چیز عزیز ہے۔ تب ہی تو ہم بھی کہتے ہیں کہ:
اپنے ہی رنگ میں یہ رنگ بہار ہے
میرا وطن ایک حسین چمن زار ہے