سید علی گیلانی مینارہ نور

September 26, 2022

تحریر: نذیر احمد قریشی۔۔۔ لوٹن
سید علی گیلانی راہ حق کا مسافر تھے۔ دلی کے حکمرانوں کو بخوبی علم تھا کہ سید علی گیلانی نہ بکنے اور نہ جھکنے والا شخص ہے اگرچہ انہیں ان چیزوں سے آزمانے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار بھارت کو ناکامی ہوئی اور کوئی بھی لالچ یا سزا بابائے حریت کو اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتی اسی لیے بھارت سید علی گیلانی کی جسد خاکی سے بھی خوفزدہ تھا اسی لیے خاموشی سے تدفین کیے گئے حالانکہ ان کی تدفین کے لیے مزار شہدا سری نگر میں جگہ بھی منتخب کر لی گئی تھی ہماری نوجوان نسل جو کنٹرول لائن کے دوسری طرف یعنی آزاد کشمیر میں رہتی ہے ان کو علم ہونا چاہیے اور اسی طرح پاکستان کے عوام اور خواص اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی کہ سید علی گیلانی کی پاکستان کی مملکت کے ساتھ محبت کا اندازہ اس واقعہ سے ہی لگا لیں کہ ان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا تھا اور جب بھارتی فورسز نے دھاوا بولا اور ان کے جسد خاکی کو زبردستی چھین لیا اور اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا تو اس وقت بھی آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے پھر ان کے اپنے خاندان کو بھی ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی_ سید علی گیلانی کی اس جبری تدفین کے بعد سری نگر میں کشمیری نوجوانوں اور بھارتی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں بھی ہوئیں اگر بھارت کی فاشسٹ حکومت بزور فوج کشمیر کے نہتے لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے محصور نہ کرتی تو یہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوتا کیونکہ بلاشبہ سید علی گیلانی کشمیر کے قومی ہیرو ہیں اور برطانیہ کے کشمیریوں نے پہلی برسی پر اسی لیے مہذب اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ شہید سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو کشمیریوں کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کو شہدا کے قبرستان میں پورے شان و شوکت سے سپرد خاک کیا جاسکے ، ہم جنگ کے موثر میڈیا کے ذریعہ آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ سید علی گیلانی کا مقبوضہ کشمیر کی سیاست اور تحریک آزادی کشمیر میں بے مثال کردار رہا ہے اور پاکستان کی حمایت کا، انھوں نے ہمیشہ درس دیا وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کی بنیاد ایک نظریہ کی بنا پر ہے اور یہ ملک تحریک آزادی کشمیر کا بھی پشت بان ہے ، یہ بات بھی مدنظر رہے کہ سید علی گیلانی جہاں خود تو الحاق پاکستان کے ریاست میں سب سے بڑے داعی تھے مگر آپ چونکہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے مسلمہ قائد بھی تھے تو آپ نے یہ سوچ بھی دی کہ کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ پوری ریاست جموں کشمیر کے عوام آزادانہ طور پر منعقد کیے گئے رائے شماری میں کریں گے اور وہ فیصلہ ہم سب قبول کریں گے، سید علی گیلانی شمالی کشمیر کے سوپور تحصیل میں جھیل وولر کے کنارے پر واقع گاوں زری میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے تھے آپ ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں وہ علامہ محمد اقبال کے افکار سے بے حد متاثر ہوکر لوٹے تھے، سید علی گیلانی نے علامہ محمد اقبال کی فارسی شاعری کے تراجم پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کی تھیں، مقبوضہ کشمیر واپسی پر انہوں نے بحیثیت استاد دانش گاہوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے ریے اسی دوران ان کی ملاقات مولانا سعید مسعودی جو کشمیری سیاست میں ایک قد آور شخصیت تھیں سے ہوئی جنہوں نے انہیں مجاہد منزل میں لا کر ایک ریاستی اخبار کی ادارت سونپی، گیلانی صاحب مولانا مسعودی کی سیاسی سوجھ بوجھ سے بہت متاثر تھے اس کے بعد گیلانی صاحب کی ملاقات مولانا سعد الدین سے ہوئی جو مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کے بانی تھے جنہوں نے انہیں جماعت اسلامی کے اغراض و مقاصد سے متعارف کیا آپ مولانا سعد الدین کے کردار اور سرگرمیوں سے کافی متاثر ہوئے اور جماعت اسلامی کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کرکے جماعت اسلامی میں میں شمولیت اختیار کی، آپ نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر متعدد الیکشن جیتے آپ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں بھی ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، بعدازاں آپ اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی بھی ہو گئے تھے اور تحریک مزاحمت کی قیادت بھی کی آپ ہی وہ رہنما تھے جنہوں نے ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا تھا، آپ کو اپنی طویل جدوجہد میں زندگی کا بہت بڑا حصہ اسیری میں گزارانا پڑا مگر ان کے پائہ استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہ ہوئی_ آپ کی سیاسی فلاسفی یہ رہی ہے کہ کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے سیاسی مستقبل کا یکطرفہ فیصلہ لینے کا حق نہیں، آپ نے کشمیری نوجوانوں کو تحریک آزادی کشمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے مثال کرادر ادا کیا کشمیری نوجوان نسل سید علی گیلانی کو اپنا آئیڈیل لیڈر قرار دہتی تھی، سید علی گیلانی سے کئی بار نئی دلی کے کئی مصالحت کاروں نے رابطہ کر کے اُن سے مؤقف میں لچک لانے کی کوششیں تاہم وہ اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے علاوہ ازیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر کسی بھی مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کی جینیوئن لیڈر شپ کی شمولیت لازمی ہے ورنہ ایسے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے، آج سید علی گیلانی ہم میں موجود نہیں مگر ان کا نظریہ ہی ہماری جدوجہد کی کامیابی کی ضامن ہے اس لیے ہم پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں سے مطالبہ کریں گے کہ وہ سید علی گیلانی کے یوم وفات پر ہر سال قومی تعطیل کا اعلان کریں اور ان کی یاد میں تسلسل سے سیمینار منعقد کیے جائیں تاکہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے جوانوں کو سید علی گیلانی کے فلسفہ آزادی سے روشناس کیا جائے ، اس مقصد کے لیے مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں کے انعقاد کر کے نوجوان نسل کو تحریک آزادی کشمیر سے منسلک رکھا جائے۔