ان کی اجڑی قبروں پر کوئی نہیں جاتا

December 01, 2022

تحریر:آفتاب خانزادہ۔۔۔لندن
2000 میں امن کا نوبیل انعام جنوبی کوریا کے صدر کم ڈے ینگ کو دیا گیا۔ انہوں نے اپنے خطبے میں کہا ’’ مغرب سے کہیں پہلے سے ، عظمت انسان کا احترام ایشیاء کے نظام خیال میں موجود تھا اور ہماری دانش کی روایات میں بھی اس کے جڑیں گہری تھیں’’ عوام ہی جنت ہیں عوام کی خواہشات جنت کی خواہشات ہوتی ہیں اسی طرح لوگوں کا احترام کرو جیسے تم جنت کا احترام کرو گے ‘‘تین ہزار برس سے کوریا اور چین کی سیاسیات کا یہ ہی مرکزی عقیدہ رہا ہے پانچ صدی بعد ہندوستان میں بدھ مت نے انسان کی عظمتوں اور اس کے حقوق کی ارفع اہمیت کی تبلیغ شروع کی تھی اور بھی بہت سے مروجہ نظریات اور ادارے تھے جنہوں نے عوام کو سب سے آگے رکھا ہے کنفیو شس کے چیلے Menciusکا قول ہے ’’ بادشاہ جنت کا بیٹا ہو تا ہے جنت اسے منصفانہ حکمرانی کے لیے بھیجتی ہے اگر وہ ناکام ہو تاہے اور عوام پر ظلم کرتا ہے تو جنت کی طرف سے عوام کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس سے نجات حاصل کرلیں ‘‘ اور یہ سب کچھ جان لاک کے Social Contractاور معاشرتی حاکمیت کے نظریات سے دو ہزار برس قبل ہو رہا تھا ۔ میخائل گوربا چوف نے Perestvoikaاور نئی سو چ کے بارے میں اپنی کتاب ان الفاظ سے شروع کی تھی ’’ ہم چاہتے ہیں کہ ہم کوسمجھا جائے ‘‘۔75 سال ہوگئے ہمیں کبھی نہیں سمجھا گیا، ہم سے کبھی ہماری خواہشیں نہیں پوچھی گئیں کوئی ہمارے پاس آتا بھی نہیں ہے، ہم سب بھلا دیئے گئے ہیں نوبیل انعام یافتہ مدر ٹریسا نے ایک بار کہا تھا ’’ میں نہیں بھول سکتی جب مجھے ایک گھر میں جانے کا موقع ملا تھا جہاں بیٹوں اور بیٹیوں کے بوڑھے ماں باپ تھے وہ لوگ جنہیں ایک ادارے میں ڈال کر شاید بھول گئے تھے میں وہاں گئی اور میں نے دیکھا کہ اس گھر میں ان کے واسطے سب کچھ موجود تھا ہر طرح کی خوبصورت چیزیں تھیں مگر ہر شخص دروازے کی طرف تکتا رہتا تھا میں نے کسی ایک کے بھی چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی میں نے ایک بہن سے پوچھا ایسا کیوں ہے ؟ایسا کیوں ہے کہ یہاں بہت سب کچھ ہے مگر لوگ دروازے کی طرف کیوں تکتے رہتے ہیں یہ مسکراتے کیوں نہیں ؟ میں تو لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کی اتنی عادی ہوںمرتے ہوئے لوگوں کی لبوں پر بھی ۔ پھر انہوں نے کہا یہ تقریباً ہر روز ہوتاہے کہ وہ انتظار کرتے ہیں امید کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے ملنے آئے گی ان کو دکھ ہوتا ہے کہ وہ بھلا دیئے گئے ہیں ‘‘۔ بھلا دئیے جانے کا غم سب سے بڑا غم ہوتاہے اور اس وقت تو وہ اور زیادہ ہوجاتا ہے جب بھوک ، افلاس کا دیو آہستہ آہستہ نگل رہا ہوتاہے بیماریاں گھروں میں جب ڈیرے ڈال چکی ہوتی ہیں ۔ذلتیں زنجیروں کی طر ح جسموں کو جکڑے ہوئے ہوتی ہیں، وہ ہی لوگ جنہیں ذاتی سطح پر اپنے حقوق کی پامالی کا تجربہ ہوا ہو جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بھوک کی وجہ سے اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھا ہو جن کی زندگیاں خسارے میں ، خوف میں اور بد گمانی میں گذری ہوں صرف وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ اس نوعیت کے حالات میں زندگی گزارنا کیسا ہوتاہے، ہم سب کبھی نہ ختم ہونے والے عرصے سے ہرآنے والے دن کو جھیل رہے ہیں ، ہم روز زندہ رہنے کے حق کی پامالی دیکھ رہے ہیں خوف سزا کے بغیر موت گھر گھر با نٹی جارہی ہے ۔ ’’ آزادی کے بعد آپ کی سب سے بڑی مشکل کیا رہی ہے ‘‘ ۔ یہ وہ سوال ہے جس کو فرانسیسی مصنف اینڈرے مالر اکس نے ایک بار جواہر لال نہرو سے پوچھا تھا نہرو نے جواب میں کہا کہ ایک درست حکومت کو درست ذرائع سے وجود میں لانا، جواہر لال نہرو کو ہندوستان میں کامل اقتدار حاصل تھا اس کے باوجود بہتر نظام حکومت بنانے کے لیے وہ اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ بہتر نظام حکومت بنانے کا کام حکومت کی طاقت سے نہیں ہوتا یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو حکومت سے باہر رہ کر اس کے لیے جدو جہد کریں، اصل میں بہتر حکومت بنانے کاکام بہتر افراد بنانے سے شروع ہوتاہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ لوگ خالص تعمیری انداز میں ذہن بنانے کے کام میں لگیں وہ تقریر و تحریر، ٹی وی چینلز ، اخبارات اور دوسرے ممکن ذرائع سے ایک ایک شخص کے ذہن میں داخل ہونے کی کوشش کریں ، یہ کام خاموش اور پرا من انداز میں لمبی مدت تک جاری رہے گا یہ گو یا ایک قسم کا تعمیری لا وا پکا نا ہے جب افراد کی قابل لحا ظ تعداد میں فکر کا لاوا پکتا ہے تو افرادکی زندگیوں میں انقلاب آجا تا ہے اور اس کے بعد سماج میں بھی انقلاب آجا تا ہے اور جب سماج کی اصلا ح ہوجائے تو اس کے بعد اصلا ح یافتہ حکومت بھی لازماً بن کے رہتی ہے افراد میں انقلاب سماج میں انقلاب لا نے کا باعث بنتا ہے اور سماج میں انقلاب حکومت میں انقلاب لے آتا ہے کیونکہ حکومت سماج کے اندر سے نکل کر ہی تشکیل پاتی ہے لہٰذا بہتر حکومت کا تصور اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سماج میں بہتر لوگ نہ ہوں ، قصہ مشہور ہے کہ جب عظیم رومی شہنشاہ مارکیو زاور لیو س کا انتقال ہو ا تو اولمپائی دیوتائوں نے اس کے اعزاز میں پرتکلف دعوت کااہتمام کیا اس دعوت میں اس کے دائیں جانب شہنشاہ آگٹس ،طبرس اور ویسپاسین بیٹھے تھے جب کہ اس کے بائیں جانب دوسرے عظیم رومی شہنشاہ براجمان تھے ان میں نروا ، ٹراجن ، ہڈرین اور اس کا سو تیلا باپ انٹونی نس پیوس تھے ۔ نیرو اور کیلی گلا کو البتہ دروازے پر ہی روک لیا تھا اس ضیافت میں دیو تا جیو پیڑنے ایک مقابلے کا اعلان کیا جس کے ذریعے یہ طے کرنا مقصود تھا کہ ان میں عظیم ترین رومی شہنشاہ کون ہے یہ سب ہی شہنشاہ امیدوار تھے وہ باری باری اٹھے اور انہوں نے اپنے بارے میں مختصر تقریریں کیں اکثر نے اپنی اپنی فتو حات کی شیخیاں بگھاریں پھر مارکیوز اور لیوس کی باری آئی تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے بس یہ کہا کہ ’’ میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ‘‘۔کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ مارکیو زاور لیو س کے یہ الفاظ سننے کے بعد اس کو عظیم ترین رومی مان لیا گیا مگر اسے عظیم ترین انسان نہیں کہا گیا کیونکہ اس تمنا کی تکمیل کی راہ میں فلسفی مارکیوز اور لیوس کو شہنشاہ مارکیو ز اور لیوس نے روک لیا تھا ۔ گاندھی نے کہا تھا ’’انسان کی حیثیت سے ہماری عظمت اس دنیا کو از سر نو بنانے میں نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو بنانے میں ہے ‘‘جب کہ جان ڈبلیو ڈیوس نے کہا ہے ’’ اگر ہمارے ملکی حالات و واقعات مختلف ہوتے تو ہم سب مختلف ہوتے ‘‘ ۔ یہ ہی عظیم ترین سچائی ہے، انسان اطمینان ،خوشی ، سکون اور سکینت کے لمحوں کے حصول کی خاطر پہلے ہی روز سے بھٹک رہا ہے اور مسلسل نامرادی و ناکامی سے دو چار ہے کیونکہ وہ زندگی کے اصل فلسفے کو کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا ہے ۔زندگی کی سب سے اہم ترین بنیادی بات جسے ہر وقت یاد رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اوراسی بات کوہم سب سے پہلے غیر ضروری سمجھتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہم سب بھکاری اورگداگر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں ہمارے پاس اپنا ذاتی کچھ بھی نہیں ہے حتیٰ کہ سانس بھی نہیں ۔ سب ہی کچھ خدا کا عطا کر دہ ہے اور سب ہی کچھ عارضی ہے ہم ہروقت اس سے مانگتے رہتے ہیں اور وہ ہروقت عطا کرتا رہتا ہے اور واپس لیتا رہتاہے حتیٰ کہ زندگی تک بھی ۔ جب ہی سقراط کہتا تھا ’’ اپنے آپ کو پہنچا نو ‘‘ اسی لیے صدیوں پہلے سے کہتے آرہے ہیں ’’ عوام ہی جنت ہیں عوام کی خواہشات جنت کی خواہشات ہوتی ہیں اسی طرح لوگوں کا احترام کرو جیسے تم جنت کا احترام کروگے ‘‘اس کے بالکل برعکس ہمارے ہاں مراعات یافتہ طبقے نے پہلے ہی روز یہ طے کر لیا تھا کہ ’’عوام ہی دوزخ ہیں عوام کی خواہشات دوزخ کی خواہشات ہوتی ہیں‘‘۔ اس لیے جتنی ذلتیں ، تکلیفیں ، مصیبتیں، اذیتیں عوام کو دے سکتے ہو دیتے رہو ۔ ان کو اس طرح اندھیروں میں دھکیل دو کہ وہ کبھی ان سے باہر ہی نہ آسکیں،ظاہر ہے پھر اس سوچ کے بعد تو ہمارے سماج میں بہتر انسان بنانے کی سو چ سوچنا ہی کفر کے زمرے میں آتی تھی ، افرادی انقلاب کی بات تو ان کی سوچ و سمجھ سے بالکل ہی باہرتھی اس لیے جو نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے وہ اس سے مختلف کیسے ہوسکتا تھا، مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے لیے جنت کی خواہش مندوں کے حصے میں آخر میں دوزخ ہی آئی، ان کے لیے جنت عارضی ہی ثابت ہوئی، تاریخ ان کا ذکر کن الفاظ سے یادکرتی ہے آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ آج ان کی اجڑی قبروں پر کوئی نہیں جاتاہے۔