اندرون سندھ کچے کے علاقوں میں عرصہ دراز سے ڈاکوؤں کا راج، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مارکا بازار گرم ہے۔ پولیس اور انتظامیہ انہیں کنٹرول کرنے میں تا حال کام یاب نہ ہو سکے۔ کہا جارہا ہے کہ پولیس سے وابستہ کئی افراد ان سے ملے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ڈاکوؤں کے خلاف کوئی بھی آپریشن کامیاب نہیں ہورہا۔ اس کے علاوہ چند وڈیروں،منتخب نمائندوں کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل ہے،سندھ رینجر زکے افسران کا کہنا تھا کہ کراچی کی طرز پر ہمیں آپریشن کی اجازت دی جائے جو انہیں نہیں دی گئی ۔ سندھ حکومت عوام کی جان و مال کو تحفظ نہ دے سکی اور ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔
اسی دوران بگٹی قبیلے کی شاخ کلپر ڈیرہ بگٹی صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وڈیرے جلال خان عرف جلالان خان کے جواں سال بیٹے کو کچے کے ڈاکوؤں نے ہلاک کیا اس کابدلہ لینے کے لئے یہ اپنےسیکڑوں قبیلے کے افراد کو جدیدہتھیاروں سے لیس کر کے سندھ کے کچے کے علاقوں میں پہنچ گئے۔ انتقام کے جذبے نے انہیں ہمت وطاقت حوصلہ دیا اس طرح کلپر بگٹی کی شکل میں اللہ تعالٰی کا قہر کچے کے ڈاکوؤں پر نازل ہوا اور انعام یافتہ مبینہ تقریباََ 9 ، ڈاکوؤں کو ہلاک کیا، ان کے مورچوں پر قبضہ کر لیاگیا۔
اپنے بیٹے کے انتقام کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو جن پر یہ ڈاکو ظلم کرتے تھے ان سے انہیں نجات دلائی اور سندھ پولیس کو ڈاکوؤں کے مورچے جو قبضہ کئے گئےتھے وہ ان کے حوالے کئے، اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کچے کے علاقوں میں جنگل کے قانون کو فروغ دیا جا رہا تھا۔
ڈاکو سر عام عوام کو لوٹ کرہی نہیں ان پر ظلم کرکے انہیں بیدردی سے قتل کردیتے تھے،نہ صرف یہ بلکہ ویڈیوز بنا کر وائرل کرکے سندھ حکومت کو چیلنج کرتے تھے۔ اس صورتحال سے خوفزدہ عوام عدم تحفظ کا شکار دکھائی دیتے اور سندھ حکومت سے ڈاکوؤں سے نجات دلانے کی اپیلیں کرتے، مگر سب بے سو ثابت ہوتیں۔ اب امید ہے کہ آ ئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن اپنی انٹیلیجنس بیسڈ معلومات کی روشنی میں کچے کے ڈاکوؤں کا صفایا کر کے سندھ کے عوام کو ان کے چنگل سے نجات دلانے میں کام یاب ہو جائیں گے اور اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سندھ کو امن کا گہوارہ بنانے میں کردار ادا کریں گے۔
سندھ کے ضلع کندھکوٹ کشمورمیں ڈاکوؤں نے گذشتہ ایک سال میںتقریباََ 400 افراد کو اغوا کیا ۔حکومت سندھ اور پولیس کے بلند بانگ دعوؤں جبکہ حکومت سے کروڑوں روپے کا بجٹ لینے اور ڈاکوؤں کے خلاف 250 آپریشنز کے باوجود کچے کے چاروں اضلاع کےمختلف علاقوں درانی مہر ، گڑہی تیغو ، شاہ بیلو ، اور گھوٹکی کے رونتی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں ، جہاں ڈاکوؤں کےمختلف گروہتیغانی ، جاگیرانی ، شر ، بھیو ، سبزوئی اور بھنگوار گینگ کے ڈاکو آزادانہ وارداتیں کرتے ہیں۔
ڈاکوؤں کے حملے میں اب تک درجنوں پولیس افسران واہلکار شہید ہوچکے ہیںاور اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن کے اضلاع شکارپور ، کشمور کندھکوٹ ، سکھر اور گھوٹکی کے کچے کے علاقوں میں ہر ماہ 20 سے 30 افراد تاوان کی ادائیگی کے بعد آزاد ہوتے ہیں، جبکہ مغویوں کی آزادی کے حوالے سے پولیس صرف ڈرامہ رچاتی ہے، ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔اب تو شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی ، شکارپور اور کشمور کندھکوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز او رسوشل میڈیا کے ذریعے سستی گاڑیوں وغیرہ کے اشتہارات دیکر اغوا کی وارداتوں کا رجحان عام ہوچکا ہے، جس میں لوگ خو د ڈاکوؤں کے پاس پہنچ کر مغوی بن جاتے ہیں۔
خواتین کی آواز میں بات کرکے ، لوگوں کو محبت اور شادی کا جھانسہ دےکر ڈاکوؤں نے لوگوں کو اغوا کرنے کا یہ سلسلہ گھوٹکی کے رونتی کے کچے کے علاوہ دیگر اضلاع تک پھیلایا۔ ایک پولیس انسپیکٹر کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس فون پر بات کرنےکےلئے سندھی ، اردو ، پنجابی اور پشتو زبان میں بات کرنےوالی خواتین بھی ہیں۔
رہنی ٹریپ کا شکار بننے والے افراد اغواء ہورہے ہیں، اس کے علاوہ وہ افراد بھی اغوا ہورہے ہیں جو کسی پیشے کے ماہر ہیں جن میں الیکٹریکل وائرنگ کرنے والے الیکٹریشن، گاڑیوں کے میکنیک وغیرہ، جن کو ڈاکو کسی بہانے کام سے بلاکر اغوا کرلیتے ہیں ، بعد ازاں 50 لاکھ روپے سے لےکر ایک کروڑروپے تاون وصول کر کے چھوڑتے ہیں۔ اس وقت سی پیک روڈ اور نیشنل ہائی وےڈاکوؤں کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔
پولیس کی جانب سے کروڑوں روپے خرچ کرکے کچےکے مختلف علاقوں میں چیک پوسٹیں قائم کرنے کے اعلانات کئے گئے تھے، مگر وہ صرف اعلانات ہی تھے، اس وقت کچے میں پولیس کی کوئی چیک پوسٹ نہیں ہے۔ان پوسٹوں کے قیام، کچہ فورس اور جدید ہتھیاروں کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز ہڑپ کئے جاچکے ہیں۔
ان مذکورہ اضلاع کے 8 ایس ایس پیز کو باربار تبدیل کیا گیا ،پھر بھی وامان قائم نہ ہوسکا۔ اس صورتحال کے باعث سندھ کی اقلیتی ہندو برادری کے درجنوں خاندان بدامنی سے تنگ آکر سندھ سے ہجرت کرکے بھارت چلے گئے۔ سندھ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں سے مقابلہ نہ کرنے کی صرف ایک وجہ بیان کی جارہی ہے کہ پولیس مقابلے میں ڈاکؤں کے پاس جدید اسلحہ ، اینٹی ائرکرافٹ گنز اوربڑی تعداد میں راکیٹ لانچرز ہیں اور ڈاکو جدید اسلحے سے لیس ہوکر اعلیٰ پولیس افسران کو سوشل میڈیا پر دھمکیوں کی وڈیوز وائرل کررہے ہیں۔
چند ماہ قبل سندھ ہائی کورٹ سکھر نے سندھ میں قیام امن ، اغوا برائے تاون کی وارداتوں اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے سماعت کے موقع پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سندھ میں اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری بن چکی ہے جس میں سالانہ دو بلین روپے کا کاروبار ہوتا ہے، جبکہ اس موقع پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایاکہ سندھ پولیس کو کچے میں اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائمز اور نارکو ٹیکس کیسز کا سامنا ہے، اب پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کے گرد گرفت ڈھیلی پڑنے سے ڈاکو راج اور مختلف اضلاع میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح نے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات لگا دیئے۔ موٹر وے اور نیشنل ہائی ویز پر لوٹ مار ، مسلح ڈکیتی ، اغوا اور رہزنی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں سندھ پولیس کی ناقص کارکردگی کو عیاں کردیاہے ، جبکہ دوسری جانب پولیس میں بیجا سیاسی مداخلت اور پولیس کے اندر کالی بھیڑیں بھی امن وامان کی بگڑتی صورت حال کی بڑی وجہ ہے۔
کچھ روز قبلایک سیاسی رہنما بابل خان بھیو کا بیٹا الطاف بھیو ڈبل کیبن گاڑی میں جدید اسلحہ سپلائی کرتے ہوئے اپنے باڈی گارڈوں سمیت ضلع جیکب آباد بائی پاس کے مقام پر حساس اداروں اور پولیس کی مشترکہ کارروائی کے دوران رات کو پکڑا گیا اور صبح کو رہا ہوگیا اسلحے میں چار سب مشین گنز، لائٹ مشین گنز اور کلاشنکوف کی ڈھائی ہزار سے زائد گولیاں، لائٹ مشین کے چھ اور جی تھری رائفل کے 17 میگزین سمیت دیگر بھاری مقدار میں اسلحہ شامل تھا غیر قانونی اسلحہ برآمد ہونے پر پولیس نے الطاف بھیو کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی البتہ جیکب آباد پولیس کے اے ایس آئی امتیاز بھیو اور دو پولیس کانسٹیبلز ثناء اللہ مگنہار اور بقاء اللہ انڑ کو رسمی کارروائی کے طور پر گرفتار کرکے اسلحہ پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ اسلحہ بلوچستان سے ضلع شکارپور میں کچے کے علاقے میں اسمگل کیا جارہاتھا جو جیکب آباد میں پکڑا گیا اس معاملے کی تحقیقات کے لئے دو ڈی ایس پیز پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے ،علاقے کے معززین کے مطابق ایس ایس پی ضلع جیکب آباد سید سلیم شاہ نے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہونے پر شکارپور کے بھوتار الطاف بھیو کو آزاد کرکے قبائلی تکرار کوکم کرنے کے بجائے مزید بڑھایا ہے اگر پولیس اسی طرح مجرموں کو چھوٹ دے گی تو ڈاکو راج اور قبائلی تصادم میں شدت ہی آئے گی اور بگٹی قبیلے کی طرح ہر کوئی خود ڈاکوؤں سے بدلہ لے گا۔