معیشت سیاست کی نذر

January 29, 2023

حریت پسند رہنماء نیلسن مینڈیلا 28سالہ قیدسے رہائی کے بعد اپنے وطن لوٹا تو اُس نے سب سے پہلے اپنے دشمنوں کو معاف کیا اور عوام سے مخاطب ہو کر وعدہ لیا کہ ’’جو میں مانگوں گا ،وہ آپ مجھے دو گے ‘‘۔ عوام کا خیال تھا کہ نیلسن مینڈیلا اپنے یا اپنے بچوں کیلئے کچھ مانگے گا لیکن اُس نے عوام سے ایک ہی بات کی خواہش ظاہر کی اور کہا ’’عوام عہد کریں کہ آج کے بعدکبھی جھوٹ نہیں بولیں گے ۔‘‘یوں انہوں نے ملک کو سنبھالا پھر اقتدار ایک ذمہ دار شخص کے حوالے کرکے علیحدہ ہوگئے۔بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنی وفات سے قبل اپنا کل اثاثہ ملک و ملت کے نام وقف کر گئے ۔ماؤزے تُنگ نے عوام سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ جوتے نہیں پہنیں گے ‘‘۔اور پھر اس پر خود عمل کیا، ماؤزے تُنگ نے چین کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ،جواہر لال نہرو نے سب شاہانہ ٹھاٹھ بھاٹھ ختم کرکے کھدر کے کپڑوں میں سادہ زندگی بسر کی ۔اور عوام کی خدمت کی ،امام خمینی ؒ نے کبھی اقتدار کی آرزو نہ کی بلکہ ایک حجرے میں بیٹھ کر اپنی اسلامی و انقلابی سوچ کو اپنا کر ایران کے عوام کی عزت وقار کو بحال کیا ۔یہی وجہ ہے کہ ان قائدین کے نام تاریخ میں امر ہو چکے۔ اسی طر ح کئی ممالک کے لیڈروں نے خودسے زیادہ قوم کی ترقی وخوشحالی کو مقدم جانا اور اپنے عوام کی تقدیر بدل ڈالی ۔اس کے برعکس ہمارے لیڈروں نے قوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے محض حصول اقتدارکو مطمح نظر بنایا، اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی سنوارنے پر توجہ دی ۔دیکھا جائے تو ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے ۔اللہ کے کرم سے پاکستان کے پاس 1500کلومیٹر رقبے پر مشتمل سمندر ہے ، صحرا ، پہاڑ اور میدان بھی موجود ہیں ۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں چار موسم بھی ہیں ۔ یہ وہ نعمتیں ہیں کہ جن کے ذریعے ہم پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان سب کے باوجود پاکستان کی معیشت اس وقت شدیدمعاشی و اقتصادی بحران سے دوچار ہے اورملک کسی بھی وقت ’’ڈیفالٹ ‘‘ ہونے کے خطر ے سے دوچار ہے ۔قوموں کے عروج و زوال پر نظر رکھنے والے ایک ادارے ’’ ورلڈ اکنامک فورم (WEF)‘‘نے پاکستان کے بارے میں جاری کردہ ’’گلوبل رسک رپورٹ 2023‘‘میں درج ذیل10خطرات کی نشاندہی کی ہے جو اگلے2سال میں پاکستان کو درپیش ہوسکتے ہیں1۔روزگار اور معاشی بحران2۔قرضوں کا بحران3۔توانائی کا بحران،4۔دہشت گردوں کے حملے5۔بین الملکی تنازع،6۔سوشل میڈیا کا غلط استعمال7۔زمینی حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور ماحولیاتی نظام کا خاتمہ8)صحت و تعلیمی سہولتوں کافقدان 9۔افراطِ زر10۔ریاست کا خاتمہ۔فورم نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان کو نظر انداز کرنا سراسر نادانی ہے مستقبل قریب میں ہم ایسے معاشی و اقتصادی بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی، کساد بازاری اور افراتفری پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ جبکہ ہمارے سیاستدان اپنے اقتدار کی جنگ، ذاتی مفادات کے حصول، اپنی اولادوں کے روشن مستقبل ،ہارس ٹریڈنگ اور یو ٹرن جیسی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ بیشتر سیاستدانوں کے اثاثے بیرون ملک پڑے ہیں، ان کی جائیدادیں اور بچے باہر ہیں ۔ ان کے پاس بیرونی ممالک کی شہریت ہے۔ علاج معالجہ کیلئے بھی یہ باہر چلے جاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے وسائل سے استفادہ کرکے ملک کو خوشحال بنانے کی بجائے غیر اقوام پر نظریں جمائے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف، امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، چین، سعودی عرب، قطر، کویت جیسے ممالک سے ’’خیرات‘‘ یا ’’سودی قرضوں‘‘ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ہماری شاہانہ مزاجی کا یہ عالم ہیں کہ ہم ’’قرض‘‘ یا ’’امداد‘‘ کیلئے بھی چارٹرڈ طیارے میںایک لشکر (وفد) لے کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے امداد دینے والے بھی ہم پر ہنستے ہیں کہ یہ کیسی قوم ہے جس کے لیڈر امداد کیلئے بھی بارات کی صورت تشریف لاتے ہیں، اب تو یہ سبھی ہمیں امداد دینے سے بھی گھبرانے لگے ہیں۔ ہماری عاقبت نااندیشی کیوجہ سے معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے لیکن سیاستدانوں کومستقبل کے ان خطرات کی کوئی فکر نہیں۔خاندانی اور موروثی سیاست نے قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ نے موجودہ خرابیوں کی بنیاد غلام محمد اور ایوب خان کے دور میں رکھی تھی۔ جو اب ہمارے اندر سرایت کر چکی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، ملکی بقا اور سلامتی کا تقاضا ہے کہ مقتدر قوتیں اور سیاسی قائدین ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر معیشت کی بحالی اورقوم کو غیروں کی غلامی سے نجات د لانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں۔ کیونکہ مضبوط اور خوشحال پاکستان ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔ ورنہ

ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

(صاحبِ مضمون وزیر برائےپرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر پنجاب ہیں)