ایک اور گورے کا سفر نامہ (3)

October 07, 2022

سوال ہی سوال

پاکستان میں چند ہفتے قیام کے دوران ایک ایسے پاکستانی سے بھی ملاقات ہوئی جو صرف سوال کرتا تھا اور جواب سننے کی زحمت سے بچنے کےلئے اگلا سوال داغ دیتا تھا،یہ تو شکر ہے کہ اسے انگریزی پر بہت کمانڈ حاصل تھی ورنہ مجھے تو صرف اس کا منہ ہلتا نظر آتا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ جہاز اور ٹرینوں میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس کے علیحدہ علیحدہ ڈبے کیوں ہوتے ہیں، جبکہ تھرڈ کلاس میں کچھ فرسٹ کلاس لوگ اور فرسٹ کلاس میں کچھ تھرڈ کلاس لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی پوچھ رہا تھا کہ ایک شخص آپ کے لئے کھانا پکاتا ہے اور پھر لاکر آپ کی میز پر سجا دیتا ہے۔ اس انواع و اقسام کے کھانے پکانے کے عوض اسے ماہانہ اتنے تھوڑے پیسے دیئے جاتے ہیں جس سے وہ دال روٹی بھی بمشکل کھاسکے ۔ اس نے یہ بھی پوچھا کہ ایک شخص کے پاس متعدد رہائشی مکانات ہوتے ہیں جنہیں وہ شخص ان لوگوں کو کرائے پر دیتا ہے۔ دو گھنٹے کی اس سر کھپائی کے دوران اس نے کچھ اسی نوعیت کے ڈیڑھ دو سو سوال پوچھے، جن کا میرا پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اگر کسی سوال کا جواب تھا بھی تو وہ مجھے جواب کا موقع ہی کب دیتا تھا۔

ٹھرکی بابا جی

متذکرہ شخص کے علاوہ بہت سے ایسے لوگ بھی ملے جو اپنی بات کا تفصیلی جواب دیتے تھے مگر میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا تھا، جس پر وہ جھنجھلا جاتے۔ ایک اسی سالہ بزرگوار نے، جن کی سفید داڑھی، سفید مونچھیں اور سر پر سفید پگڑی تھی، نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ کے ہاں فحاشی بہت ہے؟ میں نے جواب میں پوچھا فحاشی سے آپ کی مراد کیا ہے؟بولے لڑکے لڑکیاں سڑکوں پر ایک دوسرے سے جپھیاں ڈالے ٹہلتے نظر آتے ہیں۔میں نے کہا، ہاں۔ انہوں نے بانہوں میں بانہیں ڈالی ہوتی ہیں مگر اس میں فحاشی کہاں سے آئی؟ اس کے بعد اس بزرگ سے ہونے والی گفتگوکا ایک قابلِ اشاعت حصہ ملاحظہ فرمائیں۔

سنا ہے لڑکیاں نیکر پہن کر بھی پھرتی ہیں۔

جی، صحیح سنا ہے۔

لڑکیاں اور لڑکے سڑکوں پر سب کے سامنے بوس و کنار کرتے ہیں۔

جی کرتے ہیں۔

سنا ہے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

جی ہوتا ہے۔

’’کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’جو آپ نے سنا ہے۔‘‘

میں نے تو بہت گندی گندی باتیں سنی ہیں۔

جی آپ صحیح کہتے ہیں۔

مثلاً وہ گندی باتیں کیا ہیں؟

وہ سب کچھ جو آپ کے ذہن میں ہے۔

مگر پلیز مجھے تفصیل سے بتائیں، یعنی وہ جو سب کچھ کرتے ہیں اس کی جزئیات بھی بتائیں۔

اس وقت میرے پاس ایک سمجھدار پاکستانی موجود تھا، اس نے بابے کو بازو سے پکڑا اور کہا، بابا جی اگر آپ چسکا لینے والی بات سننا چاہتے ہیں تو اس گورے کو دفع کریں، میں آپ کو انگریزی کے کچھ رسالے پڑھنے کیلئے نہیں صرف دیکھنے کیلئے دونگا اور ہاں ایک اور بات آپ ایک مہینہ میرے ساتھ رہیں اور جن باتوں پر آپ اہل مغرب کو بے حیا، بے غیرت اور نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں،وہ آپ کو پاکستان کے گلی کوچوں میں دکھا دوں گا۔چل ہن پھٹاں کھا، ٹھرکی بابے۔

حیا دار پاکستانی

ایک بازار سے گزرتے ہوئے میں مختلف دکانوں کے بورڈ دیکھتا چلا جا رہا تھا جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے کاروبار کی نوعیت کیا ہے؟ میں نے ایک دکان کے باہر صرف خوبصورت غبارے لٹکے ہوئے دیکھے۔ اس کے علاوہ کچھ درج نہیں تھا۔ میں نے اپنے ہمراہی سے پوچھا ،’’یہ کس چیز کی دکان ہے؟‘‘ہمراہی نے جواب دیا ، کسی چیز کی نہیں، یہاں صرف ختنے کئے جاتے ہیں۔ پاکستانی واقعی حیا دار لوگ ہیں۔

محب وطن پاکستانی

ایک دن لاہور کی سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ آج ٹریفک معمول سے زیادہ ہے، اس کے علاوہ شور بھی بہت زیادہ تھا۔ اچھی خاصی عمر کے لوگ بچوں کے مخصوص باجے، ہونٹوں سے لگاتے اور پھر منہ میں ہوا بھر کر چھوڑ دیتےجس کے نتیجے میں ایک بہت خوفناک آواز کانوں کے پردے پھاڑنے والی ہوتی۔بچے تو خیر اس کام میں سب سے آگے تھے، سڑک پر جگہ جگہ لوگوں کے ہجوم نظر آئے جنہوں نے ٹریفک بلاک کی ہوتی اور باجوں سے اپنا دل بہلااور دوسروں کا دل دہلا رہے ہوتے،میں کار سے نکل کر اس جشن میں شامل ہوگیا جو یوم پاکستان کے حوالے سے عوام کا اپنے وطن سے محبت کا اظہار تھا۔میں نے بالآخر اپنے ہمراہی پاکستانی کو مخاطب کرنے کی کوشش کی، میں نے کہا کیا وطن سے محبت کا اظہار صرف باجے بجانے سے ہوتا ہے مگر اس نے میرےکان کے عین سوراخ کے اوپر باجا رکھا اوراس جوش و جذبہ سے بجایا کہ کچھ دیر کے لئے میرا یہ کان بے کار ہوگیا۔مجھے کیا علم تھا، میرا پاکستانی گائیڈ پاکستان سے اپنی محبت اور اظہار مجھ سے براہ راست کرنا چاہے گا۔


ایک نئی تھیوری

ایک شخص مجھے ملنے آیا اور آتے ہی اس نے کہا کہ میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں،آپ کے میزبان نے مجھے بتایا ہے کہ آپ بہت عالم فاضل ہیں اور تقریباً ہر شعبے کے حوالے سے آپ بے بہا معلومات رکھتے ہیں۔ میں نے کہا میرے دوست نے بہت مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے جس پر وہ بولا آپ کی طرح ہر عالم شخص کسر نفسی سے کام لیتاہے، میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ انسان مٹی یا پانی سے نہیں بنا، جس پر میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک انسان کی تشکیل کیسے ہوئی؟ اس نے جواب دیا، مختلف کیمیائی اجزاسے۔ مثلاً کولسٹرول، پروسٹیٹ، لگزوٹونل اور کیلشیم وغیرہ سے، چنانچہ آپ دیکھ لیں ان میں سے کوئی چیز بھی جسم میں کم یا زیادہ ہوتی ہے تو پھر اس کمی کو اضافے اور اضافے کو کمی میں تبدیل کرنے کی دوا دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے۔ میں نے کہا میں آج کل بہت فضول قسم کے خیالات میں پھنسا ہوا ہوں اور ان کی تعداد کم کرنے کے لئےسوچ و بچار کو کم کرنے کی دوا لے رہا ہوں۔ میں اگر ٹھیک ہوگیا تو آپ کی تھیوری پر غور و خوض کروں گا۔