• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گذشتہ ہفتے سندھ کے کچے میں راج کرنے والے ڈاکوؤں نے علم کی ایک اور شمع بجھا دی ۔یہ واقعہ سندھ کے علاقے کندھ کوٹ میں پیش آیا۔ اُستاد اللہ رکھیو نندوانی بندوق کاندھے پر لٹکائے اسکوٹر پراسکول جاتے تھے۔ انہیں ڈاکوؤں کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں لیکن انہوں نے پروا نہیں کی۔ واردات سے دو روز قبل اللہ رکھیو کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ بد امنی کے باعث میں اسکول نہیں جاؤں گا تو بچو ں کی تعلیم کا کیا ہوگا؟ جب کہ یہاں پہلے ہی جہالت ہے۔ لیکن جاہل ڈاکوؤں نے علم کی شمع بجھادی ۔ یہ ضلع میں چوتھے اُستاد کا قتل ہے۔

دریائے سندھ کے تکون نما کچے کے جزیرہ سے ڈاکو راج کی سرکوبی اور قانون کی رٹ منوانا ایک ڈراوٴنا خواب بن گیا ہے، حکومت آخر کب تک مصلحت پسندی کی چادر تان کر خواب غفلت کا شکار رہے گی؟ ا درندہ صفت ڈاکو کب تک بے گناہ معصوم لوگوں کا خون ناحق بہاتے رہیں گے؟ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ معاشرے کے لئے کچے کے ڈاکو سرطان زدہ ناسور بن گئے ہیں، لوگوں کو اغوا کرنا، قتل و غارت گری، لوٹ مار کی وارداتیں معمول بن گئی ہیں۔ 

پولیس اور متعلقہ محکموں کے افسران کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لئے گرینڈ سرجیکل آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے، جس میں جتنی دیر کی جائے گی اتنا ہی معاشرے کے لئےنقصان دہ ہوگا۔ گزشتہ برس اپریل2023کے ماہ اپریل میں کچے کے علاقے میں سفاک ڈاکووٴں نے پروفیسر اجمل ساوند کو خاک و خون میں نہلایا، پروفیسر نے فرانس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی، قتل کو قبائلی تنازع کا رنگ دیا گیا، کئی ماہ تک فضاء مغموم، افسردہ اور سوگوار رہی اور اب بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے فرض ادا کرنیوالے بہادر استاد اللہ رکھیو نندوانی کو موت کی ابدی نیند سلادیا گیا اور علم کی روشنی پھیلانے والی شمع بجھا دی گئی۔ گویا ڈاکو ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ دیکھو ہمارے راستے میں مت آنا ورنہ موت تمہارا مقدر بنے گی۔ ہم سے ٹکرانے اور الجھنے کا ایک ہی انجام ہے اور وہ یہ کہ تمہاری سانسیں روک دی جائیں گی۔

پولیس کے مطابق کندھکوٹ کے گوٹھ نصر اللہ بجارانی میں اسکول ٹیچر کے فرائض ادا کرنیوالا ،استاد اللہ رکھیو نندوانی چھٹی کے بعد موٹر سائیکل پر سوار ہوکر واپس گھر جارہا تھا کہ کرم پور مگسی لنک روڈ پر ملزمان نے روک کر لوٹ مارکی کوشش کی، مزاحمت پر فائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر مقتول استاد کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ہمراہ لائسنس یافتہ بندوق رکھتا تھا، کیونکہ محکمہ تعلیم اور محکمہ پولیس کے افسران نے کہا تھا کہ یہ اسکول نو گو ایریا میں قائم ہے، یہاں کے حالات بہتر نہیں، اس لئے آپ اسکول مت جایا کریں، جس پر مقتول ٹیچر کا کہنا تھا کہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، اپنی جان خطرے میں ڈالنی پڑے، تب بھی روزانہ اسکول جاؤں گا، یہی وجہ ہے کہ مقتول استاد اپنی حفاظت کے لئے لائسنس یافتہ بندوق ساتھ رکھتا تھا۔

پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتول ٹیچر کے ورثاء کا کہنا ہے کہ چند دن قبل نامزد ملزمان نے گاؤں پر حملہ کرکے سیاہ کاری کے الزام میں ہمارے رشتہ دار کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، اللہ رکھیو نندوانی نے درمیان میں آکر فائرنگ کی اور اسے قتل ہونے سے بچایا ،جس پر ملزمان نے طیش میں آکر اسے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اللہ رکھیو نندوانی کے قتل کا مقدمہ مقتول کے بھائی مولا بخش کی مدعیت میں کرم پور تھانہ میں درج کرلیا گیا ہے۔ مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں جبکہ 5نامزد سمیت 7ملزمان کو شامل کیا گیا ہے، ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس کی چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں۔ پولیس کے مطابق مقتول ٹیچر کے قتل میں ڈاکو صدام نندوانی کا گروہ ملوث ہے۔ دونوں کے درمیان دشمنی تھی، جس کی بناء پر ٹیچر کو قتل کیا گیا۔وزیر داخلہ سندھ ضیاء لنجار نے پرائمری ٹیچر کے قتل کا نوٹس لیکر ڈی آئی جی لاڑکانہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے، جبکہ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لئے کچے کے علاقوں میں بکتر بند گاڑیوں اور جدید مشینری کے ساتھ آپریشن میں مصروف ہے۔

سکھر، شکارپور، گھوٹکی اور کشمور سمیت سندھ کے 7سے 8اضلاع ایسے ہیں جن کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں اور یہ دریائی سنگم انہیں آپس میں جوڑے ہوئے ہیں، کچے کے یہ علاقے ایک جانب پنجاب سے تو دوسری جانب بلوچستان سے ملتے ہیں۔ یہ علاقے کم و بیش 4دہائی سے زائد طویل عرصہ سے ڈاکووٴں کی محفوظ پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں، تکون نما کچے کا یہ جزیرہ ڈاکوؤں کے لئے کسی فردوس ابلیس سے کم نہیں، جہاں سیکڑوں ڈاکو موجود ہیں، جب ان کا دل چاہتا ہے قومی شاہراہ، انڈس ہائی وے، لنک روڈ پر دھاوا بول دیتے ہیں، ان کے نزدیک لوگوں کو اغوا کرنا، مزاحمت پر اندھا دھند فائرنگ کرکے جان لینا معمولی بات ہے۔ 

پولیس اگر کسی ایک ضلع یا علاقے میں موجود ڈاکوؤں کیخلاف کارروائی کرتی ہے تو ڈاکو دوسرے علاقے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ حاصل ہونیوالے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے دوران کچے کے ان علاقوں میں 400سے زائد افراد کو اغوا کیا گیا، تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو، بھنگوار گروہوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں نے کچے کے ان علاقوں میں پکے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پولیس نے درجنوں بار چھوٹے بڑے آپریشن کئے، مختلف آپریشن کے دوران 23ڈاکو مارے گئے، 150 سے زائد گرفتار ہوئے ، پولیس کو بھی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 

پولیس افسران کے مطابق سکھر و لاڑکانہ ڈویژن میں اب بھی 50سے زائد افراد ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 200سے زائد افراد کو اغوا کرکے رہائی کے لئے کروڑوں روپے تاوان طلب کیا گیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق سکھر و لاڑکانہ رینج میں 81افراد اغوا ہوئے، ضلع گھوٹکی میں 26، شکارپور میں 18، کشمور میں 37 افراد کو اغوا کیا گیا، جن میں بیشتر افراد کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی نصیب ہوئی جبکہ متعدد مغوی اب بھی ڈاکوؤں کے پاس یرغمال بنے ہوئے ہیں، ہر ماہ کم و بیش 2درجن مغویوں کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔

حکومت نے ڈاکو راج کے خاتمہ کے لئے متعدد منصوبے تو بنائے، مگر کوئی ایک بھی مکمل نہیں ہوسکا ۔ حکمت عملی، گرینڈ آپریشن، انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں سب کی سب ادھوری رہیں۔ اسلحے اور جدید ٹیکنالوجی کی خریداری کے لیے خطیر رقم کی منظوری، پولیس کی نفری میں اضافہ، سندھ، پنجاب ، بلوچستان پولیس کے ساتھ مشترکہ آپریشن، خطرے کی علامت سمجھے جانے والے کچے بالخصوص دریائی جزیروں جنگلات پر مشتمل علاقوں میں پلوں، اسکولوں، پختہ سڑکوں اور بنیادی ضروریات کی فراہمی سمیت کئی اعلانات کئے گئے مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث صورتحال جوں کی توں ہے، جو حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

باشعور حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ کچے میں سکونت پذیر ڈاکووٴں کو بڑے سرداروں اور وڈیروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کے خلاف گرینڈ آپریشن نہیں کیا گیا، جب بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو چند دن تک بڑے زور شور سے کچے کے ڈاکووٴں کے خلاف حتمی آپریشن کی باتیں سننے کو ملتی ہیں، پولیس بھی متحرک ہوتی ہے، آئی جی سمیت دیگر اعلی افسران کچے کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں، پولیس افسران سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور حکمت عملی مرتب ہوتی ہے لیکن پھر اچانک تاہم پھر اچانک گرینڈ آپریشن سکڑ کر چند ایک علاقوں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ 

علاقائی سطح پر وقتاً فوقتاً کئے گئے چھوٹے آپریشن کے دوران پولیس کا ہی جانی نقصان کاہوا، ڈاکوؤں کے متعدد حملوں میں ایک درجن کے قریب پولیس افسران و جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ گزشتہ برس پروفیسر اجمل ساوند کے قتل کے بعد ڈاکوؤں کی بیخ کنی کے لئے چاروں اضلاع کے کچے کے علاقوں میں 250 سے زائد پختہ اور مستقل پولیس چوکیاں قائم کی گئیں، جس سے ڈاکوؤں کی نقل و حرکت میں کافی فرق پڑا، پولیس کو ڈاکوؤں کو کچے سے نکل کر پکے کے علاقوں میں آنے سے روکنے میں مدد ملی، اس دوران سندھ حکومت نے پولیس کو جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی خریداری کے لیے ڈھائی ارب سے زائد رقم کی منظوری دی، لیکن تاحال جدید گاڑیاں خاص طور پر جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی پولیس کو فراہم نہیں کی جاسکی۔

جب کہ ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز راکٹ لانچر سمیت جدید ہتھیار موجود ہیں، بعض پولیس افسران کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس ہتھیاروں کی جدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں، ان کی رینج 3 کلو میٹر اور پولیس کے ہتھیاروں کی رینج صرف 500 میٹر ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خطیر رقم کی منظوری کے بعد پولیس کو جلد از جلد جدید ترین ہتھیار مہیا کئے جاتے مگر افسوس حسب روایت ایسا نہیں ہوسکا اور وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نگراں کابینہ کی جانب سے بھی دریائے سندھ کے تکون نما کچے کے جزیرے میں رینجرز و پولیس کی مدد سے ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن کی حکمت عملی تشکیل دی گئی، سکھر و لاڑکانہ ڈویژن کے چاروں اضلاع پر مشتمل کچے کے جنگلات اور دریائی جزیرے میں انٹیلی جنس بنیادوں پر ٹارگٹڈ آپریشن، پولیس، رینجرز، انٹیلی جنس ایجنسیز کے اشتراک سے کارروائیاں کرنے اور ضلعی سطح پر ٹاسک فورس کی تشکیل دینے کے فیصلے کئے گئے۔ 

اس سلسلے میں 3ہزار سے زائد رینجرز کے جوان 200موبائلز کے ساتھ کچے و پکے کے علاقوں میں پہنچ گئے تھے اور فلیگ مارچ بھی کیا گیا تھا اور کچے کے علاقوں کا جائزہ لےکر چوکیاں بھی قائم کی گئیں، مگر پھر اچانک بغیر کسی وجہ کے سب کچھ روک دیا گیا۔ اب تک ڈاکوؤں کو نکیل ڈالنے کے لئے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے۔ 

حال ہی میں ایس ایس پی گھوٹکی نے آئی جی سندھ کو ایک خط بھی ارسال کیا ہے جس میں کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی موجودگی، ان کے پاس جدید اسلحہ، پولیس کی بے بسی، وسائل کی محدودیت سے آگاہ کرتے ہوئے جدید ہتھیاروں کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

حکام وپولیس عوام کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے، جب تک کچے کے یہ علاقے ڈاکوؤں سے پاک نہیں ہوں گے اس وقت تک امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں حکومت سندھ کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے، کچے کے علاقوں بالخصوص سندھ، پنجاب و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بیک وقت گرینڈ آپریشن کیا جائے، پولیس افسران و جوانوں کو جدید ہتھیار فراہم کئے جائیں۔ 

ڈاکوؤں کی سرکوبی کے ساتھ کچے کے علاقوں میں انفرا اسٹرکچر بالخصوص اسکولز، صحت مراکز، روڈ راستوں، پلوں کی تعمیر پر بھی توجہ دی جائے تاکہ یہاں بے بس عوام بھی بنیادی سہولتوں سے فیض یاب ہوسکیں ، نیز ان علاقوں سے ڈاکو راج کی سرکوبی کو یقینی بنایا جاسکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید