آئی جی سندھ کی محکمہ پولیس کی اصلاح کی کوشش

February 05, 2023

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اپنی تعیناتی کے بعد سندھ میں 18 نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا، جن میں سرِ فہرست جرائم کا خاتمہ اور منشیات کے خلاف جہاد کا اعلان شامل تھا، اس موقع پر انہوں نے اس امرکا بھی اعادہ کیا تھا کہ سندھ میں جاری لوٹ مار قتل و غارت گری اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے گا اور اس میں ملوث عناصر جو کہ چاہے وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں، ان کی کلائی مروڑ دی جائے گی۔

اس کے علاوہ آئی جی سندھ نے منشیات، جس میں ہیروئن ،چرس ،افیون، آئس ،گٹکا ،مین پوری اور زیڈ 21 کی اسمگلنگ شامل تھی، کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے صرف اعلانات کی حد تک ہی نہیں، بلکہ صوبے کے تمام چھوٹے بڑے اضلاع میں خود جا کر پولیس افسران کے ساتھ اجلاس منعقد کر کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ جہاد سمجھ کر اس بُرائی کے خلاف جدوجہد کریں گے اور لڑائی لڑیں گے۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے محکمہ پولیس کے شعبہ تفتیش کو بھی جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کیے، جن میں انہوں نے ایسے پولیس افسران کے لیے جنہوں نے ظلم کے خاتمے کے لیے اور مجرم کو سزا دلانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور اور نہ صرف فرنٹ لائن پر، بلکہ ایسے مضبوط مقدمات بنائے، جن کے نتیجے میں ملزم کیفرِ کردار تک پہنچا، ان کو نہ صرف سرٹیفکیٹ، بلکہ نقد انعامات کا بھی سلسلہ شروع کیا اور ہر ضلع کے ایس ایس پی کو اس کا پابند کیا کہ جو بھی مقدمات بنائے جائیں گے، ان کی براہ راست نگرانی ایس ایس پی کرے گا اور اس کا فالو اپ لے کر آئی جی آفس کو بھیجے گا اور حقیقت یہ ہے کہ یہی وجہ ہے کہ پولیس کی جانب سے اس وقت جو مقدمات بنائے جارہے ہیں، وہ ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں، لیکن اس میں مزید اصلاحات کی بھی ضرورت ہے اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے ایسے وکلاء جو کہ بھاری فیس لیتے ہیں ، وہ پولیس کی جانب سے بہت بہتر انداز میں بنائے گئے مقدمات میں بھی خاص طور پر منشیات کے مقدمات میں ملزمان کو صاف نکال لے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے منشیات کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے اور انہیں چالان کیا گیا، ان کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ بیش تر مقدمات کے ملزمان عدالت سے بری ہو کر پھر وہی اپنے پرانے دھندے میں لگ جاتے ہیں اور پھر مجرم پکڑنے کا سانپ اور سیڑھی کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں منشیات فروشی کے خلاف قوانین کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جب تک ملزمان کو عبرتناک سزا نہیں ملتی، وہ دولت اکھٹا کرنے کی لالچ میں ملک و قوم کے نونہالوں کو منشیات کے جہنم میں دھکیلتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہیروئن، چرس، افیون کے علاوہ سب سے منافع بخش دھندا زیڈ اکیس ،مین پوری ،آئس ،اور گٹکا کا ہے، جس کا ایک ٹرک کروڑوں روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ ہم نے کئی تھانوں کے ایس ایچ او کو صرف اس وجہ سے تبدیل کیا کہ وہ اس زہر کی فروخت کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں معاشرے کے اصلاح پسندوں کو بھی آگے آنا ہوگا، خاص طور پر علمائے کرام کو اس بارے میں جمعہ کے خطبات میں موضوع بنانا ہوگا، تاکہ ہماری نوجوان نسل اسے زہر سے بچ سکے۔ تاہم جہاں تک آئی جی سندھ کی جانب سے صوبے میں منشیات کے خلاف جدوجہد کا تعلق ہے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ جدوجہد صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے، اس لیے کہ صوبے کے ہر ضلع میں چرس کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی اطلاعات مظہر ہیں۔

اس کی تصدیق اس طرح ہوئی ہے کہ گزشتہ دنوں بوچھیری روڈ پر پولیس کی جانب سے لگائے گئے ایک ناکے پر ایک مشکوک کار کوروک کر اس کی تلاشی لی گی، تواس کے خفیہ خانوں سے 76کلو ایسی چرس جو کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کروڑوں روپے مالیت کی بتائی جاتی ہے، برآمد کرکے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔ اس ملزم نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ کار کے ذریعے بلوچستان سے سندھ کے مختلف شہروں میں چرس کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کا کارندہ ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ اس کاروبار میں بہت سی بااثر شخصیات کا ہاتھ ہے، اس لیے وہ آزادانہ طور پر یہ دھندھ کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں بیٹھ کر نیٹ ورک کو چلا رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ آرڈر بک کرتے ہیں اور مال کو منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں، اگر بات صرف چرس کی اس منزل تک ہی پہنچانے تک محدود نہیں، بلکہ صورت حال یہ ہے کہ مادر علمی یونی ورسٹی ،کالجوں میں بھی چرس کا نشہ ایک فیشن بنتا جا رہا ہے، جب کہ اس سلسلے میں ایک سروے کے مطابق صوبے کے کالجوں کے علاوہ یونیورسٹیوں میں بھی آئس کا نشہ بھی ایک روایتی نشہ بنتا جارہا ہے، جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد مبتلا ہورہی ہے اوراس سلسلے میں امیر زادوں اور نودولتیوں کی اولادوں کا بڑا عمل دخل ہے، جنہیں اپنے بڑے رشتے داروں کی وجہ سے کوئی ہاتھ لگانے کی بھی جرات نہیں کر سکتا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا پولیس افسر کیوں نہ ہو۔