سانپ کے زہر کا تریاق بنانے کیلئے نئی کوششیں

November 07, 2022

ایشیا اور افریقی ممالک میں سانپ کے کاٹنے سے ہونے والے جانی نقصان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں بر اعظم مل کر دنیا کا سب سے بڑا زمینی رقبہ بن جاتے ہیں۔ یہ دونوں براعظم ایک سو سینتالیس ملکوں پر مشتمل ہیں اور ہر طرح کا پہاڑی نظام ، سطح مرتفع میدانی، میدان، صحرا ، میٹھے اور کھارے پانی پر مشتمل ہر طرح کا خطہ اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والی جانوروں کا بڑا حصہ اس خطے میں اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے۔ زہریلے سانپوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ ان دو بر اعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔

جو جغرافیائی لحاظ سے ایک ہی نسل ہونے کے باوجود اپنے زہر میں موجود اجزاء کی سطح پر ایک دوسرے سے کچھ فرق رکھتے ہیں۔ یہ فرق اس وقت پریشانی کا باعث بن جاتا ہے جب کسی انسان کو سانپ کے کاٹے کا تریاق یا سانپ کے زہر کو ختم کرنے والی دوا دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ دوا در اصل گھوڑوں کو استعمال کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے اور اسی عمل میں گھوڑوں کو بہت کم مقدار میں سانپ زہر دیا جاتا ہے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس مقدار کو انتہائی احتیاط کے ساتھ بڑھایا جاتا ہے اور گھوڑا اپنے خون میں موجود صفائی نظام کے ذریعے اس زہر کے اثر کو زائل کرنے والی اینٹی باڈی جو کہ ایک قسم کی پروٹین ہوتی ہے، اس کو بناتا ہے۔

یہ اینٹی باڈی گھوڑے کے خون سے الگ کرکے سانپ کے زہر کا تریاق بنایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ کون سازہر استعمال کرتے ہوئے یہ تریاق بنایا گیا ہے۔ سانپ کس علاقے کا ہے اور کیا کئی زہر ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئےتریاق بنایا گیا ہے، جس کو ہم کشیر گرفتہ کہتے ہیں یا پھر ایک ہی سانپ کے زہر کو استعمال کرتے ہوئے یہ کام انجام دیا گیا ہے، جس کو ہم یک گرفتہ کہتے ہیں۔یہ تریاق اس علاقے کے سانپ کے زہر کا اثر ختم کر سکتے ہیں، جس علاقے کا سانپ ہوتا ہے۔

چناں چہ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ایک ملک میں بنایا جانے والا تریاق جب دوسرے ملک میں استعمال ہوتا ہے تو وہ کچھ نہ کچھ ضمنی اثرات رکھتا ہے اور مریض کو زیادہ مقدار میں چاہیے ہوتا ہے۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں استعمال ہونے والا تریاق عام طور سے کثیر گرفتہ ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مریض کو کسی سانپ نے کاٹا ہے، اس بات کا پتہ چلنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ سانپ کو صرف مریض نے دیکھا ہوتا ہے یا جس کسی نے دیکھا ہوتا ہے وہ سانپوں کی قسموں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے صحیح طور بتا نہیں پاتا ہے۔

عام طور سے ڈاکٹر مریض کی ابتدائی علامات کی بنیاد پر اندازہ لگا سکتا ہے ،مگر مکمل طور پر اعتماد کے ساتھ یہ طے نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ایک کثیر گرفتہ تریاق مریض کے جسم میں ٹیکہ لگا کر داخل کر دیا جاتا ہے ۔ مریض کی حالت کیسی ہےاور کتنا زہر مریض کے جسم میں داخل ہوا ہے یہ بات طے کرتے ہیں کہ تریاق کی کتنی مقدار وقفے وقفے سے مریض کو دینی ہیں۔ ضمنی طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مریض میں زیادہ تریاق دینے کی وجہ سے حساسیت یا الرجی بھی ہو جاتی ہے، جس کا علاج ایک اضافی بوجھ بن جاتا ہے۔

اس کے باوجود گھوڑوں سے بنایا جانے والا سانپ کے زہر کا تریاق دنیا میں سب سے زیادہ دستیاب ہے اور سانپ کے کاٹے کے لیے یہی استعمال ہوتا ہے۔ بندر، خرگوش وغیرہ کو بھی تریاق بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے،مگر وافر مقدار میں دستیابی اور سانپ کے زہر کی کم مقدار استعمال کرنے کے باوجود یہ چھوٹے جاندار دوران عمل ہی مر جاتے ہیں جب کہ گھوڑا ایک مضبوط جاندار ہونے کی وجہ سے کم زہر کے اثرا ت کا بوجھ سہہ جاتا ہے اور اس کا خون اینٹی باڈی کی شکل میں تریاق بنا لیتا ہے، مگر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایک ہی نسل کے سانپ علاقائی طور پر اپنے زہر کے اجزاء میں کچھ فرق رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہر علاقے کے سانپ کا زہر لے کر اس کا مخصوص تریاق بنانا چاہیے۔

گھوڑوں سے حاصل شدہ خون اگر چہ زیادہ مقدار میں ہوتا ہے اور اس سے بننے والا تریاق زیادہ تعداد میں مریضوں کو دیا جا سکتا ہے، مگر گھوڑوں پر لگنے والی لاگت اور اس عمل کو سالوں تک قائم رکھنے کے لیے ایک مکمل نظام چاہیے ہوتا ہے جو کہ ترقی پزیر ممالک کے لیے برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے، پھر حاصل شدہ تریاق کا معیار برقرار رکھنا ایک اور اہم مرحلہ ہوتا ہے، جس کو کوالٹی کنٹرول کیا جاتا ہے۔

یہ تمام منظرنامہ اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کوئی اور طریقہ اپنا کر سانپ کے زہر کا تریاق بنانے کے لیے رائج کیا جائے، جس طرح آج کے دور میں مختلف ویکسین دستیاب ہیں جو کہ تجربہ گاہ میں بنائی جاتی ہیں یا انسولین جو کہ ایک ہارمون ہے اور اسی طرح تجارتی بنیادوں پر بنایا اور بیچا جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی زہر کا تریاق بھی حاصل کیا جائے اور سستے داموں دستیاب ہو۔

اس سلسلے میں مختلف تحقیقاتی اداروں میں کام کیا گیا ہے اور ایک ایسا طریقہ کھوجھنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ تریاق بنانے کا کام نہ صرف آسان کر دے بلکہ یہ دوا سستے داموں دستیاب بھی ہو اور ضمنی اثرات سے پاک ایک انتہائی مفید فارمولا رکھتی ہو۔ ایک حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ کسی ایک بڑے علاقے میں موجود ایک ہی نسل کے سانپ سے زہر حاصل کیا جائے اور پھر اس زہر میں سے سب سے زیادہ مہلک جز کو پہچان کر الگ کر لیا جائے۔ یہ ہر علاقے کے سانپ کے زہر کے ساتھ کیا جائے۔ اسی طرح بہت کم اجزا مگر زہر کے انتہائی مہلک حصے کو جمع کیا جا سکتا ہے ۔ یہ حصہ خام زہر کی طرح پیچیدہ نہیں ہوگا۔

لہٰذا کسی اور نسل کے علاقائی سانپوں سے بھی اسی طرح سے مہلک ترین اجزاء کو الگ کر کے دو مختلف نسل کے سانپوں کے حصے ملا کر یہ مرکب تریاق بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بننے والا تریاق انتہائی مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ ضمنی اثرات سے کافی حد تک پاک ہوگا اور چونکہ اس تریاق میں ایک یا دو مختلف نسل کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں کے سانپوں کے زہر کا کچھ نہ کچھ مہلک جز موجود ہوگا۔ لہٰذا یہ تریاق آس پاس کے تمام ممالک اور بر اعظم کے لیے استعمال ہو سکے گا۔

اس کام کو تحقیقی طور پر ابتدائی نتائج کی بنیاد پر ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع کیا جا چکا ہے، جس کے لکھاری اتنا بانا نگکون ہیں جو کہ ایک تحقیقی ادارے، بنکاک، تھائی لینڈ سے منسلک ہیں۔ اسی طرح ایک اور تحقیق بھی جو کہ رومن راموسی اور ان کے ساتھیوں نے شائع کی ہے ایک اور طریقے کو اپنانے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جدید طریقوں کی وجہ سے اب یہ بات ممکن ہو چکی ہے کہ کسی بھی سانپ کے زہر کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لی جائیں اور یہ پتہ لگایا جائے کہ زہر کے سب سے مہلک چار یا پانچ ٹاکسن کونسے ہیں اور پھر ان سے کام شروع کیا جائے۔

ان ٹاکسن سے تعامل کے نتیجے میں جو اینٹی باڈی بنتی ہے ،اس کو کام میں لاتے ہوئے خاص ایپی ٹاپ کے ذریعے سے تجربہ گاہ میں خاصی خلیات کے ذریعے سے ان ٹاکسن کے اثر کو زائل کرنے والی نسبتاً چھوٹے سائز کی پروٹین حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ تریاقی پروٹین اس سانپ کے زہر کے تریاق کے طور پر کام کر سکتے ہیں ،جس کی ٹاکسن سے یہ بنائے گئے ہوں، پھر اس میں ایک اور عنصر جو کہ جینیاتی طور پر بھی استعمال کر لیا جائے تو ایک طرح کا امیونائزیشن کا طریقہ بھی علاج کے لیے دستیاب ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ تریاق بنانے والے ہر طریقے کے اپنے فائدے اور کمی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے سے نئے اور قابل عمل طریقے سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں موجود این آئی ایچ ادارہ سانپ کے کاٹے کا تریاق بنا رہا ہے۔

یہ تریاق گھوڑوں کے ذریعے سے کثیر گرفتہ شکل میں بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں سانپ کاٹنے سے سالانہ ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً چالیس ہزار سانپ کے کاٹنے کے حادثات میں سے آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں بننے والا تریاق اور اس کی مقدار اس طرح کے بوجھ کو سہارا دینے کے لیے نا کافی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بیرون ملک سے درآمد کیا جانے والا تریاق بھی موجود ہے جو کہ کم اثر ہے ،کیوںکہ وہ دوسرے ملکوں میں موجود سانپ کے زہر سے بنایا گیا ہے اور نسل ایک ہونے کے باوجود علاقائی فرق کی وجہ سے زہرمیں کچھ نہ کچھ تبدیلی موجو د ہے اور وہ تبدیلی پاکستان میں سانپ کے کاٹے کے مریض کو ضمنی اثرات کی طرف لے جاتی ہے اور درآمد شدہ تریاق کی زیادہ مقدار بھی مطلوب ہوتی ہے۔

پاکستان میں موجود زہریلے سانپوں پر ہونے والی تحقیق تو موجود ہے، مگر اس کے تریاق سے متعلق تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہی گھوڑوں والا طریقہ اپناتے ہوئے تریاق بنایا جا رہا ہے جو کہ مالی طور پر تریاق بنانے والے اداروں کے لیے بوجھ ہے۔ این آئی ایچ کے علاوہ ڈاؤ یونیورسٹی بھی یہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے ملک کا یہ منظر نامہ اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ سانپ کے زہر کے تریاق سے متعلق تحقیق خاص توجہ طلب ہے، جس طرح سے سیلاب جیسی قدرتی آفات ہمارے ملک میں وقفے وقفے سے آتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے تو اس طرف ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حالیہ سیلاب کے دوران ایک ایک وقت میں سو سے زائد لوگ سانپ کےکانٹے کا شکار ہوئے ہیں۔

پاکستان میں سانپ کے زہر کے تریاق کے لیے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تحقیق سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر آج ایسا کوئی تحقیقی مطالعہ شروع کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والے نتیجے کو لاگو کرنا ایک وقت طلب عمل ہے۔ جو کہ کم از کم دس سال ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے پروجیکٹ متعدد قومی اور بین الاقوامی اداروں کے باہمی تعاون اور اشتراک سے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے بھی یہ وقت طلب ہوتے ہیں۔ اس طرح کے پروجیکٹ کے قابل عمل ہونے اور عمل پزیر ہونے کا اندازہ لگانا سب سے پہلا قدم ہوتا ہے۔

پروٹیومکس سینٹر جامعہ کراچی اور ڈاؤ انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانس بائیو لوجیکل اینڈ اینیمل ریسرچ کے درمیان اس طرح کے متوقع پروجیکٹ کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں اس طرح کا ایک تحقیقی مطالعہ شروع ہو جائے۔ اگر یہ ممکن ہوا تو یہ اپنی طرز کا اپہلا مطالعہ ہوگا جو اس سمت میں شروع ہوگا اور جس سے حاصل ہونے والے نتائج ہمارے دیہی علاقے میں رہنے والے اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے لوگوں کو ایک سستے دامو اور وافر مقدار میں دستیاب سانپ کے زہر کا تریاق با آسانی مل سکے گا۔