سندھ پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقہ پر واقع ضلع گھوٹکی قدرتی گیس سے مالا مال ہے اور کراچی کے بعد یہ سب سے زیادہ ریونیو دینے والا ضلع بھی ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں سے گذرنے والا دریائے سندھ خوشحالی خوبصورتی کی بجائے ایک درد ناک بلکہ ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ دریائے سندھ جسے کچے کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کا واحد نوگو ایریا ہے ،جہاں نہ حکومت کی رٹ ہے اور ناہی پولیس کی، ہاں اگر ہے تو علاقے کے بااثر وڈیروں کی جو اب سیاسی طور پر بھی مضبوط اور انتظامیہ پر اثر انداز ہوچکے ہیں یہاں پر صرف اور صرف ڈاکو راج قائم ہے جوکہ آج سے نہیں کئی سالوں سے ہے پولیس ڈاکوؤں کے خاتمے کے لئے اربوں روپے خرچ کرکے بھی ان پندرہ سے اٹھارہ گروہوں کے ڈیڑھ سو سے دو سو ملزمان کو نہ تو گرفتار کرسکی ہے اور ناہی کیفر کردار تک پہنچا سکی ہی، بلکہ الٹا ڈی ایس پیز ایس ایچ اوز سمیت درجنوں پولیس اہلکاروں کو کھو چکی ہے۔
اس وقت رونتی اوباڑو، گیمبڑو، گھوٹکی، کشمور، کندھکوٹ شکارپور کا کچے کا علاقہ ڈاکوؤں کے محفوظ ٹھکانے سمجھے جاتے ہیں اور ڈاکو فلمی سین کی طرح نہ صرف سرے عام دندناتے گھومتے پھر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اسلحہ سمیت آکر پولیس بلکہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔
پہلے اغوا برائے تاوان اسکے بعد سوشل میڈیا پر پرکشش آفر ،ملازمت کا جھانسہ، شادی کا فریب، سستی گاڑی کی پرکشش آفر، کم قیمت ٹریکٹر ، سیلاب متاثرین کی آمد ،شادی میں ڈھولچیوں کو دعوت، رانگ نمبر سے دوستی، لڑکی کی آواز میں رومئنس کے زریعے اغوا برائے تاوان وغیرہ کی وارداتیں ایسے ہو رہی ہیں جیسے یہ جرم کے زمرے میں آتے ہی نہیں اور اس وقت تو جبری اغوا برائے تاوان کے اضافے نے ان سرحدی اضلاع میں امن و سکون ،کاروبار، سیر و تفریح سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا ہے، رہی سہی کثر ڈاکوؤں نے سکھر ملتان موٹر وے اور پاکستان کی سب سے بڑی قومی شاہراہ پر اغوا برائے تاوان ، ڈکیٹی، لوٹ مار اور مسافروں کے قتل نےصورت حال مزید خراب کردی ہے۔
ڈاکوؤں کا ظلم و ستم اور دھشت گردی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ چند روز قبل ڈاکوؤں نے سکھر ملتان موٹر وے پر اغوا برائے تاوان کے لئے ایک گاڑی روکنے کی کوشش کی، نہ رکنے پر فائرنگ کردی، جس سے بگٹی قبیلے کا سرار بے موت مارا گیا۔ خواتین بچوں سمیت ایک اور کار کو نشانہ بنایا گیا ۔خاندان کار چھوڑ کر رات کی تاریکی میں موٹروے پر بے یارومددرگار پکارتے رہے، ننگے پاؤں بھاگتے رہے، ڈاکو گولیاں برساتے ر ہے۔
ان کی تڑتڑاہٹ آج بھی بچوں اور خواتین کے دماغوں سے نہیں نکل رہی ہوگی، مگر انہیں نئی زندگی ملی۔ موٹروے تو کچے کے قریب سے گذرتاہے مگر اب تو شہروں کے وسط سے گذرنے والی قومی شاہراہ بھی محفوظ نہیں رہی۔ ڈاکو رات ہوتے ہی دریائے سندھ کے حفاظتی بند پر قائم پولیس چوکیوں کے قریب سے درجنوں ٹولیوں کی صورت میں آتے ہیں اور قومی شاہراہ پر ناکہ لگا کر، آنے والی مال بردار گاڑیوں کو لوٹنے کے بعد ڈرائیوروں ،کلئنروں کو اغوا کرکے لیجاتے ہیں۔ اب تک مختصر دورانیے کے دوران قومی شاہراہ پر بریک نہ لگانے پر دو ٹرک ڈرائیوروں کو قتل اور دو کو اغوا کیا جا چکا ہے،گرچہ انہیں تاوان دیکر بازیاب تو کرالیا گیا ہے مگر وارداتیں تا دم تحریر جاری ہیں۔
اس کے علاوہ ’’ہنی ٹریپ‘‘ یعنی پرکشش آفر کے ذریعے اغوا کیے گئے شہریوں کے بارے میں پولیس کو آگاہ کرتی ہے اور ناہی ڈیٹامرتب کیا جاتاہے، جب ڈاکو اہل خانہ کو تشدد یا زنجیروں میں جکڑے ان کی ویڈیو بھیجتے ہیں تو پتہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ اکثر پولیس ایک دوسرے کے ضلع سے اغوا ہونے اور حدود بندی کا تنازعہ میں رہتی ہے جبکہ اگر کوئی تاوان یا بغیر تاوان کےمغوی بازیاب ہوجائے تو مقابلے میں بازیابی کا دعوی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر پولیس اغوا کی رپورٹ نہیں لیکن بازیابی کی رپورٹ ضرور کرتے ہیں ۔زرائع کے مطابق اکثر سنگین مقدمات میں مطلوب ملزمان کی زمینیں بھی ہیں، جہاں سے گندم کی بھاری فصل اٹھائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ کچے اور محکمہ جنگلات کی زمینوں پر بااثر افراد کا قبضہ ہے ،جو انتظامیہ کئی سالوں سے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود واگزار نہیں کر اسکی ہے اور ناہی پولیس ان خطرناک ڈاکوؤں کا خاتمہ کرسکی ہے، جو اس وقت دہشت گردوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ پہلے مغوی کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اس لئے کہ بھاری رقم ملے گی مگر اب تو مغوی کو ازیت ناک درد ناک تشد سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس وقت مغویوں کا تاوان نہ ملنے پر چار چار ماہ تک قید یا پھر گولیاں مار کر ان کی زندگی ختم کرکے لاشیں دریا میں پھینک دی جاتی ہیں، اب تک ایسے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔
سینکڑوں افراد اغوا کے بعد تاوان کے زریعے بازیاب ہوئے جس سے ضلع گھوٹکی میں خوف کی فضاء قائم ہے۔ رات کو اس علاقہ میں سفر کرنا ہائی رسک قرار دیا جاچکا ہے۔ سکھر ملتان موٹر وے سے سیفٹی تاریں کاٹ کر چوری کرلی گئی ہیں بیٹریاں کیمرے بھی غائب ہیں، یہاں تک کہ گرین پلاسٹک کی نائیٹ لائیٹ سیفٹی بھی اکھاڑ کرلے گئے ہیں۔ امن و امان کی مجموعی صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ علاقے میں کاروباری سرگرمیاں تک محدود ہوگئی ہیں۔
ایس ایس پی سمیرنور ڈی آئی جی سکھر عبدالحمید کھوسہ اور آئی جی غلام نبی میمن ڈاکوؤں کے خلاف متحرک اور ایگریسئو لگ رہے ہیں۔ پولیس کو جدید اسلحہ اور کمانڈوز کے ساتھ کچے میں ٹارگیٹڈ آپرپشن کی تیاری کررہے ہیں، جس سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ڈاکوؤں کا قلع قمع ہوجائے گا۔ تا دم تحریر، سندھ میں کچے کے علاقے سے ڈاکو راج ختم کرنے کے لیے گرینڈ آپریشن کی حکمت عملی کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ ڈاکوؤں کے مختلف گروپوں کا خاتمہ کرنے کے لیے صوبائی وزیر داخلہ اور آئی جی سندھ نے شمالی سندھ میں کیمپ قائم کرلیا ہے۔
دیکھتے ہیں انہیں کس حد تک کام یابی ملتی ہے، کیوں کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس نہ صرف جدید اسلحہ ہے بلکہ انہیں بعض قبائلی سرداروں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ پولیس فورس کے اندر ان کے مخبر بھی ہیں، جو کسی بھی کارروائی کی پیشگی اطلاع اور پولیس پلان کی تفصیلات ڈکیت گروپوں کو مہیا کردیتے ہیں۔ ضلع گھوٹکی کے علاوہ ضلع کشمور اور ضلع شکارپور کے کچے کے علاقوں کے بعد ڈاکو راج کا دائرہ ضلع جیکب آباد، خیرپور، سکھر اور قمبر، شہداد کوٹ تک وسیع ہوگیا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔