• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال 2024 میں بھی جرائم کی دنیا میں مجرموں نے جی بھر کر مزے کیے۔ لوگ روتے رہے، یہ مزے کرتے رہے۔ بد امنی ، مسلح ڈاکوؤں کی آزادانہ سرگرمیوں نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ، اسٹریٹ کرائم ساتھ سا تھ معمولی معمولی باتوں پر قتل و غارت گری، لوٹ مار اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا رہا ۔ شہری اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں ، موبائل ، قیمتی اشیاء و نقدی سے آئے روز محروم ہوتے رہے۔ 

سال بھر اسٹریٹ کرائم کی ہزاروں وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔سال 2024 میں صوبے میں خواتین سے زیادتی کےتقریباََ 326 واقعات ہوئےکئی نوجوانوں نے خود کشی کی، بچوں کے اغوا کے 322 کیس سامنے آئے۔ قتل، ڈکیتی، چوری، اغوا، بھتہ خوری، تاوان، جنسی ہراسگی اور کمسن بچوں سے زیادتی سمیت دیگر جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا، جن کی روک تھام میں پولیس ناکام ر ہی ، حد تو یہ ہے کہ ،ناکہ بندی اور پٹرولنگ پلان سمیت دیگر حکمت عملی بھی جرائم کی روک تھام میں کارگر ثابت نہ ہوسکی۔

جس کا بڑا سبب ناقص تفتیش ہے۔ مجرم یا تو پکڑے نہیں گئے اور اگر پکڑے گئے تو ضمانت پر رہا ہوگئے۔ پراسیکیوشن اور تفتیشی حکام محض 9 فی صد ملزمان کو سزائیں دلوانے میں کامیاب رہے۔ پولیس نے روزانہ کی بنیاد پرا سٹریٹ کرمنلز کو گرفتار بھی کیا لیکن سوال ان کو عدالت سے سزا ملنے کا ہے اگر جیل سے رہا ملزمان کے اعدادو شمار دیکھیں تو اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزم ڈیڑھ سے دو ماہ، کار اور موٹر سائیکل چوری کا ملزم 15 دن سے ڈیڑھ ماہ، اور گھروں میں ڈکیتی کے ملزمان 3 سے 6 ماہ میں عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

سال 2024ء میں سر فہرست’’کچے کے ڈاکو‘‘ رہے پنجاب ، سندھ میں ان کا راج تھا، جو یقیناََ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلینج ہے۔ یہاں ڈاکو ہیں، اسلحہ ہے، جرم کی داستان ہے، پولیس افسران ہیں، سب کچھ ہے لیکن کچھ نہیں ہےتو وہ ہے ایکشن۔ وزرائے اعلٰی کروڑوں کے بجٹ، اسلحہ، گولا بارود، خصوصی الاؤنسز کے نام پر بہت خرچ کیا گیا لیکن نتیجہ صفر۔

2024میں کشمور تا کراچی سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاج بھی ہوا، جن کا مطالبہ تھا کہ سندھ میں ڈاکو گردی ختم کی جائے۔ لوگوں کو یر غمال بنانا، بھتہ خوری کے لیے اغوا کرنا اور قتل وغارت جیسی وارداتیں کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کا سارا سال معمول رہا۔ 

اتنا کچھ ہونے کے باوجود مجرم آزادانہ گھومتے رہے۔ جس انداز سے سندھ و پنجاب میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے، مقامی سے صوبائی اور اب ملکی سطح پر لارہے ہیں، لگ ایس رہا ہے کہ یہ بہت جلد یہ ریاست کے لیے سر درد بن جائیں گے۔

ذیل میں ملاحظہ کریں 2024 میں ہونے والی وارداتیں اور جرائم کی دنیا میں رونما ہونے والےچیدہ چیدہ واقعات:

سال 2024کے پہلے ہی ماہ 2305 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے، جبکہ 4454 موٹرسائیکلزچوری اور 863 چھینی گئیں۔360 گاڑیوں سے شہری محروم ہوئے، اغوا برائے تاوان کی 4اور بھتہ خوری کی 9وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ فروری میں 1989 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،4221 موٹر سائیکلز چوری اور 916 چھینی گئیں۔171 گاڑیوں سے شہریوں کو محروم کیا گیا۔ بھتہ خوری کی 11 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

مارچ میں 1808 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،4546 موٹرسائیکلز چوری اور 968 چھینی گئیں۔163 گاڑیوں سے شہریوں کو محروم کیا گیا، اغوا برائے تاوان کی ایک ، جبکہ بھتہ خوری کی5وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ اپریل میں 1368 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،3572 موٹرسائیکلز چوری اور 612 چھینی گئیں۔ 162 گاڑیوں سے شہریوں کو محروم کیا گیا، اغوا برائے تاوان کی ایک ،جبکہ بھتہ خوری کی15وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

مئی میں 1420 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،3103 موٹرسائیکلز چوری 711 چھینے گئے۔164 گاڑیوں سے شہریوں کو محروم کر دیا گیا، اغوا برائے تاوان کی 3 اور بھتہ خوری کی7وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

جون میں 1433 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،2792 موٹرسائیکلز چوری اور 564 چھینے گئے۔159 گاڑیوں سے شہریوں کو محروم کیا گیا، بھتہ خوری کی6وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ جولائی میں 1490 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،3076 موٹرسائیکلز چوری اور 610 چھینی گئیں۔ 183 گاڑیوں سے شہر محروم ہوگئے، اغوا برائے تاوان کی 3 جبکہ بھتہ خوری کی4 وارداتیں رپورٹ ہوئیں، اگست میں 1737 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،3385 موٹرسائیکلز چوری اور 656 چھینی،173 گاڑیوں سے شہری محروم ہوئے، اغوا برائے تاوان کی 3 ، جبکہ بھتہ خوری کی6 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

ستمبر میں 1651 موبائل فونز چوری اور چھینے گئے ،3361 موٹرسائیکلز چوری اور 621 چھینی گئیں۔190 گاڑیوں سے شہریوں کو محروم کیا گیا، اغوا برائے تاوان کی 2 ،جبکہ بھتہ خوری کی5وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ اکتوبر میں1576موبائل فونز چوری اور چھینے گئے،3233 موٹرسائیکلز چوری اور 674چھینی گئیں۔193 گاڑیا شہریوں سے چھین لی گئیں، اغوا برائے تاوان کی 2 ، جبکہ بھتہ خوری کی12وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ نومبر میں 1836موبائل فونز چوری اور چھینے گئے، 2876 موٹر سائیکلز چوری اور489 چھینے گئے۔ 153 گاڑیوں سے شہری محروم ہوگئے، اغوا برائے تاوان کی 2 ،جبکہ بھتہ خوری کی9وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

دسمبر کا مہینہ بھی شہریوں کے لئے وارداتوں کے لئے کم نا رہا ،ڈاکو، شہریوں کے لوٹتے رہے اور مزاحمت پر قتل اور زخمی بھی کیا گیا،جبکہ ان تمام فیگرز کو گزشتہ سال 2023 سے کمپئیر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وارداتوں کا گراف کچھ یوں رہا، مجموعی طور پر کراچی میں سال2023 میں 89 ہزار 7سو 94 واردواتوں سے کم ہو کرسال2024 میں 67ہزار 9سو 56 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ 

کراچی پولیس کا دعوی ہے کہ سال 2024 میں ورداتوں میں کمی کی وجہ فوری پولیس ایکشن ہے۔ 2024 میں ملزمان کے خلاف 1201 مقدمات درج کئے، 182 ملزمان پولیس مقابلوں میں ہلاک 1303 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ 625 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے2024 میں 11 پولیس اہلکار شہید اور 85 زخمی ہوئے۔

پولیس اور رینجرز کا کچے کے ڈاکوؤں کےخلاف کریک ڈاون 

صوبے سندھ کے مختلف علاقوں میں کچے کے ڈاکووں کے خلاف پولیس اور رینجرز کا کریک ڈاون کم و بیش سال بھرجاری رہا۔ سکھر کے کچے کے علاقے میں پولیس نے 28 کارروائیاں کیں جس میں 251 ملزمان پکڑے گئے ، 29 ہتھیار برآمد ہوئے اور 3 افراد کو ہنی ٹریپ سے محفوظ کیا۔ گھوٹکی میں 55 پولیس اہلکار اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے ہوئے،73 ملزمان پکڑے گئے، 34 ہتھیار برآمد، جب کہ 20 لوگوں کو ہنی ٹریپ کےچنگل سے نکالا گیا، کارروائیوں میں 7 پولیس جوان بھی شہید ہوئے۔ 

شکار پور میں پولیس مقابلوں کی تعداد 195 رہی جس میں 202 ملزمان پکڑے گئے ،187 ہتھیار برآمد ہوئے ،جبکہ 232 لوگوں کو ہنی ٹریپ سے نکالا اور کارروائیوں میں 2 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ کشمور میں پولیس کارروائیوں کی تعداد 167 رہی، جس میں 154 افراد کو گرفتار کیا گیا 127 ہتھیار برآمد ہوئے اور 213 افراد کو ہنی ٹریپ سے بچایا جبکہ 5 پولیس اہلکار آپریشن میں شہید ہوئے۔

سال 2024 میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی بہتر پالیسی اور حکمت عملی کے بعد مجموعی طور پر کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف ا ب تک 445 آپریشن ہوئے ,680 ملزمان گرفتار ہوئے 377 چھوٹے بڑے ہتھیار برآمد کئے گئے 14 پولیس اہلکار شہید اور26 زخمی ہوئے۔

خواتین کے ذریعے ہنی ٹریپ کی وار دتیں

سندھ اور پنجاب میں ’’ہنی ٹریپ ‘‘ کے ذریعے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ملک کے تمام دیگر شہروں تک پھیل گئیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ذرائع کےمطابق ہنی ٹریپ کے نام پرنسوانی جال میں پھنس کر لٹنے والوں میں زیادہ تعداد سرکاری افسران اور تاجروں کی ہے، تاکہ فوری طور پر بلیک میلنگ کر کے لاکھوں روپے مل سکیں۔

ایف آئی اے کرائم ونگ کے مطابق شہریوں سے آن لائن دوستی کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوزاور تصاویر کے ذریعے شہریوں کو ملنے کے بہانے اپنے ٹھکانوں پر بلا کر بھی بلیک میل کیا جاتا رہا۔ سوشل میڈیا اور ریکی کے ذریعے لوگوں کی مکمل معلومات جمع کی جاتیں۔ 

شہریوں کے نام پر نکلوائی جانے والی موبائل سمیں بھی استعمال کی گئیں۔ 2024کےآخری ماہ 8 ملزمان پر مشتعل ایک گروپ گرفتار کیا گیا، جس میں چار مرد اور چار خواتین شامل تھیں ۔ افضال شاہ نیازی نامی گروپ اپنے درجنوں کارندوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں سر گرم پایا تھا۔ 

اس گروپ نے سرکاری افسران اور تاجروں کو خواتین کے ذریعے کروڑوں روپے بٹورے۔ دسمبر میں ہی کراچی پولیس کے خصوصی شعبے اسپیشل انویسٹی کیشن یونٹ نے ڈاکوگڈیل شاہ کی بیوی کو گرفتارکیا، جس نےایک درجن سے زائدشہریوں کو دوستی کاجھانسہ دے کر کچے کے علاقوں میں بھجوایا تھا۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور خراب معاشی حا لات کی وجہ سے ان گروپوں کو ایسی خواتین میسر آرہی ہیں جو شروع میں خود ان کا شکار بنتی ہیں، پھر اپنی وڈیوز اور تصاویر سے بلیک میل ہوکر ان ملزمان کے لیے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسے کئی ملزمان گرفتا کیے گئے اور ان کے چنگل سے خواتین کو بازیاب بھی کرلیا گیا۔

سی ٹی ڈی ادارے کی شکایات سامنے آئیں

سی ٹی ڈی (کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ )جیسا ادارہ جو دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، مسلسل ایسی خبروں کی زد میں رہا۔ اس کے اہلکار کراچی جیسے شہر میں شہریوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کرنے میں ملوث تھے۔ اسی ٹی ڈی کا سینٹڑ ز اور گاڑیاں بھی استعمال ہوتی رہیں، درجنوں کیس سامنے آئے۔ 

اس ادارے کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا وہ خود شہریوں کے لیے دہشت کی علا مت بن گیا۔ اس وقت جب کیمروں سے لے کر گاڑیوں کے ٹریکر تک ہر چیز دستیاب ہے، اگر سی ٹی ڈی کے سینٹر اور گاڑیاں وارداتوں کے لیے استعمال ہورہی ہیں تو بلا شبہ سندھ پولیس کی قیادت پر سوالیہ نشان ہے۔

پولیس کے بھیس میں ڈکیتیاں کرنے ولا ملزم گرفتار 

مئی2024 میں کلفٹن انویسٹی گیشن پولیس نے ملزم شہر یار کو گرفتار کیا جو پولیس کی پینٹ پہن کر چہرے پر ماسک لگا کر فوڈ چینز اور میڈیکل اسٹورز پر وارداتیں کرتا تھا، ملزم کا بیٹا امریکا میں جبکہ بیٹی میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

ملزم نے پولیس کو بتایا کہ اس نے پولیس اہلکار کی پینٹ موٹر سائیکل سے چوری کی تھی اور کوئٹہ سے اسلحہ خریدا تھا۔ اُس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ 2008 میں فیروز آباد کے علاقے میں پولیس اہلکار کو قتل کرنے پر گرفتار ہو کر سزا کاٹ چکا ہے۔ پولیس نے ملزم کو ہوٹل آئی سافٹ ویئر کی مدد سے لاہور سے گرفتار کیا جس کا ریکارڈ لاہور سے آیا تھا۔

کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جھونپڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی

کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جھونپڑیوں کی رجسٹریشن شروع کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد جھونپڑیوں کو مجرموں کی پناہ گاہ بننے سے روکنا ہے، پولیس کو شکایات موصول ہوئی تھیں کہ ملزمان وارداتیں کرنے کے بعد جھونپڑیوں میں پناہ لیتے ہیں۔ ایسٹ پولیس کی نفری جمالی پل اور اطراف میں پہنچی، جس میں انٹیلجنس افسران اور ٹیکنیکل عملہ بھی شامل تھا۔

پراجیکٹ کے انچارج ڈی ایس پی احمد اقبال کے مطابق ہرجھونپڑی کو نمبرالاٹ کرکے جیوٹیگنگ کی جائے گی، پراجیکٹ کا جمالی پل سے آغازکا مقصد یہ ہے کہ یہ پل ہاٹ اسپاٹ ایریا ہے، جہاں جرائم کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ 

واردات کے بعد اکثر ملزمان جھونپڑیوں میں پناہ لیتے، کئی جرائم پیشہ عناصر کا تعلق بھی جھونپڑ پٹی سے تھا۔ رجسٹریشن پراسیس کے دوران جھونپٹری میں موجود تمام افراد چاہے بچہ ہو یا بڑا گھر کا فرد ہو رشتہ دار یا مہمان، سب سے پرفارمہ پر کروایا جائے گا۔ 

ڈیوائس کے ذریعے ان کے فنگرپرنٹ لیے جائیں گے۔ دستاویزات مکمل ہونے کے بعد ہر جھونپڑی کو ایک نمبر الاٹ کرکے جیوٹیگ کردیا جائے گا، تلاش ڈیوائس کے ذریعے ایک ایک شخص کو چیک کیا جائے گا۔ ڈی ایس پی کے مطابق کرمنلز کے خلاف جدید ٹیکنالوجی سے گھیرا تنگ کیا جائے گا واردات کے بعد یہ پتہ چل سکے گا کہ ملزمان کب کہاں سے آئے، کہاں گئے، کس نے پناہ دی، پھر اس ڈیٹا کو جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے لیے استعمال کیا جائے گا، جس سے یقینی طور پر جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوسکے گی۔

ایک ہی گھر کی چار خواتین کا قتل

کراچی میں 19 اکتوبر کو لی مارکیٹ کے علاقے بانٹوا گلی، جو لیاری کی مشہور کھجور مارکیٹ بھی کہلاتی ہے،اس کی ایک تنگ گلی میں قائم سیکڑوں فلیٹوں اور بھیڑ کے درمیان واقع بلڈنگ کے ایک فلیٹ سے چار خواتین کی لاشیں ملیں۔

پولیس کے مطابق ان تمام خواتین کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا۔ ایک کمرے میں خاتون کی لاش کے قریب بیڈ کے نیچے اس کی تین ماہ کی بیٹی زندہ تھی۔ مرنے والوں میں 13سالہ علینا، 18 سالہ مدیحہ،19 سال کی عائشہ اور 51 سال کی شہناز شامل ہیں۔

پولیس کی تفتیش کرنے پر پتا چلا کہ خواتین کا قاتل ان کے گھر کا ہی ایک فرد نکلا، جسے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا کچھ پتا نہیں، شایدیہ فائل بھی بند ہوگئی۔ قتل کی لرزہ خیز واردات پنجاب کے گاؤں ’’ڈسکہ‘‘ میں ہوئی، سگی خالی نے اپنی بھانجی جو اُس کی بہو بھی تھی کو قتل کردیا ملزمہ نے حسد اور نفرت کی وجہ سے ایسا کیا۔ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں درج مقدمے میں لاش کو مسخ اور چھپانے کی دفعات میں شامل تھے۔

2024 میں جرائم کم ہوئے ہیں، ایڈیشنل آئی جی کا دعویٰ 

ضلع کورنگی کی پولیس نے سہراب گوٹھ کے علاقے میں ڈکیتی کی واردات کی۔ تاجر کی گاڑی سے 1 کروڑ 18 لاکھ روپے لوٹ کر ملزمان تاجر کو نارتھ ناظم آباد میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ،تو ایس ایچ او تھانہ زمان ٹاؤن راؤ رفیق اور پولیس پارٹی واقعہ میں ملوث تھی۔ مقدمہ سچل پولیس اسٹیشن میں تاجر محمد خان کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

کراچی کےشہری پہلے ہی ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرائم کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر لٹ رہے ہیں ،رہی سہی کسر پولیس اہلکاروں کی مجرمانہ سرگرمیوں نے پوری کر دیں۔ سال کے آغازسے ہی پولیس کے متعدد افسران و اہلکار جرائم کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے۔ کئی اہلکاروں کو معطل ،جبکہ متعد کو نوکریوں سے برطرف بھی کر دیا گیا۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے دعویٰ کیا ہے کہ شہر میں 2024 میں جرائم کم ہوئے ہیں۔ ہم نے ڈسٹرکٹ سینٹرل سےسی سی ٹی وی کیمروں کی شروعات کی ، 35 ہزار کیمرے پورے کراچی میں لگائے۔

اسٹریٹ کرائم کے نام پر نوجوانوں کا قتل

27 سالہ اتقا معین گولڈ میڈلسٹ انجینئر تھا۔یہ31 مئی2024ءکا واقعہ ہے۔وہ گھر کے قریب بیکری سے کولڈ ڈرنک اور دیگر سامان لے کر آ رہا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دوڈاکووں نے اس کا تعاقب کیا اوراس کے گھر کے بالکل قریب اُسے روکا۔ موبائل فون، موٹر سائیکل اور نقد رقم لے کر اُسے جان سے مار دیا۔

نیو کراچی میں گھر کے باہر بیٹھے ہوئے 22 سالہ یاسین کو موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے موبائل فون چھیننے کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کر کے زخمی کر دیا ، ایک گولی کاندھے اور دوسری ٹانگ پر لگی۔ تشویشناک حالت میں اسے اسپتال لے جایاجا رہا تھا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

26 مارچ کو کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر زوہیب نامی نوجوان کو قتل کردیا گیا تھا ۔ کورنگی میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر22سالہ طالب علم لاریب کو جان سے مار دیا۔جو’بیچلرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن (بی بی اے)کر رہا تھا، ساتھ ہی بیسک اکاؤنٹنگ کی کتاب بھی لکھ رہا تھا، 6 مارچ کو اس کی کتاب کی رونمائی تھی۔ لاریب گھر سے جم جانے کے لیے نکلا تھا ۔مقتول کے والد کے مطابق موبائل فون میں لاریب کی کتاب کا ڈیٹا موجود تھا جس کی وجہ سے اس نے مزاحمت کی تھی۔

فراڈ کمپنیوں نے ہزاروں افراد کو چونا لگادیا

کراچی میں دو فراڈ کمپنیوں نے منافع اور مختلف مصنوعات سپلائی کرنے کے نام پر ہزاروں شہریوں بالخصوص خواتین اور بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ فراڈ کیا۔ زوہیب رضا اور اسد نامی افراد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یونائٹیڈ بزنس سسٹم (UBS24K)سے کمپنی بنائی۔ 

مختلف مقامات پر پوسٹر اور بینرز لگا کر بے روزگار نوجوانوں سے 10 ہزار سے 35 ہزار روپے تک کی سرمایہ کاری کرکے بہترین روزگار حاصل کرنے اور پر کشش منافع کا لالچ دیا اور اس مقصد کے لیے ایک دفتر بھی قائم کیا۔ 

فراڈیوں نے پہلے اپنے واٹس ایپ گروپ بنائے، جس میں صرف بے روزگار نوجوانوں کو درخواست کے ساتھ مخصوص نمبرز پر اپلائی کرنے کے لیے کہا گیا، بعد ازاں انہیں مختلف جھانسے دیئے گئے کہ وہ ان کی مصنوعات میں سرمایہ کاری کریں، انہیں فروخت کر کےمنافع کمائیں اور اپنے دوستوں، عزیزوں، دیگر جاننے والوں کو بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کریں ۔ ممبر بنانے کا بھی انہیں کمیشن ملے گا۔ اس کمپنی نے سب سے زیاد کراچی کے بے روزگار نوجوانوں اور خواتین کو ٹارگٹ بنایا۔ 

انہیں جھانسا دیا کہ انہیں بیرونِ ملک بھی وزٹ کرائے جائیں گے۔ فراڈیوں نے غیر قانونی طور پر ان کے پاسپورٹ بھی اپنے پاس رکھ لیے۔ ان جعلساز کمپنیوں نے ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کردیا۔بہت سے نوجوانوں اور خواتین نے تو قرض لےکر سرمایہ کاری کی تھی۔

انٹری ٹیسٹ کے نام پربھی 2000 روپےلے کر کافی رقم بٹور ی، پھر 10ہزار کمپنی کے کارڈ کے لیے۔ اس کے بعد نہ مصنوعات ملیں نہ رقم ۔ ہزاروں نو جوان اور خواتین ان کمپنیوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ زیاد اصرار کرنے پر کارڈاور ممبر شب کینسل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

چینی باشندوں کی گاڑی اور اسکارڈ کو نشانہ بنایا گیا 

اکتوبر2024 کو کراچی میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ ائیرپورٹ سگنل کے قریب ہوا جس میں ائیر پورٹ سے نکلنے والی چینی باشندوں کی گاڑی اور اسکارڈ کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج ہوا، جس میں اقدام قتل، دہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں۔ حملے میں 2 چینی باشندوں سمیت 3 افراد ہلاک اور 15 گاڑیاں متاثر ہوئیں، متاثرہ گاڑیوں میں دہشتگرد کی گاڑی بھی شامل تھی۔ 

نامعلوم دہشت گرد نے بارود نصب شدہ ٹویوٹا ہائی لکس گاڑی کے ذریعے چینی باشندوں کے کانوائے سے ٹکرائی۔ کالعدم تنظیم کے ترجمان جنید بلوچ نے حملے کی ذمے داری قبول کی حملے کے ماسٹر مائنڈزمیں کمانڈر بشیر احمد بلوچ اور عبدالرحمان عرف رحمان گل شامل ہیں۔ 

حملے میں ملوث ملزمان سے تفتیش کےلیے جے آئی ٹی بنائی گئی ، جس کا چیرمین آصف اعجاز شیخ کو بنایا گیا۔ تینوں حساس اداروں ، رینجرز، اسپیشل برانچ ، کراچی پولیس اور ایف آئی اے افسران جے آئی ٹی میں شامل ہیں، جبکہ تحقیقاتی اداروں کی جانب سے مختلف پہلووں سے حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

ٹریفک حادثات

گزرے سال کارساز سانحہ کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا کار ڈرائیو کرتی بااثر خاتون جو نشے میں دھت تیز رفتار گاڑی چلا رہی تھی کہ کار سازپر، مو ٹرسائیکل سوار باپ بیٹی اس کی گاڑی کی زد میں آگئے، اُنہیں کچل دیا ،جس سے دونوں موقعے پر ہی دم توڑگئے۔ 

واقعے کے دو مختلف مقدمات درج ہوئے لیکن دونوں مقدمات میں خاتون کو ضمانت مل گئی۔ ٹریفک حادثات میں ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں 11 افراد جان سے گئے اور 3 زخمی ہوئے جبکہ سینٹرل کے علاقے میں 30 جان سے گئے، 10زخمی ہوئے۔ 

ایسٹ میں 15 مرے ، 6 زخمی ہوئے۔ ضلع ویسٹ میں 75 افراد جان سے گئے، 30 زخمی ہوئے۔ کورنگی میں 14 افراد جان کی بازی ہار گئے 1 زخمی ہوا۔ اسی طرح ملیر ضلع میں 7 افراد جان سے گئے اور 1 زخمی ہوا۔ یہ حاد ثات جرم ہی ہیں لیکن کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔

جبکہ شہر میں چلنے والے ٹرک ڈمپر اور منی کوچز سمیت بڑی گاڑیاں بھی چلتی پھرتی موت کا سبب بنیں۔ متعلقہ حکام کے مطابق، ہیوی وہیکل کے لئے رات 10 بجے سے صبح 7 بجے کا وقت مقرر ہے لیکن اس کے باوجود حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔ 

سال 2024 میں بسوں سے 9 افراد ، کوچز سے 5 ، ٹریلر نے 22 افراد، ٹرک سے 25 ، ڈمپر سے 5 واٹر ٹینکر سے 19 آئل ٹینکر سے 2 مختلف چھوٹی بڑی کاروں اور گاڑیوں سے 50 سے زائد افراد جان سے گئے۔ یہ حاد ثات جرم ہی ہیں لیکن کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید