چانسلر کا منی بجٹ پر یو ٹرن

October 06, 2022

تحریر: فرزانہ افضل۔۔۔۔لندن
برطانیہ کے چانسلر یا وزیر خزانہ کواسی کووارٹنگ کے منی بجٹ کے اعلان کرتے ہی برطانیہ بھر میں ہلچل مچ گئی۔ پارلیمنٹ، ٹوری پارٹی کے بیک بینچرز ، عوام، اداروں اور میڈیا نے اس کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس منی بجٹ پلان کو برطانیہ کی تاریخ میں اب تک کا معاشی طور پر غیر مربوط ترین اور بدترین منصوبہ قرار دیا۔ گو کہ اس بجٹ کو کسی حد تک حمایت بھی ملی مگر بڑے پیمانے پر اکثریت نے اس کی مخالفت کی۔ اس بجٹ کے حق میں رائے دینے والے تجزیہ نگاروں میں سے ایک نے کہا یہ ایک بہترین بجٹ ہے جسے اب تک کسی بھی چانسلر نے پیش کیا ہے ٹیکس کٹوتیاں اس قدر بڑی اور بولڈ ہیں اور زبان اس قدر غیر معمولی کہ اسے خود کو چٹکی کاٹنا پڑی کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہا تھا اور انگلینڈ میں موجود اپنے ملک کا بجٹ سن رہا تھا۔ میڈیا کے ایک اور نمائندے نے کہا کہ چانسلر کواسی کوواٹنگ کا پہلا بجٹ زلزلہ خیز ہے۔ ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے، معاشی ترقی کو سامنے رکھ کر چانسلر نے ایک حقیقی ٹوری پیکیج تیار کیا ہے ۔ یوکیپ پارٹی کے سابق رہنما نائجل فراج نے قدرے غیر مبہم حمایت کی اور مارگریٹ تھیچر کے دور میں انکم ٹیکس میں 30 فیصد سے 29 فیصد کی کمی کا موازنہ حالیہ بجٹ سے کرتے ہوئے کہا کہ 1986 کے بعد سے یہ بہترین بجٹ تھا جب کہ ادارہ معاشی امور کے ڈائریکٹر جنرل مارک لٹل ووڈ نے کہا یہ کوئی نقصان دہ بجٹ نہیں ہے یہ معیشت کا ’’بوسٹ اپ‘‘ بجٹ ہے۔ ایک چانسلر کو معاشی ترقی کی اہمیت کے بارے میں اس قدر جذباتی ہو کر بات کرتے ہوئے سننا نہایت خوشگوار تھا۔جب کہ اس بجٹ کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ تو درمیانی مدت کی ترقی بڑھانے میں بھی کچھ نہیں کرے گا بلکہ جدید معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گا ۔ حکومت کو اس دردناک حقیقت سے لاتعلقی ہو سکتی ہے ، مگر حقیقت آخر میں جیت ہی جاتی ہے بریگزٹ کے دوران بینک آف انگلینڈ کس قدر پیچھے چلا گیا اور اب اوپر سے یہ مالیاتی پالیسیاں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کو طویل عرصے تک بدترین معاشی پالیسیوں پر عمل کرنے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایک اخبار کے اداریے کے مطابق چانسلر نے یہ بجٹ پیش کر کے غریبوں کی ہتک کی ہے، ان کے منصوبے معاشی طور پر غیر محدود بنیادی طور پر غیر مساوی اور مالی طور پر خطرناک ہیں۔ سابق کابینہ سیکرٹری گس و ڈونل نے کہا کہ انہوں نے اتنا بڑا مالی محرک پہلے کبھی نہیں دیکھا ، بینک آف انگلینڈ کی شرح سود سے لیکر اس منی بجٹ تک معیشت کو زور سے بریکیں اور ایکسی لیریٹر لگا رہے ہیں۔ اس تمام تر مخالفت کے باوجود پرائم منسٹر لز ٹرس اس بجٹ کی حمایت میں ہیں اور وہ بارہا اپنے انٹرویوز میں یہ کہہ چکی ہیں کہ اگر ان معاشی پالیسیوں سے وہ غیر مقبول ہو جاتی ہیں تو ان کو منظور ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ٹیکس کٹوتی پالیسی اور حالیہ منی بجٹ معاشی ترقی کیلئے اور ملکی معیشت کو نارمل کرنے کے لئے اشد ضروری ہیں مگر چند روز قبل لز ٹرس نے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت سے پیش کیا گیا منی بجٹ خلل کا باعث بنا ہے اور اس کے بعد کئ معاشی جھٹکوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جس میں پاؤنڈ کی ڈالر کے مقابلے میں قیمت کا ریکارڈ گراؤ نہایت اہم ہے۔ ٹرانسلیٹر کواسی کوراٹنگ کے اس منی بجٹ کے مطابق سب سے زیادہ آمدنی والے افراد کے لیے 45 فیصد سے 40 فیصد کی جب کہ دوسرے ٹیکس دہندگان کو ایک فیصد کی کٹوتی ملی تھی کیونکہ انہیں نیشنل انشورنس میں اضافے سے یوٹرن کے ذریعے رقم ملے گی ۔ چانسلر نے کہا یہ سب عوامل ترقی میں اضافے میں مدد کریں گے۔ تاہم مارکیٹ کی جانب سے اس پیکیج کے بارے میں مضبوط ردعمل سامنے آیا۔ یہ پیکج گزشتہ پچاس برس کا سب سے بڑا ٹیکس کٹ تھا۔ماہرین اقتصادیات ، میڈیا ، عوام اور پارلیمنٹ کے حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور منی بجٹ کی مخالفت کی وجہ سے لز ٹرس اور کواسی کوارٹنگ نے انکم ٹیکس کی 45 فیصد سے 40 فیصد کٹوتی کے فیصلے پر یوٹرن لے لیا۔ جب بروز پیر 3 اکتوبر کی صبح چانسلر اور پرائم منسٹر پراعتماد چہرے کے ساتھ اجلاس میں داخل ہوئے اور چانسلر نے اس ذلت آمیز یوٹرن کا اعلان کیا اور ٹیکس کٹوتی کے فیصلے کو دباؤ کے تحت ختم کردیا ۔ جب کہ یہ فیصلہ مارکیٹ کو اور بھی نیچے لے گیا گزشتہ دس روز کے دوران حکومت پہلے ہی بہت زیادہ سیاسی سرمایہ خرچ کر چکی ہے۔ اس منی بجٹ اور اس یوٹرن کے فیصلے نے مارگیجز ، سرکاری قرضوں اور پاؤنڈ پر ہنگامہ خیز اثرات مرتب کیے ہیں۔ آئیے ہم مختصراً ان اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔مارگیج پر اثرات:23 ستمبر 2022 کے منی بجٹ کے پریشان کن تعارف کے بعد گھروں کے قرضوں کی 40 فیصد مصنوعات مارکیٹ سے واپس اٹھا لی گئی ہیں کیونکہ پیشگوئی کے مطابق بینک آف انگلینڈ اگلے موسم گرما تک شرح سود 6 چھ فیصد تک بڑھا سکتا ہے مگر آج کے یوٹرن کے بعد یہ پیشگوئی 5۔5 فیصد پر آ گئی ہے۔ دیکھا جائے تو اس کے نتیجے میں گھروں کے سودے ذرا کم قیمت میں ہونے چاہئیں۔ایک مارگیج بروکر نے کہا کہ ہمیں یہ بتانے میں تھوڑا وقت لگے گا کہ یہ تبدیلی کس طرح سے مدد کرے گی مگر یہ ضرور ہے کہ مختصر مدت تک قرضے لینے والوں کو مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کی توقع کرنا ہوگیجس کا مطلب یہ ہے کہ نئی ڈیل پر شرح سود بڑھتی رہے گی،یہ بات اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پچھلا ہفتہ اس قدر تتربتر تھا کہ قرض دہندگان یعنی بینکس اور بلڈنگ سوسائٹیز جنہوں نے مارکیٹ میں افراتفری کے دوران اپنے سودے واپس اٹھا لیے تھے، ابھی تک مارکیٹ میں واپس نہیں لائے ہیں اور جو ڈیلز اب تک دوبارہ سیل پر ڈالی گئی ہیں وہ کہیں زیادہ مہنگی ہیں،مثال کے طور پر نیٹ ویسٹ بینک نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ اپنے ریٹس بڑھا رہے ہیں اور ریمارگیج پر دو سال کا فکس ریٹ 4.28فیصد سے بڑھا کر 5.62فیصد کردیا ہےمگر حالات اس قدر غیر مستحکم ہونے کے ساتھ قرض دہندگان کو بھی یہ اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ وہ کتنا بزنس لینا چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے حریفوں سے کتنے کم ریٹ پر آفر کرتے ہیں تو ان کی ڈیمانڈ ضرورت سے زیادہ بڑھ سکتی ہے، جو کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پورا نہ کر پائیں،بینکوں اور قرض دہندگان اداروں کے لئے بزنس کا حجم ، ان کی سروس اور ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی قابلیت بہت اہمیت رکھتی ہےیہی وجہ ہے کہ اب اس یوٹرن کے فیصلے کے بعد بنکس اور بلڈنگ سوسائٹیز ایک دم سے فیصلے نہیں کر سکتیں۔مارکیٹ کا ردعمل۔ٹیکس کٹوتی کے یوٹرن کے اعلان کے ساتھ ہی پاؤنڈ کا ڈالر کے مقابلے میں قدر کا دو سینٹ کا اضافہ ہوا۔ پاؤنڈ پھر سے 1.13 ڈالر کا ہوگیا ، جو قیمت منی بجٹ کے اعلان سے پہلے تھی۔پبلک فنانس پر اثرات۔چانسلر کی جانب سے 45 فیصد کی انکم ٹیکس کی شرح کو ختم کرنے کا حیران کن اقدام اس کے لا پروا طریقہ کار کی علامت تھا۔ جسے گزشتہ ہفتے کے مارکیٹ کے ہنگامہ کے کلیدی عنصر کے طور پر پیش کیا گیا۔ پرائم منسٹر نے بھی گزشتہ روز اس بات کا اعتراف کیا کہ چانسلر کا ٹیکس کٹوتی کا فیصلہ یک طرفہ تھا اور کابینہ سے بغیر مشورے کے کیا گیا تھااور انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے سطح ہموار کرنی چاہیے تھی۔ یوٹرن کے بعد 45 بلین پاؤنڈ کا ٹیکس بجٹ پیکیج صرف دو بلین پاؤنڈ کی کمی کے بعد اب 40 بلین پاؤنڈ کا ہے۔ ماہرین اقتصادیات بجٹ کے بقیہ پلان کے بارے میں فکر مند ہیں ان کے مطابق اس یوٹرن کا مالیاتی استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے،تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کووارٹنگ کو اپنے بجٹ کے وعدوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے یا پھر عالمی سطح پر برطانیہ کی خراب ساکھ کو ٹھیک کرنے کے لئے اور بیرونی اور عالمی سرمایہ کاری کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کے لئے عوامی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کا عہد کیا جاسکتا ہے۔کساد بازاری یا ریسیشن کے امکانات:حکومت کے انکم ٹیکس کی شرح زیادہ رکھنے اور اخراجات کے منصوبوں کو برقرار رکھنے سے کساد بازاری کے امکانات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس سے مہنگائی کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے اس لیے ماہرین اقتصادیات کو توقع ہے کہ بینک آف انگلینڈ کو اگلے موسم گرما تک شرحیں بڑھانا ہوں گی جس سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے میں ملے گی۔ اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کو ساتھ لے کر چلے۔ وزیراعظم اپنے ارادوں میں مضبوط اور منصوبوں میں پختہ دکھائی دیتی ہیں۔ مگر لز ٹرس اور کووارٹنگ کو اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ہی اس منی بجٹ کا اعلان کر کے ، پھر اس پر یوٹرن لے کر شدید ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ لز ٹرس کی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہےجس میں بینیفٹس میں کٹوتی ، مہنگائی کا بحران اور بجلی اور گیس کی قیمتوں کا بحران شامل ہیں۔ گیس کہ ریگولیٹر میں کہاں ہے کہ اس موسم سرما میں گیس میں کی شارٹیج متوقع ہے یعنی برطانیہ میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو سکتی ہے۔ لز ٹرس کی حکومت کا آغاز ہی ان کے حق میں اچھا ثابت نہیں ہو رہا اور انکو اپنے ان منصوبوں اور اقدامات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دیکھتے ہیں کہ اگلے جنرل الیکشن میں کیا لز ٹرس بطور کنزرویٹوو پارٹی لیڈر اور پرائم منسٹر جیت کی حقدار ہوں گی یا نہیں۔