سندھ میں تعلیم کا سفر

October 03, 2022

سندھ میں تعلیم کے ارتقاء پر بات کی جائے تو گفت وگو اسلامی عہد کے آغاز سے بھی شروع کی جاسکتی ہے اور سومرہ, سمّہ, کلہوڑا ا ور تالپوری ادوار پر بھی نظر ڈالی جاسکتی ہے مگر ہم مختصراً ایک جائزہ لیتے ہوئے بات کا آغاز انگریزوں کے دور سے کریں گے ۔ ٹھٹہ میں انگریزوں نے 1758 میں ایک فیکٹری قائم کی جو 1775 تک تھی۔ یہ وہ دور تھا جب 1757 کو انگریز نےبنگال میں سراج الدولہ کے خلاف جنگ پلاسی جیت کر اور 1764 میں جنگ بکسر میں فتح حاصل کر کے بہار, بنگال اور اڑیسا سے محصولات وصول کرنا شروع کردیے تھے۔

انگریزوں نے سب سے پہلا اہم معاہدہ امیرانِ سندھ سے 1809 میں کیا ،جس کی تجدید 1820 میں کی، پھر 1831 میں الیگزینڈر برنس نے دریائے سندھ کا سفر کیا۔ 1832 میں ایسٹ انڈیا کمپنی دریائے سندھ میں جہاز رانی کی اجازت حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی اس پر شرط کے ساتھ کہ فوجی سازوسامان نہیں لایا جائے گا۔

1836 میں جب مہاراجہ رن جیت سنگھ والئ پنجاب نے کشمیر, ملتان پر قبضہ کرنے کے بعد سندھ پر حملے کا منصوبہ بنایا تو مشہور تجارتی مرکز شکارپور کو خطرہ پیدا ہوا۔ اس کے بعد امیرانِ سندھ اپنی فوجی کم زوری کی بنا پر انگریزوں کو مزید مراعات دینے پر مجبور ہوئے۔1838 میں حیدرآباد میں ایک انگریز ریزی ڈنٹ کا قیام عمل میں آیا اور سندھ میں برطانیہ کی بالا دستی کا آغاز ہوا۔ 1838 کو ہی انگریزی فوج کراچی کی بندرگاہ پر زبردستی اتر گئی اور امیرانِ سندھ انگریزوں کو پانچ ہزار کی فوج کراچی میں رکھنے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئے جس کا خراج امیروں کو ادا کرنا تھا۔

اس کے بعد سندھ میں انگریزی سکّہ بھی قابل قبول ہوگیا اور دریائے سندھ میں تجارت پر عائد محصول بھی ختم کردیے گئے۔ یہ معاہدہ 1839 میں ہوا جس کے بعد کراچی باقاعدہ طور پر انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ جنوری 1843 سے سندھ میں صرف کمپنی کا سکّہ رائج ہوگیا اور اس پر تمام محصول معاف کردیے گئے بلآخر فروری 1843 میں جنگ میانی ہوئی اور وادی ملیر کے بلوچ قبائل نے تقریباً دو ماہ تک مقابلہ جاری رکھا۔ میانی کی جنگ کے ہیرو ہوش محمد شیدی تھے جب کہ میرپورخاص کے حاکم میر شیر محمد انگریزوں کے مقابلے میں آئے۔ جنگ میانی میں کوئی بارہ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

مارچ 1843 کو چارلس نیپئر نے فارسی میں اعلان جاری کیا کہ تمام سندھی مزاحمت ختم کردیں ۔ مئی 1843 تک مزاحمت ختم ہوگئی اور تمام جاگیردار انگریزوں کی خدمت میں سلامی کو حاضر ہوگئے۔ پھر امیرانِ سندھ کو ملک بدر کردیا گیا۔ اس کے کوئی دس سال بعد انگریزوں نے سندھ کی تعلیم پر کچھ توجہ دینا شروع کی۔ نرائن جگن ناتھ واڈیا نامی کونکن کے ایک اعلی تعلیم یافتہ برھمن کو سندھ کا پہلا ڈپٹی ایجوکیشن انسپکٹر مقرر کردیا گیا۔ ان کے علاوہ یہاں مرہٹہ استاد اور افسر بھی مقرر کیے جانے لگے۔ چوں کہ اب سندھ کو بمبئی میں شامل کردیا گیا تھا اس لیے وہاں سے تعلیم یافتہ مرہٹے یہاں آنے لگے۔ نرائن جگن ناتھ واڈیا وہی ہیں جن کے نام پر این جے وی ( NJV ) اسکول آج تک قائم ہے۔

خیال رہے کہ انگریزوں کے قبضے کے وقت صوبہ سندھ میں خاصے مدرسے تھے، مگر جدید تعلیمی ادارے نہیں تھے۔ بول چال کی زبان سندھی, بلوچی, سرائیکی, مارواڑی وغیرہ تھیں مگر لکھنے پڑھنے کی زبان فارسی تھی۔ سندھ کا کوئی متفقہ رسم الخط نہیں تھا البتہ سندھ کے تاجر اور بنئے دیوناگری حروف اور اعداد استعمال کرتے تھے۔ اس وقت یہ بحث شروع ہوئی کہ سندھی کے لیے دیوناگری یا عربی و فارسی رسم الخط اپنایا جائے۔ رچرڈ برٹن مشہور سیاح, عالم اور عہدے دار تھے جنہوں نے فارسی رسم الخط کی وکالت کی۔

اس سلسلے میں انور جوکھیو کے مطابق سندھ کے دوسرے چیف کمشنر سر بارٹل فریئر نے دو انگریزوں کی رائے لی۔ رچرڈ برٹن فارسی کے حق میں تھے جب کہ حیدرآباد کے ڈپٹی کلکٹر اسٹیک دیوناگری کے۔پھر فریئر نے ایک کمیٹی بنائی جس میں چار ہندو اور چار مسلمان ارکان تھے اور اس کے چیئرمین ایک انگریز ایلس تھے اس لیے یہ ایلس کمیٹی کہلاتی ہے۔

اس بارے میں انور جوکھیو صاحب کا ایک مضمون ہے " سندھی رسم الخط کی کش مکش " جس کا حوالہ کتاب " مسلمانانِ سندھ کی تعلیم " میں دیا گیا ہے۔ اس وقت سندھ میں کئی ہندوؤں نے فارسی رسم الخط کو ترجیح دی مثلاً سندھ کے اسٹنٹ کلکٹر دیارام گِدّو مل جو خود سندھی زبان کے عالم تھے نے دیوناگری رسم الخط کی مخالفت کی۔

1882 میں ھنٹر تعلیمی کمیشن بنایا گیا۔ اس وقت کراچی شہر کی سر برآورد شخصیات زیادہ تر غیر مسلم تھیں۔اسی دوران دیا رام جیٹھ مل نے ڈی جے کالج قائم کیا جس کا افتتاح 1887 میں بمبئی کے گورنر نے کراچی آ کر کیا۔ اس وقت شمالی سندھ جنوبی سندھ سے زیادہ ترقی یافتہ تھا جہاں تین ہائی اسکول بھی تھے اور صنعت و تجارت کے زیادہ تر مراکز بھی وہیں تھے۔ تینوں ہائی اسکول شمالی سندھ میں تھے ایک سکھر میں اور دو شکارپور میں۔

سکھر کا ایک اسکول میونسپلٹی کے زیر انتظام تھا اور شکارپور کا ایک اسکول سرکاری اور ایک نجی تھا۔

سکھر کا ایک اسکول 1859 سے پہلے قائم ہوا تھا جب کہ شکارپور ہائی اسکول 1873 میں بنا اور 1915 میں یہ شکارپور اکیڈمی بن گیا۔

اساتذہ کی تربیت کا پہلا اسکول 1868 میں حیدرآباد میں قائم ہوا جو 1887 میں تربیتی کالج میں تبدیل ہوگیا۔ 1893 میں سکھر کا وکٹوریہ جوبلی ٹیکنکل اسکول قائم کیا گیا جہاں طلبہ سے فیس نہیں لی جاتی تھی۔ تعلیم کے زیادہ مسائل بمبئی سے ہی دیکھے جاتے تھے۔

کراچی میں اس وقت کا اہم نام اخوند داد محمد نظر آتا ہے جنہوں نے کراچی اور اس کے نواح میں علم کی شمع روشن کی۔ اخوند داد محمد کا کار نامہ یہ تھا کہ انہوںنے سفری اسکول قائم کیے جو 1892 میں 33 تھے۔

تعلیمی طور پر حسن اکیڈمی کراچی نے چار ادارے قائم کیے (1) گریس اکیڈمی (2) مدرسہ حسینی (3) شیخ جندرہ ابراہیم گرلز اسکول اور (4) کراچی اکیڈمی ۔

اس وقت تک سندھی زبان کے رسم الخط کا مسئلہ تقریباً حل ہوچکا تھا کیوں کہ فریئر نے کمپنی کی اجازت سے فارسی رسم الخط اپنا لیا تھا اور اسی میں اضافے کے لیے سندھی کے 52 حروف تہجی قبول کرلیے گئے تھے۔

1870 تک حیدرآباد میں لڑکیوں کے دو اسکول تھے۔ کچھ عرصے بعد جے جے مور ایجوکیشن انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے اسکولوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔

(1) ضلع اسکول (2) تعلقہ اسکول (3) دیسی اسکول

ضلع اسکول انگریزی ذریعہ تعلیم کے ادارے تھے جہاں سندھی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جانے لگی۔ تعلقہ اسکول ورناکیولر تھے یعنی مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ پھر ملٹن نامی ایجوکیشن انسپکٹر آئے تو انہوں نے نئی درجہ بندی کی اور چوتھی جماعت تک تعلیم دینے والے ادارے کے انفیرئیر اسکول اور پانچویں جماعت تک کے اسکول سپیریئر اسکول کہلانے لگے جب کہ دیگر اسکول برانچ ایلی مینٹری یا ویلج اسکول بن گئے جہاں صرف گنتی اور بنیادی حساب کتاب کے ساتھ لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔

اس پس منظر کے بعد اب ہم سندھ کی کچھ اہم شخصیات کا ذکر کریں گے جس کا آغاز ہم اخوند داد محمد سے کرتے ہیں۔

اخوند داد محمد

اخوند داد محمد نے سندھ کے کوہستانی علاقوں میں تعلیمِ بالغان کی توسیع کے لیے خاصا کام کیا جن کے حوالے ہمیں سرکاری رپورٹوں میں ملتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی " کمال یار جنگ تعلیمی رپورٹ مطبوعہ 1944 میںدرج ہے کہ اخوند داد محمد ضلع کراچی کے ویران کوہستانی علاقوں میں بڑی تعداد میں " سفری اسکول " قائم کرچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں پہاڑی قبیلوں کے خانہ بدوش لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ چوں کہ یہ لوگ مستقل کہیں نہیں رہتے تھے اس لیے سفری اسکول اُن کو جگہ جگہ تعلیمی خدمات فراہم کرتے تھے۔

ناظم تعلیمات بمبئی کی رپورٹوں میں بھی درج ہے کہ اخوند داد محمد نے اپنی تعلیم بالغان تحریک 1872 میں ایک گاؤں مصری جاکھریو سے صرف ایک مدرسے کے ساتھ شروع کی جہاں سندھی لکھنے پڑھنے کے ساتھ قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ جو لوگ لکھنا پڑھنا سیکھ لیتے تھے اُن پر لازم تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر دیگر لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔

پھر انہیں برائے نام نذرانہ بھی دیا جانے لگا۔ صرف بیس سال میں ان اسکولوں کی تعداد تینتیس تک پہنچ گئی جہاں تقریباً دو ہزار طلبا پڑھتے تھے جو زیادہ تر جوکھیو قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سب ویران اور سنگ لاخ علاقوں میں رہتے تھے۔ 1900 تک ان اسکولوں کی تعداد 50 تک پہنچ گئی۔

مولوی صالح محمد

1898 کی ایک رپورٹ کے مطابق مولوی صالح محمد نے ضلع ٹھٹہ کے علاقے جھرک میں تعلیم پھیلانے کا کام کیا اور آٹھ اسکول قائم کیے۔ یہ بھی داد محمد کی طرز پر کئی اسکول چلاتے تھے جو ایسی جھونپڑیوں میں قائم کیے گئے تھے جو ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہوں۔ چھوٹے چھوٹے جھونپڑیوں کے جھنڈ میں قائم یہ اسکول سندھی کورس کی کتابیں اور قرآن پڑھاتے تھے۔

کے بی غلام رسول جتوئی

حیدرآباد میں ڈپٹی انسپکٹر اسکولز تھے ،انہوں نے تعلقہ مورو میں اوران کے ساتھ سید اسد اللہ دربیلو والےنے دربیلہ خاص اور نوشیرو تعلقے کے دیگر مقامات پر دیہات میں اسکول قائم کیے۔1900 میں میں مسلمانانِ سندھ کی تعلیمی حالت یہ تھی کہ مسلمان طلبا کی تعداد سرکاری اعداد کے مطابق صرف پینتیس ہزار تھی جن میں صرف ساڑھے پانچ سو ثانوی اسکولوں میں پڑھ رہے تھے جب کہ ڈی جے کالج میں صرف سات مسلمان طلبا زیرِ تعلیم تھے جنہیں سر علی مراد اسکالرشپ یا وظیفہ مل رہا تھا۔

1905 میں حیدرآباد سندھ میں ہائی اسکول کے طلبا کی تعداد تقریباً دو سو تھی جن میں صرف دس فی صد مسلمان تھے۔ اس وقت شکارپور میں کوئی پچاس طلبا ثانوی تعلیم پا رہے تھے۔ 1905 میں ریاست خیرپور کے حکم ران میر علی نواز تالپور کی سرپرستی میں 60 سرکاری اسکول تھے جن میں دو ہزار بچے زیرِ تعلیم تھے جب کہ امدادی اسکولوں کی تعداد 33 تھی جن میں آٹھ سو سے زیادہ بچے پڑھ رہے تھے۔

حسن علی آفندی اور مدرسہ تحریک

حسن علی آفندی نے جدید تعلیم کی توسیع کے لیے خاصا کام کیا۔1885 میں حسن علی آفندی نے علی گڑھ کا سفر کرکے سر سید احمد خان سے ملاقات کی اور پھر علی گڑھ تحریک کی پیروی کرتے ہوئے سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے قائم کردہ سندھ مدرسہ بورڈ کے تحت سندھ مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی۔ اس ایسوسی ایشن کے قیام کا فیصلہ جسٹس امیر علی کے دورہ سندھ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ نوشہروفیروز میں ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں منشی گری سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی دوران انگریزی, سندھی, عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا،پھر وہ ایک کلرک کے طور پر کوٹری میں ایک اسٹیم کمپنی میں ملازم ہوگئے۔

جس کے بعد عدالتی کلرک کے طور پر ملازم ہوئے اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم مکمل کرکے وکالت شروع کردی ، غالباً وہ سندھ کے پہلے مسلم وکیل تھے، جب کہ ہندو وکیل دیارام جیٹھ مل اور اودھا رام مول چند پہلے ہی وکالت کررہے تھے۔1881 میں حسن علی آفندی کراچی میونسپلٹی کے کونسلر منتخب ہوئے۔ تین چار سال کے عرصے میں ہی کراچی میں محمڈن ایسوسی ایشن کی شاخ قائم کی۔ سندھ مدرسہ بورڈ کے پہلے صدر حسن علی آفندی اور نائب صدر خان بہادر نجم الدین تھے جب کہ ارکان میں سیٹھ علی بھائی کریم جی, سیٹھ غلام حسین چھا گلہ, سیٹھ صالح محمد ڈوسل, غلام حسین خالق دینا وغیرہ شامل تھے۔

1890 میں سندھ مدرسے کے دو شعبے تھے ایک انگریزی اور دوسرے کا تعلق مقامی زبانوں میں تعلیم سے تھا، جس میں سندھی, گجراتی اور اردو کی تعلیم چوتھی جماعت تک دی جاتی تھی ۔گو کہ سندھ مدرسہ ہائی اسکول تھا لیکن پرائمری اور مڈل کے بعد بہت سے بچے تعلیم منقطع کردیتے تھے۔ 1900 تک مدرسے میں بچوں کی تعداد کوئی پانچ سو کے قریب تھی جن میں کراچی کے طلبا کی اکثریت تھی جو زیادہ تر مسلم تھے۔ ہندو طلبا دس فی صد سے بھی کم تھے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا پورا نام سندھ مدرسۃ الاسلام تھا۔ اس زمانے میں میٹرک کا امتحان بمبئی یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام ہوتا تھا۔ گجراتی پڑھنے والوں میں ہندو اور مسلم دونوں تھے جن میں خوجے, بوہرے اور میمن زیادہ تھے۔

دیوان دیا رام جیٹھ مل

حسن علی آفندی کے ساتھ ایک اہم ترین نام دیا رام جیٹھ مل کاہے،ان کا نام ڈی جے سندھ کالج کراچی کی بدولت امر ہوگیا ہے۔ ان کے پتا جی امیرانِ حیدرآباد کے دربار میں منشی تھے۔ دیا رام نے پہلے ایک مکتب اور پھر ایک اینگلو ورناکیولر اسکول میں تعلیم حاصل کی وہ تعلیم میں اچھے تھے مگر اپنی بیماری کے باعث میٹرک کا امتحان نہ دے سکے۔

پھر بھی وہ ایک نچلی عدالت میں عرضی نویس کی سے سرکاری ملازمت لینے میں کام یاب ہوگئے۔ پھر ضلعی عدالت میں ہیڈ کلرک ہوئے اور نجی طور پر قانون پڑھ کر وکیل بن گئے۔ اور پھر کراچی میونسپل کے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے سماجی کام بے شمار ہیں۔

اڈوانی برادران

ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی نے اپنی کتاب میں اڈوانی برادران کا تفصیلی ذکر کیا ہے جنہوں نے سندھ میں تعلیم کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان میں اب سے پہلا نام دیوان نول رائے اڈوانی کا ہے جو 1848 کو پیدا ہوئے اور صرف پینتالیس سال کی عمر میں 1993 کو سورگ باشی ہوگئے۔ لیکن اس مختصر عمر میں خاص سماجی کام کرگئے۔

تعلیم کے علاوہ حیدرآباد کا مشہور لیڈی ڈفر ن اسپتال نجی سرمائے سے تعمیر کیا تھا۔ دوسرے بھائی رائے بہادر تارا چند اڈوانی تھے جو 1850 سے 1938 تک اٹھاسی برس جیے انہوں نے سدھار سبھا بناکر لڑکیوں کے کئی اسکول قائم کیے۔ ان دونوں بھائیوں نے خواتین کے لیے تربیتی مراکز بھی قائم کیے۔

ان کے تیسرے بھائی سوامی سادھو ھیرا نند شوکی رام تھے جنہوں نے 1863 سے 1893 تک صرف تیس برس کی عمر پائی لیکن اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلیم کے فروغ کے لیے سندھ میں خاصا کام کیا۔ انہوں نے یونین اکیڈمی اسکول حیدرآباد قائم کیا اور بگڑے بچوں کو سدھارنے کا بیڑا اٹھایا بعد میں اسی اسکول کا نام نول رائے ھیرا نند اکیڈمی کردیا گیا جو اب گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 1 حیدرآباد کہلاتا ہے۔پہلے اور تیسرے بھائی کم عمری میں طاعون کی وبا میں کام آئے اور منجھلے بھائی نے طویل عمر پائی جو فارسی کے استاد بھی بنے اور تعلیم کے لیے بہت کام کیا۔ لڑکوں کے تربیتی کالج کے نائب پرنسپل بنے۔

شوکی رام اڈوانی 1900 میں پرنسپل بنے اور " اخبار تعلیم " جاری کیا جو کالج کا پیشہ وارانہ ماہوار جریدہ تھا۔ وہ اپنے طلبا کو بھٹائی اور سامی کے ساتھ دیگر شعراء جیسے میراں بائی اور شیخ سعدی وغیرہ کی بھی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے مضامین بعد میں " جیون پھلواری " کے نام سے شائع بھی ہوئے۔اخبار تعلیم کے اجرا کے ساتھ انہوں نے 1900 میں " شاہ جو رسالو " بھی اپنے تبصرے کے ساتھ شائع کیا۔

انہوں نے اس زمانے میں بیس ہزار روپے نیشنل کالج حیدرآباد کو عطیہ کیا اور چھ ہزار روپے کی کتابیں بھی دیں۔ اور ھیرا نند اکیڈمی کو تین ہزار روپے کا قیمتی سامان خرید کر دیا۔ اور اپنی ماں شری متی جواہر بائی کے نام پر لڑکیوں کا اسکول قائم کیا اور, ہوپ فل ہائی اسکول بھی۔ کراچی کے سولجر بازار میں ایک سندھی پرائمری اسکول قائم کیا۔

سندھ میں تعلیم میں ان تین ہندو برادران کا بڑا حصہ ہے۔در بیلو کے خان بہادر الھندو شاہ 1957 میں جب انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑی جارہی تھی اس دوران میں نوشہرو فیروز کے علاقے کنڈیارو میں دربیلو کے قریب سید الھندو شاہ کی ولادت ہوئی جو سندھی, عربی اور فارسی کے عالم بنے اور تعلیم کے لیے کام کیا۔

اس وقت وسطی سندھ کے بچے تعلیم کے لیے حیدرآباد اور کراچی سندھ جاتے تھے جو مقامی لوگوں کے لیے خاصا مشکل کام تھا۔الھندو شاہ نے پہلے حیدرآباد ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی رکنیت حاصل کی پھر نواب شاہ لوکل بورڈ کے صدر بنے اور اسپیشل مجسٹریٹ بھی۔انہوں نے 1903 میں نوشہرو مدرسہ ہائی اسکول قائم کیا جہاں انگریزی کے ساتھ جدید تعلیم بھی دی جاتی تھی،پھر نواب شاہ کے آس پاس کئی پرائمری اور اینگلو ورناکیولر اے وی اسکول کہا جاتا تھا قائم کیے۔ پھر انہوں نے مدرسے کے ساتھ ہاسٹل بھی تعمیر کرایا جہاں وہ خود اپنے گاؤں سے کھانا تیار کرا کر لاتے اور بچوں کو کھلاتے تھے۔

مدرسہ ہائی اسکول نوشہرو فیروز کا یہ ہاسٹل خستہ حالت میں موجود ہے جس پر سندھ حکومت کو توجہ دینی چاہیئے۔ 1918 میں اس مدرسے کو ترقی دے کر گورنمنٹ نور محمد ہائی اسکول کا درجہ دے دیا گیا جو اب بھی نوشہرو فیروز میں چل رہا ہے۔اس کے علاوہ الھندو شاہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی کئی اسکول قائم کیے۔ انہوں نے بھی زیادہ طویل عمر نہیں پائی اور صرف 62 سال کی عمر میں 1919 میں دربیلو میں وفات پاگئے۔ ان کے پوتے سید ظفر حسین شاہ اس وقت سینیٹر ہیں۔

رائے بہادر کوڑو مل چندن مل کِھل نانی

چندن مل کِھل 1844 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بھی نوشہرو فیروز کے قریب بھری یا سے تھا۔ دیوان کوڑو مل سندھ پر کمپنی کے قبضے کے ایک سال بعد پیدا ہوئے۔ انہوں نے جلبانی گاؤں کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر کراچی سے میٹرک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

اپنی نجی تعلیم کی بدولت وہ کمشنر کے دفتر میں کلرک لگ گئے اور پڑھانا بھی شروع کردیا اور ترجمے بھی کرنے لگے۔ کئی نصابی کتابیں سندھی میں ترجمہ کیں جس پر انہیں محکمہ تعلیم نے ملازمت دی۔اور وہ حیدرآباد کے ایک اسکول میں پڑھانے لگے،بعد ازاں استاد لگا دیا ۔ سکھر اور شکارپور میں ہیڈ ماسٹر ہوگئے۔

اس وقت سندھ میں تعلیم کے لیے نصابی کتب تیار کرنے والے وہ سب سے بڑے مترجم اور مصنف تھے۔چالیس سال کی عمر میں وہ حیدرآباد میں لڑکوں کے تربیتی کالج کے پرنسپل ہوگئے ۔ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی سندھی میںکتابیں لکھیں۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ ممتحن بن گئے۔ بمبئی کے گورنر لارڈ ویلنگ ٹن نے 1916 میں پونے میں تعلیمی کانفرنس بلائی تو سندھ سے تین ماہرین تعلیم شریک ہوئے جن میں دیوان کوڑو مل, مرزا قلیچ بیگ اور دیوان بل چند دیا رام تھے۔

کوڑو مل نے دیوان گدو مل کے ساتھ مل کر خاصے سماجی کام کیے۔ انہیں سندھی زبان کا پہلا طویل مضمون نگار سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح دیوان کوڑو مل جدید سندھی زبان وادب کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کم ازکم پانچ زبانیں اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے بنگالی مصنف بنکم چندر چٹرجی کی کتاب " رادھا رانی " کا سندھی ترجمہ بھی کیا وہ 1916 میں سورگ باشی ہوئے۔

میہڑ کے رئیس شمس الدین بلبل

شمس الدین فروری 1857 کو میہڑ ضلع دادو میں پیدا ہوئے 1890 میں حسن علی آفندی کے پاس کراچی آگئے اور سندھ مدرسہ الاسلام کی خدمت کرنے لگے مگر صرف پانچ سال بعد حسن علی آفندی کی وفات کے بعد واپس میہڑ چلے گئے۔ 1906 میں انہوں نے میہڑ میں مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی جو پھر اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا۔

جو آج بھی مدرسہ ہائی اسکول میہڑ کے نام سے موجود ہے۔انہوں نے 1907 میں آل انڈیا ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاس میں کراچی میں شرکت کی۔ سندھ میں تعلیمی اداروں میں فارسی زبان کی تعلیم وتدریس جاری رکھنے کے لیے خاص محنت کی اور ساتھ ہی جدید تعلیم پر بھی زور دیتے رہے۔ انہوں نے بھی کئی درسی کتب لکھیں اور ترجمہ کیں۔وہ خود نقش بندی سلسلے کے پیروکار تھے اور مخدوم نظام الدین صدیقی کے مرید تھے۔

انہوں نے صحافی اور محقق کے طور پر بھی کام کیا اور کئی سندھی اخباروں کے مدیر رہے جن میں ہفت روزہ معاون کراچی, کراچی گیزٹ, خیرخواہ لاڑکانہ, سکھر سے الحق اور حیدرآباد سے مسافر شامل ہیں۔ حاجی احمد میمن کے سکھر سے نکلنے والے اخبار آفتاب کے بھی مدیر رہے۔ ان کی کتابوں میں " صد پند سود مند " , " شمس المکاتب " , " احسن التواریخ " , " بہار عشق دیوان بلبل " , " عقل اور تہذیب " , بہارستانِ بلبل " , " قرض جو مرض " , " گنج معرفت " اور " مسلمان اور تعلیم " شامل ہیں۔ آپ 1919 میں باسٹھ برس کی عمر میں وفات کر گئے۔

رئیس غلام محمد بھڑگری

1878 میں میرپورخاص کے قریب کوٹ غلام محمد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سندھ مدرسے اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے علم حاصل کیا اور پھر انگلستان سے 1908 میں بیرسٹر کی سند حاصل کی۔ انہوں نے بے شمار سندھی طلبا کی تعلیم کے لیے وظائف مہیا کیے اور صحافت کے ذریعے بھی تعلیم کی ترویج میں حصہ لیا۔

انہوں نے " مسلم ایجوکیشن سیس بل " پیش کیا جس کے ذریعے اس دور کے زمین داروں کو تعلیمی اخراجات کے لیے پیسے دینے کا کہا گیا بعد میں یہ بل مسترد کردیا گیا۔غلام محمد بھرگڑی نمونیا میں مبتلا ہوکر 1924 میں وفات پاگئے۔ اُن کی عمر صرف چھیالیس برس تھی۔

دیوان دیا رام گِدّو مل

1857 میں پیدا ہونے والے گِدّو مل تھے تو سیشن جج لیکن انہوں نے تعلیمی اور دیگر سماجی کام بہت کیے۔ میٹھا رام ٹرسٹ کے ذریعے میٹھا رام ہاسٹل بنوایا اور تعلیمی اداروں کی بڑی لگن کے ساتھ معاونت کی۔ بے شمار طلبا وطالبات کو وظائف وسائل مہیا کیے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ پرائمری سے لے کر اعلی تعلیم تک گِدّو مل کے لطف وکرم کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔کراچی میں میٹھا رام ہاسٹل اور ہال سے نہ صرف طلبا وطالبات بل کہ اساتذہ اور دیگر لوگ بھی ایک صدی سے زیادہ عرصہ فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے کئی تعلیمی ادارے اور کتب خانے بھی تعمیر کرائے اور اُن کے چلانے کے لیے وسائل مہیا کیے تھے۔ کراچی کی مرکزی لائبریری اور ھومیوپیتھک لائبریری کے علاوہ ٹی بی سینی ٹو ر يم اور یتیم خانوں میں تعلیم اور کتب کی فراہمی کا انتظام کرتے رہے۔ حیدرآباد کی ھیرا چند اکیڈمی اور حیدرآباد ایجوکیشن سوسائٹی کو مسلسل مالی امداد دیتے رہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے فنڈ قائم کیا اور حیدرآباد کے نیشنل کالج کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا نام بھی سندھ میں تعلیم کے سلسلے میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔

شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ

مرزا قلیچ بیگ کے والد دراصل جارجیا یا گرجستان کے رہنے والے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ کی پوتی مہر افروز مرزا حبیب نے " جارجین ساگا " کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں مرزا قلیچ بیگ کے خاندان کو صرف ایک نسل پہلے جارجیا سے سندھ آمد کا تفصیلی بیان ہے۔ ان کے مطابق مرزا قلیچ بیگ کا سنِ ولادت 1853 ہے اور وہ حیدرآباد کے قریب ٹنڈو ٹھوڑو میں پیدا ہوئے۔ مرزا قلیچ بیگ اخوند ولی محمد کے مکتب میں سادھو ہیرا نند اور دیوان گدو مل کے ہم جماعت تھے۔ مرزا صاحب اپنے دور کی سب سے بڑی سندھی علمی شخصیت کے طور پر ابھرے۔

انہوں نے 140 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔انہوں نے کم عمری سے ہی دوسروں کو تعلیم دینا شروع کردی تھی اور ابھی اسکول میں تھے کہ لوگ اُن سے فارسی پڑھنے آنے لگے۔ پھر انہوں نے الفنٹن کالج بمبئی میں پڑھتے ہوئے وہاں درس وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔وہ سندھی, فارسی, ترکی اور انگریزی میں مہارت سے لکھتے پڑھتے تھے اور ایک شاعر, ماہر تعلیم اور معلم کے طور پر سندھ میں اُن کا بڑا مقام ہے۔ "مرزا صاحب نے ہی پہلی سندھی ادبی کانفرنس لاڑکانہ میں منعقد کرائی۔

اگر کتابوں کے ساتھ اُن کے کتابچے بھی شامل کرلیے جائیں تو انہوں نے اپنی پچاس سالہ زندگی میں ساڑے چار سو سے زائد تصانیف, تالیف و ترجمہ چھوڑی ہیں۔ اُن میں عربی, بلوچی, انگریزی, فارسی, سندھی, سرائیکی, ترکی اور اُردو زبان میں تحریریں شامل ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے " چچ نامہ " کا فارسی سے انگریزی ترجمہ کیا جس کا 1900 میں شائع ہونے والا ایک نسخہ راقم کے پاس موجود ہے۔ حاجی خان سیال نے اپنے ایک مضمون میں مرزا قلیچ بیگ کو سندھ کا شیکسپئر کہا ہے۔

ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی

گربخشانی 1883 میں پیدا ہوئے اور سندھ میں " شاہ جو رسالو " کے پہلے ایڈیٹر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی تعلیمی خدمات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ بمبئی کے ولسن کالج میں فارسی کے پروفیسر تھے۔ لندن سے پی ایچ ڈی کی۔ ڈی جے سندھ کالج کراچی کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔اُن کے شاگردوں میں ڈاکٹر داؤد پوتا, ایوب کھوڑو, میران محمد شاہ اور دیگر شامل رہے۔

ڈاکٹر گربخشانی سندھی کے بڑے اسکالر تھے اور انہوں نے تاریخی ناول " نورجہاں " بھی تحریر کیا۔ اس کے وعلاوہ " مقدمہ لطیفی " " , " روح رہاٹ " اور شاہ لطیف کی شاعری کی تالیف و تدوین ہے جو انہوں نے بخوبی کی۔ ڈاکٹر گربخشانی چونسٹھ سال کی عمر میں فروری 1947 کو سورگ باشی ہوئے اور تقسیم ھند کے نتیجے میں ہونے والے فسادات سے قبل ہی اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ تعلیمِ سندھ کے لیے اُن کی خدمات بھی لازوال رہیں گی۔ حبیب سنائی نے اُن کے بارے میں انگریزی میں بہت اچھا مضمون تحریر کیا ہے۔

شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتا

عمر بن داؤد پوتا نے سندھ مدرسہ اور پھر دیا رام جیٹھ مل سندھ آرٹ کالج سے فارسی میں فرسٹ کلاس سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد بمبئی یونی ورسٹی میں فارسی اور عربی میں ایم اے کی اسناد لیں۔ پھر ڈی جے کالج میں پروفیسر ہوگئے ۔ 1927 میں کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے واپس آئے اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی۔ واپسی پر انہیں سندھ مدرسے کے پرنسپل کا عہدہ ملا جس پر وہ 1930 تک رہے۔ اس کے بعد آندھیری بمبئی میں اسماعیل کالج میں عربی کے پروفیسر بن گئے جہاں وہ تقریباً دس سال رہے اور بمبئی یونی ورسٹی کی سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

اس دوران انہوں نے " تاریخ معصومی " , " چچ نامہ " , " بیان العارفین " اور ابیاتِ سندھی کی شرح کے ساتھ سرھاگل وغیرہ کتابیں لکھیں۔1940 سے 1950 تک وہ سندھ سرکار کی طرف سے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کے عہدے پر رہے ۔ اس دوران انہوں نے سندھ میں لازمی تعلیم کے اجرا کے لیے کوشش کیں۔ تعلیم بالغان کا انتظام کیا اور پرائمری اسکولوں کا نظم ونسق بہتر کرنے کی کوشش کی۔ سندھ یونی ورسٹی کے قیام میں بھی کردار ادا کیا 1958 میں باسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔

خان بہادر نور الدین غلام علی نانا

1880 میں پیدا ہونے والے غلام علی نانا نے حیدرآباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ سندھ مدرسہ الاسلام سے میٹرک کیا اور ڈی جے سندھ کالج سے بیچلرز کی سند لی۔ اس کے بعد خیرپور میرس کے مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہوگئے جو بعد میں ناز ہائی اسکول کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر وہ وکٹوریا ہائی اسکول خیر گڑھ کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ سندھ میں تعلیم کی ترویج میں غلام علی نانا کا بھی اہم حصہ ہے اور سندھ کے ایجوکیشن انسپکٹر کے طور پر انہوں نے شان دار خدمات انجام دیں جس پر انہیں خان بہادر کا خطاب ملا۔

وہ سندھ میں جدید تعلیم کے بڑے علم بردار تھے اور نوجوانوں کو مغربی تعلیم حاصل کرنے پر راغب کرتے تھے۔

علامہ آئی آئی قاضی

ان کا پورا نام امداد امام قاضی تھا ۔ 1886 میں پاٹ کے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم کے لیے برطانیہ گئے جہاں سے قانون کی تعلیم لی اور پھر حیدرآباد اور خیرپور میں جج بنے۔ تعلیم کے دوران جرمنی گئے جہاں انہوں نے شادی کرلی ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ آئی آئی قاضی قیام پاکستان کے بعد انگلستان چلے گئے تھے جہاں چار برس گزرانے کے بعد دوستوں کے اصرار پر واپس آئے اور 1951 میں سندھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا ۔

اس یونی ورسٹی کی تعمیر و ترقی میں قاضی صاحب کا بڑا حصہ ہے۔ پہلے یہ یونی ورسٹی صرف امتحانی ادارہ تھی لیکن قاضی صاحب نے اسے تعلیمی ادارہ بنایا۔پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مئی 1959 میں قاضی صاحب آٹھ سال سندھ یونی ورسٹی کو دینے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد وہ زیادہ تر تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف رہے۔

تعلیم کے شعبے میں اُن کا سب سے بڑا کام سندھ یونی ورسٹی کو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے طور پر کھڑا کرنا تھا۔ ان کے دور میں یک بعد دیگر شعبے قائم کیے۔راشد حمید اور صفدر رشید کی مثالی اساتذہ پر کتاب " روشنی کے سفیر " مطبوعہ ادارہِ فروغ قومی زبان میں آئی آئی قاضی کے بارے میں ڈاکٹر ظفر حسین نے مضمون لکھا ہے جس میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ علامہ قاضی نے سندھ یونی ورسٹی کو الگ ٹاؤن اور کیمپس دلانے میں اہم کردار ادا کیا اور پھر شعبہ ایجوکیشن, تقابلِ ادیان اور پھر اسلامی کلچر کا شعبہ بھی شروع کیا۔

انہوں نے قابل ترین اساتذہ بھرتی کیے اور طلبا کی تعداد دو ہزار سے چھ ہزار تک پہنچ گئی اور الحاق شدہ کالجوں کی تعداد پانچ سے بیس تک لے گئے اور پہلی بار یونی ورسٹی میں پرائیویٹ امیدواروں کے لیے امتحان دینے کا نظام متعارف کرایا۔پاکستان میں یونی ورسٹی ٹاؤن کا تصور بھی پہلی بار علامہ آئی آئی قاضی نے پیش کیا جو بعد میں تمام جامعات میں شامل ہوا۔ انہوں نے شہر سے دور یونی ورسٹی کے لیے بڑے رقبے کے حصول پر زور دیا کیوں کہ اسی طرح بڑی جامعہ پروان چڑھ سکتی ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی سندھ میں تعلیم کا بڑا نام رہیں گے۔

ہوشنگ نادر شاہ ادولجی ڈنشا

سندھ میں تعلیم کی ترقی کے لیے پارسی افراد نے بھی بڑا کام کیا ہے اُن میں ایک عظیم نام ہوشنگ نادر شاه کا بھی ہے۔ جن کے والد نادر شا ادولجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی یونی ورسٹی آج بھی قائم ہے۔

یہ لوگ انیسویں صدی میں پونے سے نقل مکانی کر کے کراچی میں آباد ہوئے اور تجارت میں خاصی ترقی کی۔ ہوشنگ نادر شا 1884 میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور کراچی کے این جے وی اسکول اور ڈی جے کالج سے تعلیم حاصل کی۔تقریباً تیس سال کراچی میونسپلٹی کے رکن رہے۔

انہوں نے اپنے بھائیوں منوچہر, فریدوں اور رستم کے ساتھ مل کر اپنے والد نادر شاکے نام پر کراچی میں انجینئرنگ کالج کھولا جس کا نام این ای ڈی کالج رکھا گیا۔ یہ کالج 1922 میں قائم ہوا۔ اب یہ ایک بڑی جامعہ ہے۔ انہوں نے دیگر کئی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے لیے بھی بے شمار عطیات دیے۔

جمشید نسروانجی مہتا

1886 میں پیدا ہونے والے جمشید مہتا 1921 سے 1933 تک کراچی میونسپلٹی کے صدر یا میئر کے عہدے پر رہے اور اس عرصے میں کراچی کی تعلیم و ترقی کے لیے بہت کام کیے۔ کراچی کے پارسی خاندانوں میں مہتا خاندان کا بھی بڑا نام تھا جو اپنے سماجی کاموں کی بدولت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ کئی تعلیمی اداروں کی سرپرستی کرنے اور سیکڑوں طلبا وطالبات کو وظیفے عطا کرنے کے بعد جمشید نسروانجی مہتا 1952 کو چھیاسٹھ برس کی عمر میں اس دنیا سے سدھار گئے مگر سندھ میں تعلیمی اور فلاحی طور پر اپنے نقوش چھوڑ گئے۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ تعلیم و تحقیق میں سندھ کا ایک بڑا نام ہیں جنہوں نے سندھی زبان وادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ چاہے وہ سندھ کی لوک کہانیاں ہوں یا لغات جیسے عرق ریزی کام نبی بخش ہمیشہ سرگرم رہے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر قاسم بگھیو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بڑے بڑے صدور, وزراء اور افسر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ جھک کر ملتے تھے۔وہ 1917 میں سنجھورو سندھ میں پیدا ہوئے اور چورانوے سال کی عمر میں حیدرآباد میں فوت ہوئے۔

اُن کے موضوعات تاریخ اور تعلیم سے لے کر لوک ادب, آثاریات, بشریات, موسیقی, ثقافت اور تمدن تک پہلے ہوئے تھے۔ اُن کی تحریریں انگریزی, عربی, فارسی, اُردو اور سندھی میں شائع ہوئیں۔ وہ شیخ ایاز سے قبل تین سال یعنی 1973 سے 1976 تک سندھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور پھر تیرہ سال وفاقی حکومت کے محکمہ ثقافت وغیرہ میں کام کرتے رہے۔اس سے قبل سندھ یونی ورسٹی میں شعبہ سندھی کے پہلے سربراہ اور لینگویج اتھارٹی کے بھی پہلے سربراہ رہے۔

سندھ میں ان کے پایے کے ماہر تعلیم, ماہر لسانیات کی حثیت سے اعلی مقام ہے۔ تعلیم کے موضوع پر اُن کی تحریریں اور تقریریں بھی بے مثال ہیں۔ انہوں نے سندھی کے اساسی شعراء پر تحقیق اور تنقید کو ایک نئی جہت عطا کی۔ سندھی زبان کی جامع لغات تیار کیں اور سندھی زبان و ادب کے ساتھ شاہ جو رسالو کی ترتیب اور لغت کی تیاری پر بہت کام کیا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد درجنوں میں ہے۔ اتنا علمی و ادبی کام کرنے کے بعد آپ 2011 میں فوت ہوئے اور سندھ یونی ورسٹی میں تدفین ہوئی۔

پیر حُسّام الدین راشدی

جدید سندھ کے دو راشدی برادران تھے پیر علی محمد راشدی اور پیر حُسّام الدین راشدی لاڑکانے سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائی تعلیمی اداروں کی اسناد سے عاری تھے لیکن خود اپنے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر اعلی علمی مقام تک پہنچے۔بڑے بھائی علی محمد راشدی اسکالر بھی تھے اور سیاست دان بھی جب کہ پیر حُسّام الدین راشدی خالصتاً محقق اور اسکالر تھے۔ 1911 میں لاڑکانے کے قریب پیدا ہوئے اور ذاتی مطالعے اور محنت کی بنیاد پر پاکستان کے چوٹی کے ادیبوں اور عالموں کی صف تک پہنچے اور تاریخ اور ادب کے ماہرین میں شمار ہونے لگے۔ پیر حُسّام الدین کے کتب خانے میں ہزاروں کتابیں تھیں اور وہ صحافت اور تعلیم دونوں شعبوں میں کام کرتے رہے۔ سندھی ادبی بورڈ کے رکن بنے اور انجمن ترقی اُردو میں مولوی عبدالحق کے شریک کار رہے۔ اُردو ڈویلپمنٹ بورڈ کی بنیاد رکھی۔

لیاقت نیشنل لائبریری مشاورتی بورڈ شامل رہے۔ نیشنل میوزیم بنانے والے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 1957 میں کراچی یونی ورسٹی اکیڈمک کونسل میں انہیں رکن بنایا گیا اور سندھ یونی ورسٹی سینیٹ کے بھی رکن رہے۔پنجاب یونی ورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان میں بھی شامل رہے۔ان کی تصانیف کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے وہ بین الاقوامی طور پر اعلی ترین جامعات میں بھی لیکچر دیتے رہے اور اکہتر سال کی عمر میں 1982 میں وفات پائی۔

علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی

1916 کو لاڑکانے کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے علامہ قاسمی بھی سندھ کے بڑے معلم رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مدرسے سے تدریس کا آغاز کیا۔ وہ دالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد رہ چکے تھے۔معلم ہونے کے ساتھ علامہ قاسمی ایک تربیت یافتہ حکیم بھی تھے اور مولانا عبیداللہ سندھی کی قربت میں مذہبی فلسفے پر عبور حاصل کرچکے تھے۔

کچھ عرصہ سندھ مدرسہ الاسلام میں عربی پڑھانے کے بعد سندھ مسلم کالج کراچی میں اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے جہاں انہوں نے 1963 تک تعلیم دی پھر وہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد کے ڈائریکٹر ہوگئے۔1977 سے 1989 تک وہ سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین رہے اور تین علمی وادبی جریدے جاری کیے۔

سندھی زبان کا جریدہ " الرحیم " اُردو کا " الولی " اور انگریزی میں " الحکمت " سندھ یونی ورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر اور پی ایچ ڈی گائیڈ کے طور پر انہوں نے بے شمار طالبانِ علم کی رہ نمائی کی۔ اُن کے شاگردوں میں غلام علی الانہ, عبدالجبار جونیجو, عبدالکریم سندیلو, عبدالمجید سندھی, ایاز قادری, حبیب الله صدیقی شامل تھے۔انہوں نے ستائیس طلبا کی پی ایچ ڈی تقابل ادیان میں, دو کی مسلم تاریخ میں, تین کی عربی میں, تین کی فارسی میں اور دو کو اُردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے میں رہ نمائی اور معاونت کی۔ علامہ قاسمی 2003 میں ستاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خان

جبل پور سی پی میں 1912 کو پیدا ہونے والے غلام مصطفیٰ خان تقسیم کے بعد حیدرآباد سندھ آگئے اور ترانوے برس کی عمر پاکر 2005 کو فوت ہوئے۔ علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو اور ایم اے فارسی کے بعد ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ ڈاکٹر آف لٹریچر ( ڈی لٹ ) کی ڈگری ناگپور یونی ورسٹی سے حاصل کی۔

کراچی کے اسلامیہ کالج, اُردو کالج اور جامعہ کراچی میں تدریس کرتے رہے۔1956 میں علامہ آئی آئی قاضی کے اصرار پر سندھ یونی ورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ بن گئے۔ 1985 تک یعنی تقریباً تیس سال سندھ یونی ورسٹی میں اُردو کے پروفیسر رہنے کے بعد وہ ریٹائر ہوئے۔غلام مصطفیٰ خان پاکستان کی جامعات میں پہلے ڈی لٹ پروفیسر تھے اور فارسی شعراء پر اُن کو وسیع تحقیق تھی۔ اُن کے درجنوں مضامین اسلامی انسائی کلو پیڈیا میں شائع ہوئے۔

بہرام شاہ کی تاریخ انگریزی میں لکھی اور انگریزی میں ہی " برصغیر کے فارسی ادب کی تاریخ " بھی تحریر فرمائی۔ اس طرح اُن کی تصنیفات کی مجموعی تعداد سو کے قریب ہے۔جن میں " فارسی پر اُردو کا اثر " , " حالی کا ذہنی ارتقا " , علمی نویش " اقبال اور قرآن " , " مطالعہ القرآن " , " جامع القواعد " , " معارف اقبال " اور دیگر کتابیں اور تالیفات شامل ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر این اے بلوچ کے ساتھ مل کر دو ضخیم لغات " اُردو سندھی لغت " اور " سندھی اردو لغت " بھی مرتب کیں۔ انہوں نے پاکستان میں تحقیق کے موضوع پر اولین مضامین لکھے اور فن تحقیق کو نصاب میں شامل کرایا اور فنِ تحقیق کے اصول بھی مرتب کیے۔ اقبالیات کو بطور مضمون متعارف کرانے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔

ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو

حمیدہ کھوڑو 1936 کو لاڑکانے کہ ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایوب کھوڑو تحریک پاکستان اور مسلم لیگ سندھ میں قائدین میں شامل تھے۔حمیدہ کھوڑو نے صرف تیس سال کی عمر میں لندن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی اور پھر تین برس آکسفورڈ یونی ورسٹی کی فیلو رہیں۔پانچ سال کراچی یونی ورسٹی میں پڑھانے کے بعد ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو 1973 میں سندھ یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر ہوگئیں۔ سندھ یونی ورسٹی میں پاکستان اسٹڈی سینٹر قائم کیا اور ریسرچ جرنل نکالے۔

کئی کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ لیکن پھر وہ سیاست میں آگئیں اور سندھ کے حقوق اور صوبائی خودمختاری کی سیاست کی اور جی ایم سید کے فلسفے کو اپنایا۔ سندھ نیشنل الائنس کے تحت محترمہ نصرت بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا مگر ناکام رہیں۔ 1990 میں جام صادق علی کی سندھ میں نگراں حکومت نے انہیں نگراں وزیر تعلیم مقرر کیا۔ اسی دوران صرف چار مہینے میں انہوں نے سندھ میں بے روزگاروں کو بڑی تعداد میں استاد کی ملازمتیں دیں۔ پھر مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئیں۔ 2002 کے بعد صدر مشرف کے دور میں سندھ کی وزیر تعلیم بنیں اور پانچ سال اسی عہدے پر رہیں۔

انیتا غلام علی

1934 کو کراچی میں جسٹس غلام علی کے گھر ولادت ہوئی ۔ پچیس سال کی عمر میں جامعہ کراچی سے حیاتیات میں ایم ایس سی کیا اور سندھ مسلم سائنس کالج میں استاد اور پھر شعبہ حیاتیات کی صدر بنیں۔ 1997 میں نگراں وزیر تعلیم بنیں۔ انیتا غلام علی کے دادا جسٹس غلام علی ان کے بے حد قریب تھے اس لیے انہوں نے اپنے والد فیروز نانا کی بجائے دادا غلام علی کا نام اپنایا۔ 1950 سے 1970 تک ریڈیو پاکستان سے انگریزی میں خبریں بھی پڑ ھیں۔ پھر پاکستان ٹیچرز ایسوسی ایشن یا انجمن اساتذہ کی صدر بنیں اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ 1985 میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بانی سربراہ بنیں۔ 2014 میں اسّی سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔

ابراہیم جویو

1915 کو جام شورو میں پیدا ہوئے اور بمبئی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ مدرسہ حیدرآباد میں نائب استاد مقرر ہوئے۔ 1960 کے عشرے میں ٹیکسٹ بک بورڈ لاھور, کراچی, کوئٹہ اور حیدرآباد میں تعینات رہے۔ پانچ سال اعزازی سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ رہے۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد انہیں ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن حیدرآباد میں تعینات کیا گیا۔

اپنے طویل تعلیمی سفر میں ابراہیم جویو سندھ ٹیکسٹ بک کے رکن, بیورو آف کری کولم کے ڈائریکٹر اور پھر سیکریٹری سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ رہے۔ان کی تصانیف کی تعداد بھی درجنوں میں ہے اور سندھ میں اُن کی علمی وادبی قد وقامت کے لوگ بڑی قدر و منزلت سے دیکھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی

1942 کو راجستھان میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ سندھ یونی ورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد وہی تاریخ پڑھانے لگے۔ پھر جرمنی سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور واپس آکر سندھ یونی ورسٹی میں ہی پڑھانے لگے۔پاکستان اور سندھ کی تاریخ پر اُن کا بڑا کام ہے۔ اُن کی تصنیفات, تالیفات اور ترجموں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔

انہوں نے پاکستان میں تاریخ کی تعلیم کو ایک نیا رخ دیا اور سرکاری بیانیوں سے ہٹ کر طالب علموں کو پڑھنے اور سیکھنے کا ڈھنگ سکھایا۔ ان کی تاریخ نویسی ہر قسم کے قومی, لسانی اور مذہبی یا فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک ہے۔ انہیں بلاشبہ پاکستان میں تاریخ کی تعلیم کو ایک نیا رخ دینے کا سہرا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ابوللیث صدیقی

1916 کو آگرے میں پیدا ہونے والے ابوللیث صدیقی علی گڑھ یونی ورسٹی سے " لکھنو کا دبستان شاعری " پر پی ایچ ڈی کرچکے تھے پھر ملکی اور بین الاقوامی طور پر اعلی ترین تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ہزاروں طالب علموں کو اپنے علم سے فیض یاب کیا۔ 1956 سے 1976 تک بیس سال کراچی یونی ورسٹی میں پڑھا کر پروفیسر ایم ری طس بن گئے۔

اُردو لغت بورڈ سے وابستہ ہو کر چھ جلدوں میں اُردو لغت مرتب کی اور نصابی نوعیت کی کئی ادبی تصانیف تخلیق کیں جن میں آج کا اُردو ادب, تاریخ زبان وادب اُردو, روایت اور تجربے, غزل اور متغز لین , مصحفی اور اس کا عہد, جرآت اور اس کا عہد, نظیر اکبر آبادی اور اس کا عہد شامل ہیں۔

ڈاکٹر ذکی حسن

ڈاکٹر حسن پاکستان میں طب کے شعبے سے وابستہ بے مثال اساتذہ میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ ذکی حسن نے 1927 میں آنکھ کھولی اور حیدرآباد دکن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیورو لوجی اور نفسیات میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ وہ بیس سال یعنی 1967 سے 1987 تک جناح ہسپتال اور اس سے ملحقہ کالج میں پڑھاتے رہے۔ نیو رو سائ کیٹری کے شعبے انہوں نے سیکڑوں نوجوان طلبا وطالبات کی رہ نمائی کی۔

نرسنگ اسکول میں پڑھایا اور کراچی یونی ورسٹی کے نفسیات, عمرانیات اور سماجی کاموں کے شعبوں میں بھی تعلیم دیتے رہے۔وہ ایک اعلی پائے کے محقق بھی تھے اور مرگی کے ساتھ شی زو فرینیيا جیسے دماغی امراض پر خاصی تحقیق کی۔سندھ میں تعلیم کے شعبے میں ان کا بڑا نام اور کام ہے۔