• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر میں ایک جانب ڈکیتی اور لوٹ مار کے واقعات تھمنے میں نہیں آ رہے۔آئے روز شہری اپنی قیمتی زندگی اور اشیاء سے محروم ہو رہے ہیں تو دوسری جانب قانون کے محافظ خود ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ شہریوں کی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ اب ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ماضی میں بھی شہریوں کو اغواکر کے ان سے پیسے وصول کرنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ہر بار اعلیٰ پولیس حکام یہ یقین دلاتے ہیں کہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال دیا گیا ہے لیکن ہر تھوڑے عرصے بعد پھر ایک واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔

گذشتہ دنوں ضلع کورنگی کی پولیس پارٹی کا ایک واقعہ سامنے آیا، جس میں شہری کو اغوا کر کے اس سے ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم لوٹ لی گئی۔پولیس موبائل میں سول افراد موجود تھے ،جنہوں نے سہراب گوٹھ کے علاقے میں مبینہ ڈکیتی کی واردات کی۔ جس میں تاجر کی گاڑی سے 1 کروڑ 18 لاکھ روپے لوٹ لیے ملزمان تاجر کو نارتھ ناظم آباد میں چھوڑ کر فرار ہوگئی۔واقعہ کی تحقیقات کی گئیں تو ایس ایچ او تھانہ زمان ٹاؤن رائو رفیق اور پولیس پارٹی واقعہ میں ملوث پائی گئی ۔واقعہ کا مقدمہ سچل پولیس اسٹیشن میں تاجر محمد خان کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

مقدمہ الزام نمبر 463/24 میں لوٹ مار اور حبس بے جا میں رکھے جانے کی دفعات شامل کی گئیں۔ مدعی کے مطابق،’’ 11 مارچ کی صبح چار بجے میں اپنے پارٹنر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دو کاروں میں تھے ۔میرے پاس نیلے رنگ کی تین تھیلیوں میں ایک کروڑ 18 لاکھ روپے تھے۔جسے میرے گھر واقع نیول کالونی حب ریور روڈ پہنچانی تھی۔جب ہم لنک روڈ برج سپر ہائی وے لیاری ایکسپریس کی طرف اتر رہے تھے کہ ایک پولیس موبائل اور ایک پرائیویٹ کار میں موجود سواروں نے ہمیں روک لیا۔

آٹھ سے نو پولیس یونیفارم میں ملبوس اسلحہ کے ہمراہ اہلکاروں کے ساتھ ایک سادہ لباس شخص بھی تھا۔ انہوں نے ہماری گاڑیوں کی تلاشی لی اور تمام افراد سے موبائل فون چھین لیے۔ ہمارے پارٹنر فیصل کی گاڑی لاک کرکے چابی لے لی اور میرے ساتھی شاہد کو پولیس موبائل میں بٹھا کر اس کےمنہ پر کپڑا ڈال دیا۔مدعی نے مزید بتایا کہ اہلکاروں نے مجھے اپنی کار میں پچھلی سیٹ پر بٹھا کر آنکھوں پر رومال باندھ دیا، جبکہ میرے دائیں ، بائیں اور اگلی نشست پر تین اہلکار بیٹھ گئے۔

میرا سر نیچے کروا دیا اور چہرہ اوپر کرنے سے منع کردیا،ایک اہلکار مجھ پر پستول تانے رہا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک گاڑی میں گھماتے رہے اور ایک مقام پر جاکر یہ لوگ گاڑی سے اتر گئے اور مجھے گاڑی میں ہی لاک کر دیا، میری رقم ایک کروڑ 18 لاکھ روپے کار سے نکال کر اسلحہ کے زور پر لے گئے۔ان کے جانے کے کچھ دیر بعد میں نے آنکھوں سے کپڑا ہٹایا ،کار کا شیشہ زور زور سے بجانے پر لوگ جمع ہوگئے اورانہوں نے دروازہ کھولا۔ اس وقت صبح کے 5 بجے رہے تھے اور جگہ شاہراہ نور جہاں نارتھ ناظم آباد تھی۔ اہلکار جاتے ہوئے چھینے گئے موبائل فون کار میں چھوڑ گئے تھے، میں نے اپنے فون سے دوستوں سے رابطہ کیا اور وہاں سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی۔

فوٹیج میں پولیس اہلکاروں کو مجھے کار میں لاک کرکے سلور رنگ کی کار میں فرار ہوتے ہوئے دیکھا گیا ۔پولیس ذرائع کے مطابق تین روز قبل زمان ٹائون تھانے کی پولیس موبائل نیشنل اسٹیڈیم کے قریب سکیورٹی پر مامور تھی ، ظفر نامی شخص جو کہ ایس ایچ او زمان ٹاؤن کا قریبی ہے ، اُس نے ایس ایچ او رائو رفیق کو فون کر کے مخبری کی کہ لیاری ایکسپریس وے میں چھالیوں کے ڈیلر موجود ہیں ان کے پاس بڑی رقم موجود ہے۔ ایس ایچ او نے زمان ٹائون تھانے کی سرکاری موبائل پرائیو یٹ شخص کے حوالے کر دی، جس کے بعد وہ زمان ٹائون کی پولیس موبائل لے کر اہلکاروں کے ساتھ لیاری ایکسپریس سہراب گوٹھ کے قریب پہنچ گئے ۔رقم لوٹ کر فرار ہوگئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ، جس شہری سے 1 کروڑ 18 لاکھ روپے چھینے گئے ان کے تعلقات اچھے تھے جس کے بعد واقعہ اعلیٰ پولیس حکام تک پہنچ گیا۔ پولیس موبائل ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا یہ پولیس موبائل زمان ٹائون تھانے کی ہے اور پرائیویٹ گاڑی میں ظفر اور ایک اور شخص تھا۔واقعہ میں ملوث تین پولیس اہلکاروں سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں سابق ایس ایچ او زمان ٹائون راؤ رفیق، ایک سب انسپکٹر ،دو کانسٹیبل اور دو افراد شامل ہیں،جبکہ ایک پولیس افسر کرم اور ظفر نامی شخص سمیت تین افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ایس پی انویسٹیگیشن ایسٹ امیر سعود مگسی کے مطابق ملزمان سے لوٹی گئی آدھی سے زائد رقم ریکور کر لی گئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق مخبر ظفر کی اطلاع پر زمان ٹاؤن پولیس اسٹیشن کےتھانیدار راؤ رفیق کے حکم پر ایک ٹیم نے سہراب گوٹھ سے ایک شخص سے ایک کروڑ 18 لاکھ روپے چھین لیے تھے، تاہم مخبر ظفر نیت خراب ہونے پر اہلکاروں کو موبائل سمیت چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا۔

اہلکاروں کو موبائل چلانا نہیں آتی تھی، جس کی وجہ سے وہ ایکسپریس وے پر کھڑے تھے کہ ضلع ایسٹ کے پولیس اہلکار پہنچ گئے، پوچھ گچھ پر انہوں نے تسلی بخش جواب نہیں دیا جس پر انہیں تھانے منتقل کیاگیا۔ اگلے روز متاثرہ شخص بھی سچل تھانے پہنچ گیا، جہاں اس نے بھانڈا پھوڑتے ہوئے بتایا کہ کل رات مجھ سے زمان ٹاؤن پولیس کے اہلکار رقم سے بھرا ہوا تھیلا چھین کر لے گئے تھے جس کے بعد معاملہ اعلیٰ افسران تک پہنچ گیا اور تحقیقات کی گئی توانکشاف ہوا کہ رقم چھیننے کے واقعہ میں ایس ایچ او زمان ٹاؤن راؤ رفیق اور اس کا مخبر بھی شامل ہے۔راؤ رفیق کو معطل کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ گذشتہ دنوں سامنے آیا جب سی ٹی ڈی گارڈن میں تعینات اہلکاروں نے کی کاغذ بنانے والے تاجر کو دو دن تک غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا۔ تاجر نے ایس ایس پی سی ٹی ڈی سید فدا حسین شاہ سمیت واقعہ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ،تاہم ایس پی فداحسین شاہ کا کہنا ہےکہ عباس اللہ نامی تاجر کے کالعد تنظیموں کے روابط ہیں ۔اس کے خلاف ٹیرر نڈنگ کی اطلاعات ہیں ،جس پر انکوائری جاری ہے، انکوائری سے بچنے کےلئے اس طرح کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔

عباس اللہ نامی تاجر کی جانب سے آئی جی سندھ کو تحریری درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ایس ایس پی سی ٹی ڈی نےانہیں بتایا ہے کہ انہوں نے زمین کا ایک ٹکڑا کسی دوسرے شخص کو بیچا ہے اور اسے زمین کے فروخت کی رقم جمع کرانے کے لیے کسی دوسرے شخص کا بینک اکاؤنٹ چاہیے اس لیے میں اس کی مدد کروں۔ انہیں ایک بزنس مین کا اکاؤنٹ درکار ہے، جس میں وہ رقم جمع کرائی جاسکے ، اس نے مجھ سے کہا کہ میں اسے اپنا اکاؤنٹ نمبر دوں میں نے انکار کیا تو انہوں نے مجھ پر دباؤ ڈالنا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیناشروع کردیں۔

اس دوران 6 مارچ کو 2 پولیس موبائلوں میں 8 سے 10 اہلکار میرے گھر آئے اور مجھے زبردستی اغوا کر کے ایک پرائیوٹ سیل میں لےگئے اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔تاجر نے آئی جی سندھ سے ایس ایس پی سی ٹی ڈی گارڈن سید فدا حسین شاہ سمیت ملوث تمام اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی۔واقعہ کی تحقیق کی گئی تو تاجر عباس کو اغواہ کرنے والی ٹیم سی ٹی ڈی گارڈن رفاقت شاہ کی نکلی۔جو سی ٹی ڈی گارڈن میں تعینات ہے، تاجر کے اغوا میں اے ایس آئی لیاقت ، اے ایس آئی جہانزیب اور ہیڈ کانسٹیبل راؤ شامل ہیں۔ سی ٹی ڈی ٹیم اس سے قبل بھی متعدد شہریوں کے اغوا میں ملوث ہے۔

پولیس اہلکاروں کی جانب سے جرائم میں ملوث ہونے کے واقعات کم نہیں ہو رہے۔ گذشتہ دنوں ملزمان سے پکڑا گیا گٹکا ماوا فروخت کرنے پر ایس ایچ او بلدیہ سمیت تین پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔ڈی آئی جی سائوتھ سید اسد رضا کے ایک حکم نامے کے تحت ضلع کیماڑی کے تھانہ بلدیہ کے ایس ایچ او رسب انسپکٹر فیصل رفیق ،ہیڈ محرر ہیڈ کانسٹیبل سید اظہر حسین اور کانسٹیبل ماجد جدوں کو معطل کر کے سسپنڈ کمپنی منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ایس ایچ او اور مذکورہ اہلکار ملزمان سے پکڑا گیا گٹکا اور ماوا کو فروخت کرنے میں ملوث ہیں ،جبکہ ایس ایچ او کی اسپیشل پارٹی کی شکایات بھی ڈی آئی جی سائوتھ کو موصول ہوئی تھی جس پر مذکورہ اقدام اٹھایا گیا۔

ٹریفک پولیس اہلکاروں کے بھی شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے ان پر تشدد کرنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ صدر پریڈی اسٹریٹ ٹریفک اہلکاروں کی شہری کو گردن سے دبوچنے کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔تین سے چار ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو شہری کو تشدد کرتے اور گالیاں دیتے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔قریب موجود شہریوں نے شہری کو ٹریفک پولیس اہلکاروں سےبچایا۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایس پی ٹریفک سٹی کو انکوائری آفیسرمقرر کیا ہے۔اسی طرح کا ایک واقعہ پہلے بھی سامنے آیا جس میں ٹریفک پولیس اہلکاروں کو ایک استاد کیساتھ الجھتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

پولیس کی جانب سے شہر میں جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد شہریوں کی جانب سے قانون کو خود ہاتھ میں لینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔گذشتہ دنوں گلشن معمار تھانے کی حدود چاول گودام کے قریب موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح ملزمان نے کار میں سوار افراد کو لوٹنے کی کوشش کی ،اس دوران کار میں بیٹھے شخص کی فائرنگ سے ایک ڈکیٹ ہلاک ہو گیا ،جبکہ اس کاساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ایس ایچ او وقار قیصر کے مطابق کرولا کار میں سوار چار دوست جیسے ہی نادرن بائی پاس سے اتر کر چاول گودام کے قریب پہنچے تو ملزمان نے انھیں لوٹنے کی کوشش کی اور ان سے 12 ہزار 300 روپے کی رقم لوٹ لی۔

اس دوران گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھے زمین خان نامی شہری نے اپنی لائسنس یافتہ تیس بور پستول نکالی تو ڈاکوؤں نے کار پر فائرنگ کر دی، دو گولیاں کار کو لگیں لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔شہری کی جوابی فائرنگ سے دو گولیاں ایک ڈاکو کی کمر میں لگیں جو زخمی ہو گیا اور بعد ازاں دم توڑ گیا جبکہ ڈاکو کا ساتھی وہاں سے فرار ہو گیا۔ہلاک ملزم کی شناخت عظمت اللہ کے نام سے ہوئی ہے جس کاکرمنل ریکارڈ چیک کیا جا رہا ہے۔ ایک اور واقعہ ضلع کورنگی کے تھانے زمان ٹاؤن کی حدود میں پیش آیا۔ 

زمان ٹاؤن تھانے کی حدود کورنگی پانچ نمبر پر ایک ڈاکو بزرگ شہری سے لوٹ مار کر کے فرار ہو رہا تھا کہ شہریوں نے اس کاپیچھا کیا اور تعاقب کے بعد حرمین جنرل اسٹور کے قریب اسے پکڑ لیا۔مشتعل شہریوں نے اسے وہاں موجود ایک ٹال نما لکڑی کے ساتھ باندھ دیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں شہریوں نے اسے کھولا اور موٹر سائیکل پر بٹھا کر تھانے لے جانے لگے تو ملزم نے موٹر سائیکل سے اتر کر بھاگنے کی کوشش کی جس پر شہریوں نے اسی کی پستول سے اس پر فائرنگ کر دی جس کےنتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔ایس ایچ او کے مطابق واقعہ کے بعد شہری ملزم کا پستول بھی اپنے ساتھ لے گئے۔

واضح رہے کہ رواں برس اب تک شہر میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 40 شہری جاں بحق جبکہ شہر میں مختلف واقعات میں 132 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ساؤتھ زون کراچی میں قتل کے 28 ،ایسٹ زون میں 63 اور ویسٹ زون میں قتل کے 41 کیسز رپورٹ ہوئے۔ گاڑیاں چھیننے اور چوری کے 269 ،موٹر سائیکل چھیننے اور چوری کے 4078 جبکہ دیگر گاڑیوں کے چھیننے اور چوری کے 82 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ 

رواں برس 15 مارچ تک شہر میں ہائی وے پر ڈکیتی و راہزنی کے 13، پٹرول پمپ پر ڈکیتی کا ایک، گھروں میں ڈکیتی و راہزنی کے 66، دکانوں پر ڈکیتی و راہزنی کے 75 جبکہ ڈکیتی و راہزنی کی دیگر واقعات کے 885 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم ان جرائم میں ملوث ملزمان کو پکڑنے کے بجائے پولیس اہلکار خود جرائم کی سرگرمیوں میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید