ازدواجی زندگی میں حُسنِ معاشرت اور اخلاقی اقدار کی ضرورت و اہمیت

September 23, 2022

مولانا نعمان نعیم

ہر انسان اپنی دنیاوی زندگی کو بہترین اور حسین انداز میں گزارنا چاہتا ہے جس میں نہ معاشی پریشانیاں ہوں اور نہ ہی معاشرتی اور بداخلاقی پر مبنی برائیاں ہوں۔ ہر طرف سے سکون واطمینان کے ساتھ اس کے شب وروز بسر ہوں۔ انسانی تہذیب و تمدن کی ابتدا خاندان سے ہوئی اور اس کی بنیاد حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کے ذریعے پہلے گھراور خاندان کی شکل میں ڈالی گئی۔محبت اور انسیت جو انسانی نفس کے ضمیر میں شامل ہے،خاندان کے استحکام اور بقا ءکا باعث بنی۔

انسانی روح ہمیشہ اس کے لیےبے تاب رہی ہے اور انسان اس کے بغیر جسمانی، ذہنی اور روحانی اذیت کا شکار رہا۔ اکیسویں صدی کو انسانی ترقی کا عروج اور انتہا سمجھا جاتا ہے۔ جہاں یہ صدی انسانی دماغ کی ترقی کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے، وہیں یہ انسانی محبت کی تباہی کا آغاز بھی ہے اور اس نے مادی سہولتوں، آسانیوں اور مشینوں کے عوض انسانی وجود سے وابستہ رشتوں اور محبتوں کا خاتمہ بھی کر دیا۔ موجودہ دور میں ان ہی بنیاد پر مغرب میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔

خاندان مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعے وجود میں آتا ہے، جسے شوہراور بیوی کا نام دیا گیا۔ اس کی بنیاد محبت پر ہوا کرتی ہے۔ اسلام زوجین کے درمیان محبت و شفقت،احترام و ہمدردی اور ایثار و اعتماد کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ اسی لیے اس نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا حریف نہیں، بلکہ معاون و مددگار قرارد یااور اسے ’لباس‘ سے تعبیر کیا۔

اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے:”وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے۔“ (سورۃ البقرہ:178) مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے باعث ِ سکون بنایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اورا س کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں پید اکیں ،تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔“(سورۃ الروم:21)

اسلام نے میاں بیوی کی سرگرمیوں کے دائرے متعین کر دیے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار اور دائرہ عمل ہے، جس میں اس نے رہ کر کام کرنا ہے اور ہر ایک سے اسی کے تعلق سے سوال کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: ”تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کے متعلقین اور ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حاکم اپنی رعیت کے حوالے سے ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں کے متعلق ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اپنے بچوں کی ذمہ دار ہے،تم میں سے ہر شخص ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“(صحیح بخاری:5200)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں بیوی، بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار مرد ہے اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کرے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام و انتظام کرے اور گھر کو خوش اسلوبی سے سنبھالے، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہوگا، جب زوجین کے درمیان محبت و الفت کی فضا قائم ودائم رہے اور ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار رہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے واضح تعلیمات دی ہیں،احکام دیے اور عملی مثالیں قائم کیں کہ بیوی کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا ہے اور خود بیوی سے کہا کہ کبھی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے سے غفلت نہ برتے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے میاں اور بیوی دونوں کو ہی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے عورت کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایااور شوہر کو حکم دیا کہ وہ اس کے ساتھ انصاف سے کام لے، اس کا احترام و اکرام کرے اور اچھے سلوک سے پیش آئے،خواہ وہ اسے ناپسند کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسرکرو، اگر وہ ناپسند ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔“(سورۃ النساء:19)

نبی کریمﷺ نے بھی عورت کے بارے میں خیر کی وصیت کی ہے۔ مختلف احادیث اس طرف بحسن و خوبی اشارہ کرتی ہیں:”عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرو ،عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہے، اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر چھوڑے رہو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“(صحیح بخاری:3331)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت شوہر کی خواہش و مرضی کے مطابق ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہ سکتی ،اس لیے شوہر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اس کی فطرت،عادت اور مزاج میں سے ہے، اس لیے وہ اس پر اپنی مرضی کے مطابق زیادہ سختی نہ کرے، بلکہ اس کے نسوانی مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس کی لغزشوں، کوتاہیوں اور غلطیوں سے درگزراور چشم پوشی سے کام لے۔عورت سے حسن سلوک کا نبی کریمﷺ کو کس قدر خیال تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں بھی اس کا خیال رکھا اور فرمایا: ”لوگو!سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا کوئی حق نہیں، سوائے اس صور ت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی نافرمانی سامنے آئے۔ اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور انہیں مارو تو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو انہیں خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو۔ دیکھو! تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تم پر ہیں، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو غیروں سے محفوظ رکھیں اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگزنہ آنے دیں، جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو!ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاؤ اور پہناؤ۔“ (ترمذی:۳۶۱۱)

اسلام نے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ محبت اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تعلیم کی دی ہے۔ اس کی ایک شکل یہ بھی ہے وہ جب گھروں میں داخل ہوں تو سلام کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے اہل خانہ کو سلام کیا کرو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔“(سورۃ النور:61)

اگر بیوی کو تھکن،اکتاہٹ اور تنگی محسوس ہو تو شوہر بیوی کے کام میں ہاتھ بھی بٹائے اور نرم یا میٹھی باتوں سے اس کی دلجوئی کرے، تاکہ اسے احساس ہو کہ وہ ایک نرم مزاج ،بردبار شوہر کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے جو اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کے معاملات پر توجہ بھی دیتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ خود نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔ نبی کریم ﷺہمیشہ ازدواجی زندگی کے درمیان اعتدال اور توازن قائم رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے پیارے نبیﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

عقلمند شوہر جب بیوی میں کوئی کمی،نقص اور خامی پاتا ہے تو وہ اس کی اصلاح احسن طریقے سے کرتا ہے، اس کے لیے وہ لطیف،خوش گواراور کام یاب راستہ اختیار کرتا ہے اور وہ سب کے سامنے لعنت ملامت،طنز اور سرزنش نہیں کرتا ، کیوں کہ عورت کو سب سے زیادہ تکلیف اسی صورت میں پہنچتی ہے، جب اسے سب کے سامنے لعنت ملامت کی جائے۔ ازدواجی زندگی میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا بہت ضروری ہے۔ ضرورت سے زیادہ حساس اور شکی مزاج ہونے سے آپس میں نااتفاقی اور لڑائی ہوتی ہے اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں جس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔

اختلافات ازدواجی زندگی کا حصہ ہیں۔ ایسے وقت میں قرآن و حدیث کی تعلیم یہ ہے کہ اختلافات کو دور کیا جائے اوراس میں نرمی کے ساتھ افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو دونوں خاندان کے ایک ایک مخلص فرد کو ساتھ بٹھا کر مسئلے کو حل کیا جائے۔ اگر اخلاص و محبت سے کوشش کی جائے تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اختلافات ختم ہو جائیں گے۔قرآن کہتا ہے: ”اور اگر کہیں تمہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا خطرہ ہو تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف، عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو،اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں میں موافقت کر دے گا۔“(سورۃ النساء:35)

ازدواجی زندگی میں سب سے نازک اور حساس مسئلہ ساس اور بہو کا ہوتا ہے۔باشعور اور صالح شوہراگر اسلامی تعلیمات سے واقف ہو تو وہ بیک وقت دونوں کو خوش و خرم رکھ سکتا ہے، اس طرح سے کہ وہ نہ تو ماں کا نافرمان ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کے حقوق کا غاصب ہوتا ہے۔ اسلام نے ماں اور بیوی دونوں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور دونوں کو ان کا صحیح مقام دیا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس پر واقعی عمل کرے اور اس سلسلے میں ماں اور بیوی دونوں ہی اس میں اس کا ساتھ دیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں مختلف ذرائع ابلاغ نے ازدواجی زندگی کی تباہی و بربادی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیریل، ڈراموں اور فلموں میں دکھائی جانے والی عیش و عشرت کی زندگی حقیقی زندگی سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ نوجوان طبقہ فلمی دنیا سے متاثر ہو کر ایک تصوراتی دنیاقائم کر لیتا ہے، لیکن جب وہ شادی کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ زندگی تو اتنی حسین نہیں ہے جتنی فلموں میں دکھائی گئی تھی، چناں چہ وہ ڈپریشن، مایوسی، ذہنی دباؤ اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رہی سہی کسر فیس بک، واٹس اپ، سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کی دنیا نے پوری کر دی ہے۔ زوجین کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا اور ساتھ ہوکر بھی آپس میں بہت دوری ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں ازدواجی زندگی تلخ ہوتی جاتی ہے۔

اسلام نے جہاں شوہر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، وہیں بیوی کو بھی حکم دیا کہ وہ عدل و انصاف اور جائز حدود میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ”اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“ (ترمذی:1159) اتنا ہی نہیں، بلکہ عورت کے لیے شوہر کی خوشنودی کو جنت میں داخلے کا ذریعہ بنایا۔

ارشادِ نبوی ہے: ”جس عورت نے اس حالت میں انتقال کیا کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔“(ترمذی:1161)رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیوی کے لیے وعید سنائی جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اور اس سے الگ رہے۔ حدیثِ نبوی ہے:”جب عورت اپنے شوہر سے ناراض ہو کر اس کے بستر سے الگ رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔“ (صحیح مسلم:1436)

موجودہ دور میں زوجین انتشار و اضطراب،قلق و بے چینی کا شکار ہیں، ان کا یہی سبب ہے کہ انہوں نے ان اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے یا انہیں اپنی مرضی کے مطابق کر لیا ہے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ درج بالا قدریں بیش بہا اخلاقی قدریں ہیں، اگر زوجین اسے اختیار کر لیں تو ان کی ازدواجی زندگی بہت خوش گوار ہو جائے گی اور گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی جگہ امن و سکون اور خوش حالی کی فضا چھائی رہے گی۔ اس طرح دنیا کے دکھوں اور صدموں سے ہمیں چھٹکارا ملے گا اور ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔