سینیٹ سے ہم جنس جوڑوں کو تحفظ

December 03, 2022

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
جس طرح پاکستان میں غربت، بیروزگاری اور سیلاب جیسے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر وہاں سیاستدان صرف اقتدار پر قبضے کی دوڑ میں سانسیں پھلائے ہوئے ہیں یا چند ہی روز پہلے تک آرمی چیف کی تعیناتی نے پوری قوم کا ہاضمہ خراب کیا ہوا تھا، اسی طرح امریکہ میںLGBTاور ہم جنسیت کا مسئلہ بنیادی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے، چند ہی روز قبل امریکی سینیٹ میں ہم جنس سے شادی کابل بھاری اکثریت سے پاس کردیا گیا ہے، ری پبلکن کے بہت سے سینیٹرز نے بھی ڈیمو کریٹک کا ساتھ دیا، اس کے ساتھ ساتھ اس بل میں مختلف النسل جوڑوں کے اکٹھے رہنے کے حوالے سے بھی اس بل میں منظوری دی گئی ہے، مختلف النسل جنہیں انٹرریشل شادیاں بھی کہا جاتا ہے، ان کی امریکہ میں1967ء سے سپریم کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے کے تحت عملی شکل تو جاری تھی لیکن اس بارے میں قانون سازی اب ہورہی ہے، ایک طرف تو اس طرح کے شادی کے قوانین بنائے جارہے ہیں، دوسری طرف امریکہ میں طلاق کی شرح بھی خوفناک حد تک بلند ہے لیکن یہ شرح مختلف نسلی شناخت رکھنے والوں میں مختلف ہے، سیاہ فام امریکیوں میں یہ طلاق کی شرح31فیصد ہے جب کہ ہسپانویوں میں18فیصد ہے، سفیدفام امریکیوں میں یہ شرح15فیصد ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایشیائی اس معاملے میں سب سے نیچے یعنی صرف12فیصد ہیں۔ ان انٹر ریشل شادیوں میں عمومی طور پر جو مسائل درپیش ہوتے ہیں، ان میں مذہب، خوراک کا فرق ہونا، برتھ کنٹرول، خاندان سے تعلقات جوکہ ہر نسل اور علاقے کے لوگوں میں مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، اسی طرح لائف اسٹائل، روایات وغیرہ بہت اہم ہوتی ہیں جوکہ ہر نسل و علاقے سے تعلق رکھنے والوں میں مختلف تو ہوتی ہی ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی انٹر ریشل شادیوں کا مسئلہ ہے، اس میں دراصل شادی شدہ جوڑوں کا محبت میں ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ برداشت کا جذبہ قائم ہونا ہے جو جوڑے درج بالا مسائل پر آرام سے گفتگو اور بحث کرسکتے ہوں اور ایک دوسرے کے بارے میں مختلف النسل ہونے کے مفروضے باندھ کر غلط ججمنٹ قائم نہ کرتے ہوں تو یہ انٹر ریشل شادیاں سوسائٹی کے ہم آہنگی کا سبب بنیں گی، یہ تمام وہ باتیں ہیں جو امریکی سینیٹ میں اس بل کی منظوری کے دوران زیر بحث آئیں۔ اسی طرح ہم جنسوں کی آپس شادی کے بارے میں سینیٹ میں بحث کے دوران کہا گیا کہ پیار، پیار ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے، اسے جنس اور رنگ و نسل کی قید نہیں، یہی بنیادی نقطہ ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کی بنیاد ہے، امریکی صدر بائیڈن نے بھی اس بل کے منظور ہونے پر جشن جیسی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بل کے پاس ہونے سے لاکھوں امریکیوں کے حقوق کو تحفظ ملے گا جس میںLGBTبھی شامل ہیں۔ اس ہم جنسیت کی شادی کے قانون میں اس شادی پر اسٹیٹ انہیں کسی قسم کا لائسنس تو جاری نہیں کرے گی، البتہ جوڑوں کو شادی شادہ ہی مانا جائے گا، بشرطیکہ اس اسٹیٹ میں اس ہم جنسیت کی شادی کو تسلیم کیا جانا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک اسٹیٹ میں جہاں جوڑے نے شادی کی اور وہاں ہم جنسیت کی شادی کا قانون بھی موجود ہے تو وہاں تو دونوں کو تمام رائٹس ملیں گے لیکن اگر وہی ہم جنس جوڑا اگر کسی ایسی اسٹیٹ میں ہے جہاں ہم جنسیت کا قانون موجود نہیں ہے، وہاں اس ہم جنس جوڑے کو شادی شدہ والے حقوق حاصل نہ ہوسکیں گے، سینیٹ کے اندر اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ شادی کے پرانے ایکٹ کو جس کے تحت ایک مرد اور ایک عورت کے اکٹھے رہنے کی صورت میں شادی شدہ مانا جاتا تھا، وہ پرانا شادی ایکٹ ختم کردیا جائے گا، پرانا میرج ایکٹ صرف ان ہی ریاستوں میں ہی مانا جائے گا جہاں ہم جنس شادی کو ابھی تسلیم نہیں کیا جاتا، یہ دلچسپ صورت ہال ہے کہ ہم جنس جوڑا اگر امریکی ریاستوں میں ایک سے دوسری اور پھر تیسری میں سفر کرتا ہوا جارہا ہو تو کبھی شادی شدہ جوڑا ہوگا تو کبھی نہیں، اب اس پریکٹس کے ساتھ امریکہ میں اسقاط حمل کا قانون بھی خطرے میں پڑ گیا ہے اور نئی وضاحتوں کا متقاضی ہوگیا ہے، اس بل کو قانونی شکل اختیار کرنے کے بعد امریکہ کی35اسٹیٹس میں پرانے قانون کو تبدیل کرکے اس ہم جنسیت کی شادی کے قانون کو روکا گیا ہے، سینیٹ میں اس قانون کو اس نقطہ نظر سے منظور کیا گیا تاکہ سوسائٹی میں کسی بھی قسم کی شادی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے، وہاں کے اکثریتی چرچوں اور مذہبی پیشواؤں نے بھی اس نئے بل کے پاس ہونے پر حمایت کا اعلان ہی نہیں خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔