مفتاح کو کیوں نکالا؟

October 05, 2022

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو تبدیل کرنے کا فیصلہ محض اتفاق نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال سے ہے بلکہ خود حکمران مسلم لیگ (ن) کے اندر جنم لینے والی اس رسہ کشی سے ہے جس کے اثرات 2023 کے الیکشن میں نظر آسکتے ہیں۔ یہ فاصلے اب بڑھ رہے ہیں، کیا سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اوران کے چند ساتھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں جس نے پارٹی کے ایک بنیادی رکن چوہدری نثار علی خان کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ فیصلہ بہرحال خود میاں نواز شریف کو کرنا ہے کہ آنے والے وقت میں اس جماعت کی قیادت کون کریگا۔

مفتاح کے جانے کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ ایک حکومت اور دو وزرائے اعظم میں پھنسے وزیر خزانہ کو ہر فیصلے کیلئے ایک پیغام یا یوں کہیں اجازت وزیر اعظم شہباز شریف سے اور لندن میں موجود سابق وزیر اعظم سے لینی پڑتی تھی۔ اس دن بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا تھا مفتاح نے لندن فون کیا تو جواب آیا انتظار کرنا میرے فون کا۔ تیزی سے وقت نکل رہا تھا کہ وزیر خزانہ نے وزیراعظم کو فون کیا کہ قیمتیں بڑھانا ضروری ہے ساتھ میں میسج میاں صاحب کو بھی کردیا۔ لندن سے جواب نہیں آیا مگر شہباز صاحب نے اجازت دے دی۔ نوٹیفکیشن جاری ہوا تو میاں صاحب کا ناراضی والا فون آیا جس پر دو وزرائے اعظم میں گھرے وزیر نے کہا، میں نے آپ کو پیغام بھیجا تھا مگر آپ کا فون نہیں آیا شہباز صاحب نے اجازت دے دی تھی۔

ذرائع کے مطابق بات صرف وزیر خزانہ تک محدود نہیں۔ میاں صاحب کی لندن میں اپنی کچن کیبنٹ ہے۔ جس میں اسحاق ڈار جنہوں نے اب مفتاح کی جگہ لی ہے، نے اکثر حکومت کی معاشی پالیسی پر کھل کر تنقید کی اور یہاں مریم نواز صاحبہ بھی اسی طرح طنزیہ انداز میں اختلاف کرتی ہیں۔ جواب میں سب سے زیادہ شاہد خاقان بولتے رہے۔ ایک میٹنگ میں، جس میں میاں صاحب اٹھ کر چلے گئے تھے عباسی صاحب نے اسحاق ڈار سے کہا یہاں بیٹھ کر بات کرنا آسان ہے واپس آئیں اور زمینی حقائق کا سامنا کریں اس پر مریم صاحبہ جو فون پر تھیں نے سوال اٹھایا کہ آخر حکومت نے میاں صاحب کی واپسی کے لیے کیا کیا ہے اب تک؟سیاسی جماعتوں میں اندرون خانہ بہت سی باتیں ہوتی ہیں اور اب تو آڈیو اور ویڈیو لیک کے بعد پتا نہیں کیا کیا باہر آجائے مگر مسلم لیگ(ن) کے لیے آئندہ الیکشن مشکل ہوگیا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت یہ واضح تقسیم تھی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے بعد جلد عام انتخابات کی طرف جانا ہے مگر اتحادیوں میں اتفاق رائے نہیں تھا پھر بہرحال شہباز شریف کے پاس بھی یہ ایک موقع تھا وزیر اعظم بننے کا ۔ مفتاح کو کبھی اتحادیوں سے شکایت نہیں ہوئی ،جو زخم دیا اپنوں نے دیا

ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز صاحب نے تحریک سے پہلے ہی مفتاح کو اشارہ دےدیا تھا کہ تیاری پکڑلو، جس طرح عمران خان صاحب نے 2018میں اسد عمر کو الیکشن سے پہلے ہی وزیر خزانہ بنادیاتھا۔ مگر مفتاح کی مشکل یہ رہی کہ چاہےIMFسے بات کرنی ہو یا کوئی اور فیصلہ ، منظوری دوجگہ سے ضروری تھی۔ IMFکے لوگوں سے بات کرنے امریکہ جانا ہوتو پیغام آتا لندن سے ہوتے ہوئے جانا اور واپسی میں بھی۔ اسحاق ڈار اور ان کے درمیان تلخی واضح تھی یہاں تک کہ ایک بار میاں صاحب سے کہا گیا کہ آپ کو لندن میں لوگ غلط اعدادو شمار دے رہے ہیں۔

سیاسی محاذ پر بھی معاملات ٹھیک نہیں رہے۔ پنجاب میں تبدیلی بہت بھونڈے انداز میں کی گئی اور پھر حمزہ شہباز کے فیصلے پر تو کہتے ہیں ’ نیوٹرل‘ بھی خوش نہیں تھے کیونکہ وہ پہلے ہی عثمان بزدار سے تنگ تھے۔ کچھ سینئر رہنمائوں کا خیال تھا کہ پارٹی میں اور بھی بہت قابل لوگ موجود ہیں۔ اس جلدی میں ایک بڑی سیاسی غلطی ان لوگوں کو ٹکٹ دینا تھا جو2018 میں آزاد لڑکر جیتے اور پھر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ(ن)20میں سے 15نشستیںہار گئی کیونکہ مقامی قیادت نے بغاوت کردی۔ یہ کہنا کہ یہ پی ٹی آئی کی سیٹیں تھیں حقائق کے برخلاف ہے کیونکہ زیادہ تر آزاد لڑ کر جیتے تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا ’ حمزہ کی شیروانی چوہدری پرویز الٰہی کو فٹ آگئی‘ ان چند ماہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب شہباز شریف نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورے کے بعد لندن کو بھی بتا دیا۔ پہلے کہا گیا اسمبلی توڑ دیں مگر شہبازصاحب کا خیال تھا کہ اس میں اتحادیوں کا کیا قصور ہے میں خود ہی الگ ہوجاتا ہوں۔ وہ اسمبلی میں خطاب کرنے والے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مفتاح اسماعیل قطر روانہ ہوئے تو لندن سے پیغام ملا مزید مذاکرات نہیں ہونے حکومت ختم کرنے جارہے ہیں۔ مگر جب جہاز اترا تو فون پر دوسرا پیغام تھا، ’ حکومت اب الیکشن تک چلے گی جو مقررہ وقت پر ہونگے۔ کہتے ہیں یہ صورتحال عمران خان کی اسلام آباد میں25مئی کی چڑھائی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ویسے بھی خان صاحب اپنے خلاف خود ہی بیانیہ بنالیتے ہیں اور شاید اب کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں۔

ایک ایسا موقع بھی آیا جب کچھ غیر سیاسی لوگوں نےملک کے چیدہ چیدہ ماہرینِ معاشیات، جن میں چند ایک سابق وزرائے خزانہ بھی شامل تھے ،کو ایک ٹیبل پر بٹھا دیاگیا، ان میں مفتاح اسماعیل ، شوکت ترین اور حفیظ شیخ بھی شامل تھے کیونکہ بات نگران حکومت تک آگئی تھی۔ کہتے ہیں اس میں اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر رضا باقر بھی شامل تھے مگر IMF کے بارے میں یہ بریف کیا گیا کہ وہ نگرانوں سے مذاکرات یا معاہدہ نہیں کرے گا۔

اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چارج سنبھال لیا ہے۔ مفتاح کے مقابلے میں انہیں آسانی یہ ہے کہ انہیں دووزرائے اعظم سے منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ا ن کے آتے ہی ڈالر نیچے آنا شروع ہوگیا ہے جیسے انہیں کا انتظار تھا۔ اب مفتاح کہتے رہیں کہ میں نے شہباز شریف صاحب کو بتادیاتھا کہ ڈالر سستا ہونے والا ہے۔ ڈار صاحب کے پاس اس وقت تو چھ مہینے ہیں ایسے میں’ محکمہ سیاسیات‘ نے عمرانی طوفان کی پیشگوئی کی ہے جس کیلئے حکومت نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو حفاظتی بند باندھنے کا ٹاسک دےدیا ہے۔