• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت بے نیاز، سماج بے حس آنکھیں جاگتی رہیں، جرم ہوتے رہے، بولا کوئی نہیں

سال 2023 میں بھی کراچی کے شہریوں کو امان نہ مل سکا۔ اسٹریٹ کرائم کی ہزاروں وارداتیں رپورٹ ہوئیں جن میں اپنی قیمتی اشیاء سے محروم ہونے کے علاوہ 125سے زائد شہری اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ مختلف واقعات میں 600سے زائد شہری قتل ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ ، لڑائی جھگڑوں اور آپسی تنازعات میں بھی کئی افراد جان سے گئے۔ ستمبر 2023 میں کراچی آپریشن کے 10برس مکمل ہوئے۔ اسں برس بھی شہر میں سیف سٹی پراجیکٹ مکمل نہیں کیا جا سکا۔

گلشن حدید میں اسکول پرنسپل کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے اور نازیبا ویڈیو کا اسکینڈل سامنے آیا۔ ضلع کیماڑی میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے اخراج سے 18 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ سندھ پولیس اور کراچی پولیس کی قیادت بھی تبدیل ہوئی۔ رواں برس غیر قانونی تارکین وطن اور اسمگلنگ کے خلاف بھی آپریشن کیئے گئے۔ شہر میں ٹوٹی سڑکوں کے باعث ہونے والے ٹریفک حادثات میں متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔شہر کے مختلف علاقوں میں خواتین کو سر راہ ہراساں کرنے اور ان سے غیر اخلاقی حرکات کے واقعات سامنے آئے۔جعل ساز گروہوں کی جانب سے شہریوں کی جمع پونجی ہتھیانے کے واقعات بھی سامنے آئے۔

لیاری کے علاقے میں خاتون پولیوورکر کو ہراساں کرنے کا واقعہ پیش آیا۔شہر میں ہونے والی ڈانس پارٹیوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں سے لائی گئی لڑکیوں کو منشیات کا عادی بنانے اور انھیں قتل کرنے کے واقعات سامنے آئے۔بینکوں اور اے ٹی ایم سے رقوم نکلنے والےسیکڑوں شہریوں کو لوٹ لیا گیا۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے پرتشدد احتجاج کیا۔

گھروں، ہائی وے، پٹرول پمپ ،،بینکوں،دکانوں اور شاہراہوں پر ڈکیتی اور راہزنی کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوئے جن میں شہریوں کو موبائل فون، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور ان کی قیمتی اشیاء سے محروم کر دیا گیا، دہشت گردی ،اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے وارداتیں بھی نہ تھم سکیں، بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے اور متعدد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا ،جبکہ گینگ ریپ کےشرمناک واقعات بھی ہوئے، شہر میں نقب زنی اور گھروں پر ڈکیتی کی واردتیں بھی جاری رہیں۔

مختلف علاقوں میں آتشزدگی کے واقعات میں فائر فائٹرز سمیت متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے جبکہ کروڑوں روپے مالیت کا سامان جل کر راکھ ہو گیا، کرنٹ لگنے ، نالوں، مین ہولوں اور ندیوں میں ڈوب کر بچوں سمیت درجنوں افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا،پانی ،بجلی اور گیس کی عدم فراہمی اور تجاوزات کے خلاف سینکڑوں احتجاج ہوئے۔

سال2023 بھی پولیس کے مختلف مقابلوں پر سوالات اٹھائے گئے ،خودکشی اور زہر خوارانی کے مختلف واقعات میں خواتین اور نوجوانوں سمیت متعدد افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ شہر کے مختلف علاقوں سے تشدد زدہ لاشیں اور انسانی ڈھانچوں کے ملنے کے واقعات بھی سامنے آئے، منشیات اور گٹکا ماوا کی فروخت بھی جاری رہی ،جبکہ شیشہ کیفیز اور شیشہ بار پابندی کے باوجود کھلے رہے، منشیات کی فروخت بھی جاری رہی۔پولیس نے اسمگلنگ اور گٹکا ماوا کے خلاف متعدد آپریشنز بھی کیئے۔

سمندر اور تالاب میں نہاتے ہوئے متعدد افراد ڈوب کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، شہر میں پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ جاری رہا ،عید قرباں پر منڈیوں کے باہر لوٹ مار کے علاوہ 60سے زائد قربانی کے جانور بھی چوری کر لیئے گئے، حج اور عمرے سے واپس آنے والے متعدد افراد کو لوٹ لیا گیا۔ پولیس نے مبینہ مقابلوں میں165سے زائد ملزمان کو مقابلوں میں ہلاک کیا ۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے شہریوں کے اغوا ، بھتہ وصولی ، گھروں میں ڈکیتی اور مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آئے۔

گیس لیکیج اور گیس سیلنڈر دھماکوں کے باعث متعدد افراد جاں بحق ہوئے، سائبر کرائم کے واقعات میں خواتین کو ہراساں کرنے اور شہریوں سے سائبر فراڈز کے ذریعے لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور اکثر شکایت کنددگان کو ریلیف نہیں مل سکا،مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ شہریوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور متعدد ڈکیت شہریوں کے تشدد سے ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ہوائی فائرنگ، اندھی گولی اور شادی کی تقاریب میں فائرنگ سے بچوں سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔جشنِ سال نو2023 اور جشن آزادی کے موقع پر ہونے والے ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں بھی کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔

رواں برس بھی متعدد قیدی پولیس کی حراست میں ہلاک ، جبکہ کچھ فرار بھی ہوئے۔ جیل کے اندر بھی کئی قیدیوں کی ہلاکت ہوئی۔سندھ پولیس کی جانب سےعادی مجرمان کی ای ٹیگنگ ،سندھ اسمارٹ سرویلنس سسٹم کا آغاز، جدید کیمروں کی تنصیب سے صوبے کے داخلی و خارجی راستوں کی نگرانی کے فیصلے کیساتھ ساتھ ، پولیس ملازمین کے لیئے ای شیٹ ڈیجیٹل ایپ متعارف کرانےاور شہر کی مختلف شاہراہوں پر ایس ایم ڈی اسکرین نصب کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کی شہادت کے واقعات بھی ہوئے۔رینجرز کی جانب سے پانی چوری کے خلاف آپریشن کیئے گئے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2023میں 15دسمبر تک شہر میں اسٹریٹ کرائم کی85ہزار وارداتیں ہوئیں،دوران ڈکیتی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 125 سے زائد شہری جاں بحق اور 450کے قریب زخمی ہوئے۔ 15دسمبر2023 تک شہر کے مختلف علاقوں میں شہریوں سے30ہزار موبائل فون چھینے گئے،2 ہزار سے زائد گاڑیاں جبکہ 55ہزار کے قریب موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں،گزرے برس قتل کے 600سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔اقدام قتل کے 804،ریپ / زنا کے 226،بدفعلی کے 127،اغوا کے 2669،اغوابرائے تاوان کے 40،بچوں کے اغواہ کے 353،بھتہ خوری کے140،اقدام خودکشی کے14،بینک ڈکیتی کے 2،ہائی وے ڈکیتی اور راہزنی کے 20،پٹرول پمپ ڈکیتی و راہزنی کے 10،دکانوں پر ڈکیتی و راہزنی کے 366، گھروں پر ڈکیتی و راہزنی کے 338، ڈکیتی اور راہزنی کے دیگر واقعات کے 4198، چوری کے 1768، جانوروں کی چوری کے 43،چوری کے دیگر واقعات کے 2736، جان لیوا ٹریفک حادثات کے 307،ممنوعہ آرڈیننس کے4690،آرمز آرڈیننس 6743،گیمبلنگ آرڈیننس کے تحت 421،اسمگلنگ آرڈیننس کے 53،دیگر لوکل اور اسپیشل لاء کے تحت 1982،توہین مذہب کے26کیسز درج کئیے گئے۔رواں برس شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والے 1100پولیس مقابلوں میں 166ڈکیت ہلاک اور 1300سے زائد زخمی ہوئے،اس دوران پولیس نے 7ہزار ڈکیتیوں کو گرفتار کیا۔

سال 2023 میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہوئے۔دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ کراچی پولیس ہیڈ آفس پر حملے کا ہوا۔17فروری کو کراچی پولیس آفس ( کے پی او ) میں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت 5افراد شہید اور 18زخمی ہو گئے، حملے میں 3 دہشت گرد واصل جہنم ہوئے۔ ہلاک دہشت گردوں سے دو جیکٹس، بڑی تعداد میں بال بیرینگ ،کھانے کی اشیاء بھی ملیں۔ 13مارچ کو سی ٹی ڈی کی جانب سے دعوٰی کیا گیا کہ کے پی او پر حملے میں ملوث دو دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ دو کو گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمان کا تعلق کلعدم ٹی ٹی پی سے بتایا گیا۔دہشت گردی کا ایک اور واقعہ 10مئی کو پیش آیا۔ 

سکھن میں ہونے والے مقابلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا جبکہ دوسرا فرار ہوگیا۔ پولیس نے بتایا کہ دو دہشت گردوں نے چینی کمپنی ہانگ کانگ، داؤد جیٹی میں گھسنے کی کوشش کی۔ 17 اگست کو سچل پولیس اسٹیشن کی پولیس موبائل پر حملہ کیا گیا،حملے کی ذمہ داری کلعدم سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی۔16ستمبر کو لیاری چاکیواڑہ تھانے کی حدود میں ہونے والے دستی بم حملے میں ایک خاتون جاں بحق اور8افراد زخمی ہوئے۔

چیف فائر آفیسر کے مطابق سال 2023 میں شہر میں آتشزدگی کے 2ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ۔آتشزدگی کے واقعات میں 4فائرفائٹرز سمیت 40سے زائد افراد جھلس کر اور دم گھٹنے سے جاں بحق اور100سے زائد زخمی ہو ئے۔25 نومبر کو راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ سینٹر میں آتشزدگی کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ۔6دسمبر کو عائشہ منزل کے قریب عرشی شاپنگ سینٹر میں آتشزدگی کے نتیجے میں 5افراد جاں بحق ہو گئے۔اپریل میں نیو کراچی میں واقع فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد ریسکیو آپریشن کے دوران 4فائر فائٹرز جاں بحق اور5فائر فائٹرز سمیت 9افراد زخمی ہو گئے۔10جون کو گلستان جوہر میں جھگیوں میں آتشزدگی کے باعث 80جھگیاں جل کر خاکستر ہو گئیں۔20جون کو گلشن معمار میں جھگیوں میں آگ لگ گئی جسکے نتیجے میں10جھگیاں جل گئیں۔

سال2023میں ضلع کیماڑی میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے اخراج سے 18 افراد کی کی ہلاکت ہوئی۔ عدالتی احکامات کے بعد آئی جی سندھ نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔

سال2023 کےاواخر میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشنز کیئے گئے۔کراچی سے صرف ایک ماہ (نومبر) کے دوران غیر قانونی طور پر مقیم 1ہزار 117 افراد کو انکے وطن واپس بھیجا گیا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں برس قتل ہونے والے 50 فیصد سے زائد افراد کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے تھا۔رپورٹ کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں میں گزرے برس قتل ہونے والے 50 فیصد افراد کا تعلق بالائی علاقوں اور ملک کے دیگر مختلف علاقوں سے ہے جنھیں دشمنی کی بناء پر قتل کیا گیا۔

سال2023 میں ایک افسوس ناک واقعہ ماہ رمضان میں پیش آیا ۔31مارچ کو سائٹ ایریا میں واقع فیکٹری کے اندر راشن کی تقسیم کے دوران بھگڈر مچ گئی،اس دوران دم گھٹنے اور لوگوں تلے دب کر خواتین اور بچوں سمیت 11 افراد جاں بحق جبکہ 5 زخمی ہوگئے۔

کراچی آپریشن کے10برس مکمل ہوئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ان دس برسوں کے دوران پولیس نے 8043 مقابلوں میں 2186 ملزمان کو ہلاک کیا جن میں 434 دہشت گرد،40 اغواہ کار،12 بھتہ خور اور 1700 ڈکیٹ شامل ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران پولیس نے سنگین جرائم میں ملوث 3 لاکھ 91 ہزار 348 ملزمان کو گرفتار کیا جن میں 2379 دہشت گرد،قتل میں ملوث 4303 ملزمان،اغواہ برایے تاوان میں ملوث 237 ملزمان، بھتہ خوری میں ملوث 1039،ڈکیتی اور رابری میں ملوث 13085،اسلحہ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر 54268، منشیات فروشی میں ملوث 69603،دیگر جرائم میں ملوث 201475 ملزمان شامل ہیں جبکہ اس دوران 40844 مفرور اور 4225 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس افسران اور اہلکاربھی مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔متعدد افسران اور اہلکاروں کو معطل، نوکری سے برطرف اور گرفتاربھی کیا گیا جبکہ، پولیس اہلکار شارٹ ٹرم کڈنیپنگ ،گٹکا ماوا کی فروخت ،منشیات کی سپلائی،غیر قانونی گیسٹ ہاؤسز کو چلانے سمیت متعدد جرایم میں ملوث پائے گئے ۔18 اور19نومبر2023 کی شب اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں تاجر کے گھر پولیس وردیوں میں ملبوس اہلکاروں کی ڈکیتی کی واردات سامنے آئی۔پولیس پارٹی نے گھر میں ڈکیتی کرتے ہوئے 2کروڑ روپے اور 60سے 70تولے سونا لوٹا۔ ماہ نومبر میں ہی سعیدآباد میں پولیس اہلکاروں نے ریٹائرڈ انسپکٹر کے گھر ڈکیتی کی۔ دو موبائلوں میں سوار اہلکار ساڑھے چار تولے کے طلائی زیورات اور 2 لاکھ روپے نقدی لے اڑے ۔ لوٹ مار میں سی ٹی ڈی کے اہلکار ملوث پائے گئے ، واردات میں ملوث 3 سپاہیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

یوں تو پورے سال ہی شہر میں جرائم کے مختلف واقعات رپورٹ ہوئے تاہم ذیل میں چند اہم واقعات ملاحظہ کریں :

5جنوری کو گلستان جوہر میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک خاتون جاں بحق ہوئی۔ 5 جنوری کو گلشن اقبال میں واقع کوچنگ سینٹر میں فائرنگ کے واقعہ میں طالب علم جاں بحق ہو گیا۔ 28جنوری کو پٹھان کالونی میں شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سےحافظ قرآن نوجوان اور میٹرک کا طالبعلم جاں بحق ہو گیا۔4فروری کو نارتھ کراچی فور کے چورنگی کے قریب شہریوں نے دو ڈکیتوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا کر ماردیا۔25فروری کو منگھوپیر میں ڈاکؤں کی فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے،پولیس نے دو ڈاکؤں کو ہلاک کر دیا۔ 26فروری کو گلستان جوہر میں نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے معلم اور فیڈریشن آف پرائیویٹ اسکولز پاکستان کے وائس چیئرمین خالد رضا جاں بحق ہوگئے۔

ان کے قتل کی ذمہ داری ایس آر اے نے قبول کی۔27فروری کو بن قاسم ٹاؤن کے علاقے سے کمسن بچی کی لاش ملی جسے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا۔ 2مارچ کو مسلح ملزمان نے کشمیر روڈ پرفائرنگ کر کےعامر نامی تاجر کو قتل کر دیا۔ 8 مارچ کو سائٹ اے تھانے کی حدود حبیب بینک چورنگی کے قریب ملزمان کی فائرنگ سے پولیس اہلکار ہیڈ کانسٹیبل رمیز جاں بحق اور اسکا ساتھی اہلکار شیر افضل زخمی ہو گیا۔ 13مارچ کو اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم سمت سے آکر گولی لگنے سے 8 سالہ بچہ جاں بحق ہو گیا۔2اپریل کو کورنگی میں پولیس مقابلے میں3 ڈاکو ہلاک ہوگئے۔ 10اپریل کو شہر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 2افراد جاں بحق ہو گئے۔

7مئی کو ڈاکوئوں سے پریشان شہریوں نے ڈاکو سمجھ کر دو نوجوانوں کو مار ڈالا۔9مئی کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے پرتشدد احتجاج کیا، مظاہرین نے پولیس وین، رینجرز ، ٹریفک پولیس،واٹر بورڈ کی گاڑی، مشین اور اور متعدد موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کردیا ۔9مئی کو سندھ پولیس میں جعلی ڈومیسائل پر بھرتیوں کا انکشاف ہوا۔ اسپیشل سکیورٹی یونٹ کے ڈی ایس پی محمد اقبال اعوان نے عزیز بھٹی تھانے میں 7 امیدواروں پر مقدمہ درج کروادیا جو سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔16مئی کو سندھ بھر میں گٹکا ماوا کی فروخت سے متعلق اسپیشل برانچ کی اہم رپورٹ سامنے آ ئی۔ 

رپورٹ کے مطابق کراچی میں 151 گٹکا ماوا بنانے والے کارخانے موجود، کراچی سمیت سندھ بھر میں گٹکے ماوے کے 950 دھندے پولیس کی سرپرستی حاصل ہے، گٹکا ماوا بنانے والے 41 کارخانوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی شہر میں 733 گٹکا ماوہ فروش موجود ہیں جن میں سے 103 کو پولیس کی پشت پناہی حاصل ہے۔25مئی کو عوامی کالونی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مردہ مرغیاں فروخت کرنے والے 3 ملزمان گرفتار کر لئیے، 29مئی کو بلوچ کالونی تھانے کی حدود ایکسپریس وے اقراء یونیورسٹی کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار 27 سالہ وارث ولد نثار شہید ہو گیا۔ 2جون کی شب سماجی رہنما جبران ناصر کو ڈی ایچ اے فیز5سے مسلح افراد اپنے ہمراہ لے گئے،بعد ازاں انھیں رہا کر دیا گیا۔

3جون کی شب ایس بی سی اے کے افسر محمد اظہر کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا۔5جون کی شب جیو نیوز کے ایگزیکیٹیو پروڈیوسر زبیر انجم کو پولیس وردیوں میں ملبوس اہلکار انکے گھر سے اٹھا کر لے گئے، بعد ازاں انھیں رہا کیا گیا۔23جون کو پریڈی پولیس نے ایس بی سی اے کے تین افسران کو بھتہ خوری کے الزام میں گرفتار کر لیا۔24جون کو ڈیفنس میں بنگلے میں ہونے والی ڈانس پارٹی کے دوران نشے کی زیادتی کے باعث عائشہ نامی خاتون ہلاک ہو گئی،پارٹی میں موجود ایک خاتون اور مرد خاتون کی لاش جناح اسپتال چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

25جون کو سپر ہائی وے کے قریب سے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے12 جانور چھین لیئے گئے۔26جون کو ناظم آباد بورڈ آفس کے قریب پاکستانی نژاد کینیڈین شہری امین علوی کو ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔8جولائی کی شب پولیس وردی اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکار روزنامی جنگ کے سینئر رپورٹر سید محمدعسکری کو ایکسپریس وے سے اغواہ کر کے لے گئے۔16جولائی کو لیاری گلستان کالونی میں فائرنگ کے واقعہ میں پولیس اہلکار کانسٹیبل اسماعیل جاں بحق ہوگیا۔

26جولائی کو ڈیفنس میں گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں رکن سندھ اسمبلی اسلم ابڑو کے بھائی اور بھتیجا جاں بحق ہو گیا۔30جولائی کو شہر میں ٹوٹی سڑکوں نے ماں اور بیٹی کی جان لے لی۔پاک کالونی تھانے کی حدود کے ایم سی فلیٹس کے سامنے ٹوٹی سڑک کے باعث موٹر سائیکل پر سوار فیملی گر گئی،اس دوران تیز رفتار کچرے کا ٹرک ان کے اوپر چڑھ گیا جس کے نتیجے میں خاتون نگینہ اور انکی 5سالہ بیٹی ارمش جاں بحق ہو گئی۔31جولائی کو ملیر دمبہ گوٹھ میں ندی میں ڈوب کر دو کمسن بہنیں جاں بحق ہو گئیں۔

13 اگست کی شب جشن آزادی کے موقع پر ہونے والی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں خاتون سمیت دو افراد جاں بحق اور 80کے قریب زخمی ہو گئے۔14اگست کو گڈاپ سٹی کے علاقے میں نہاتے ہوئے دو سگے بھائیوں سمیت3لڑکے ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔14اگست کو جشن آزادی منانے والا 5سالہ بچہ میمن گوٹھ میں کھلے مین ہول میں گر کر جاں بحق ہو گیا۔16اگست کو نارتھ کراچی میں گھر میں ڈکیتی کے لیئے داخل ہونے والے5ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔

20اگست کو شرافی گوٹھ تھانے کی حدود فیوچر موڑ کے قریب ملزمان کی فائرنگ سے فارن سیکورٹی سیل میں تعینات پولیس اہلکار زاہد جاں بحق ہو گیا۔27اگست کو اورنگی ٹاؤن بخاری کالونی میں شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سے 12سالہ بچہ عمر جاں بحق ہو گیا۔ 31اگست کو الفلاح تھانے کی حدود گولڈن ٹاؤن میں ناراض بیوی کو منانے کے دوران شوہر نے فائرنگ کر کے بیوی کو قتل کرنے کے بعد خود کی بھی جان لے لی۔31اگست کو بلدیہ مواچھ گوٹھ میں مین ہول میں گر کر 4سالہ بچی عمرہ بلوچ جاں بحق ہوگئی۔

5ستمبر کی شب نارتھ ناظم آباد میں ملزمان کی فائرنگ سے مدرسے کے استاد خرم شہزاد زخمی ہو ئے جو بعد ازاں دوران علاج جان بحق ہو گئے۔7ستمبر کو سرجانی کے علاقے میں جماعت اسلامی کے کونسلر حبیب کو قتل کر دیا گیا۔8ستمبر کو شریف آباد کے علاقے میں پڑوسیوں کے جھگڑے میں فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق ہو گئے۔ 9ستمبر کو صدر کیپری سینما کے قریب ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ کر کے پاکستان کوسٹ گارڈز کے اہلکار بلال کو قتل کر دیا گیا۔12ستمبر کو گلستان جوہر بلاک 15 میں ملزمان نےفائرنگ کر کے عالم دین اور مہتمم جامعہ ابی بکر اسلامیہ مولانا ضیاء الرحمٰن کو قتل کر دیا،پولیس نے قتل میں ملوث چار ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

24ستمبر کو کورنگی ویٹا چورنگی کے قریب مسلح ڈاکوؤں کی فائرنگ سے باپ اور کمسن بیٹی جاں بحق ہو گئے،مقتول مقتول پاکستان نیوی کا ملازم تھا۔ 25 ستمبر کو ناظم آباد میں ماں اور بیٹے کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں کنویں میں پھینک دی گئیں،بعد ازاں پولیس نے واقعہ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ 28 ستمبر کو سپر ہائی وے پر بیرون شہر سے آنے والی بس کے45مسافروں کو مسلح ڈکیتوں نے لوٹ لیا۔30ستمبر کو اسٹیل ٹاؤن تھانے کی حدود سومار گوٹھ میں اسٹیٹ ایجنسی پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہو گئے۔8اکتوبر کو سپر ہائی وے پرنامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے پولیس افسر عامر علی جاں بحق ہو گیا۔

9 اکتوبر کو سعودآباد پولیس نے دسویں جماعت کی طالبہ کو حراساں کرنے میں ملوث سرکاری اسکول کے پرنسپل کو گرفتار کر لیا۔23اکتوبر کو اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں بینک سے رقم لیکر نکلنے والےارسلان نامی نوجوان کو ڈاکوؤں نے دس ہزار روپے لوٹنے کی خاطر قتل کر دیا۔24اکتوبر کو سی ٹی ڈی نے بین الااقوامی شہرت یافتہ قوال امجد صابری کے قتل سمیت دہشت گردی کے واقعات کی ہدایت دینے والے دہشت گرد حافظ قاسم رشید کو گرفتار کرنے کا دعوٰ ی کیا۔

29 اکتوبر کو سعودآباد پولیس نے مقابلے کے بعد چار ڈاکوؤں کو ہلاک کر دیا۔4 نومبر کو بلدیہ ٹاؤن میں نامعلوم سمت سے آ کر گولی لگنے سے 5سالہ بچی عنزیلہ جاں بحق ہو گئی۔12نومبر کو ڈیفنس فیز8عمار ٹاور میں فلیٹ سے قراۃ العین نامی خاتون کی گولی لگی لاش ملی،واقعہ کو شوہر سے خودکشی جبکہ خاتون کے والد نے قتل قرار دیا۔12نومبر کو اورنگی ٹاؤن سیکٹر ساڑھے گیارہ میں ملزمان کی فائرنگ سے مسجد کے مؤذن اور نعت خوان رحیم اللہ جاں بحق ہو گئے۔12نومبر کو نیو کراچی میں لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر ڈاکؤں کی فائرنگ سے سیکورٹی گارڈ جاںبحق ہو گیا۔ملزمان 10لاکھ روپے سے زائد کی رقم چھین کر فرار ہو گئے۔

17نومبر کو ڈیفنس میں خالی پلاٹ میں رکھے ڈرم سے وزیر مائی عرف حسینہ نامی خاتون کی تشدد زدہ لاش ملی۔18نومبر کو کورنگی میں شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 14سالہ لڑکا عریب شاہ جاں بحق ہو گیا۔18نومبر کو سچل کے علاقے میں بائیو مکینیکل انجینئر صہیب نثار کے قتل میں ملوث اسکے دوست نے پولیس چھاپے کے دوران خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔24 نومبر کو میٹھادر تھانے کی حدود میں پولیس مقابلے میں دو ڈاکو ہلاک اور پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔25نومبر کو ڈپٹی مئیر کراچی سلمان عبداللہ مراد کی یوسی میں دو سالہ بچی گٹر میں گر کر جاں بحق ہو گئی۔26نومبر کو سی ٹی ڈی نے ملک شام سے تربیت لیکر آنے والے سابق پولیس اہلکار سمیت دو ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔

3دسمبر کو اسٹیل ٹاؤن پولیس نے شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملوث 2 پولیس اہلکاروں سمیت تین ملزمان کو گرفتار کر لیا۔پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان نے شہری کو اغوا کرکے 19 لاکھ روپے تاوان وصول کیا۔ 5 دسمبر کو اورنگی ٹاؤن اور نارتھ ناظم آباد میں ڈاکوؤوں کی فائرنگ سے فوڈ ڈیلیوری بوائے سمیت 2افراد جاں بحق ہو گئے۔7دسمبر کو گلستان جوہر میں ڈکیتوں کی کار پر فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک ہوگیا، جسے اسپتال لے جاتے ہوئے کارالٹ جانے کے نتیجے میں دوسرا بھائی بھی زخمی ہوا۔ جاں بحق نوجوان کی شناخت 25سالہ مرتضیٰ حسین رضوی ولد اختر حسین رضوی جبکہ اسکے بھائی کی 27سالہ علی حسین رضوی کے نام سے کی گئی۔

11دسمبر کو نیو کراچی میں پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میںراہگیر خاتون رحمیدہ زوجہ رفیق جاں بحق ہوگئی ،پولیس نے ایک ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کرلیا ۔11دسمبر کو مچھر کالونی میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں پلاٹ کے تنازعہ پر جھگڑے کے دوران فائرنگ سے 3افراد ہلاک ہو گئے۔ 15دسمبر کو غریب آباد انڈر پاس پر دوران ڈکیتی مزاحمت پر ایم کیو ایم پاکستان رابطہ کمیٹی کی ممبر رخشندہ جاں بحق ہو گئیں۔ 16دسمبر کو ناظم آباد انکوائری آفس کے قریب کار پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور خاتون زخمی ہو گئی۔16دسمبر کو ملیر سٹی کے علاقے میں شوہر نے بیوی کو گولی مارنے کے بعد خود کو بھی گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔18دسمبر کو مچھر کالونی میں گیس سلنڈر دھماکے میں دو منزلہ رہائشی عمارت گرنے سےبچی سمیت3افراد جاں بحق اور17زخمی ہو گئے۔

سندھ پولیس کے ریکارڈ مطابق سال 2023 میں پولیس کے21 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ 3158 پولیس مقابلوں کے دوران 1726 جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ہوا۔ پولیس مقابلوں اور چھاپہ مار کاروائیوں کے دوران 19803 ڈکیت/ملزمان،93 دہشت گرد،08 ٹارگٹ کلرز،28 نوٹیفائیڈ ڈکیت،26 ہائی وے ڈکیت،38 اغواء کاروں سمیت26914 مفرور جبکہ 16135 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ 

پولیس مقابلوں، چھاپہ مار ایکشن کے دوران278 ڈکیت/کریمنلز،03 دہشت گرد،04 نوٹیفائیڈ ڈکیت،03 ہائی وے ڈکیت ایک اغواء کار ہلاک ہوا۔کراچی پولیس رینج کے مختلف اضلاع میں1080 پولیس مقابلوں میں10449 ملزمان،ایک دہشت گرد،ایک ٹارگٹ کلر،ایک نوٹیفائیڈ ڈکیت،20 ہائی وے رابرز،23 اغواء کار جبکہ 1515 اشتہاری اور 9090 مفرور ملزمان گرفتار ہوئے جبکہ شہر بھر سے 1005 جرائم پیشہ گروہوں کو ختم کیا گیا۔

سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (CTD) نے 05 پولیس مقابلوں میں 167 ڈکیت/کریمنلز،87 دہشت گردوں،7 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا ، سی ٹی ڈی سے فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کراچی میں 129ڈکیت/کریمنلز،ایک دہشت گرد،3 ہائی وے رابرز ہلاک ہوئے۔

کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کے نتیجے میں ہونیوالے 188 پولیس مقابلوں میں 364 ڈاکوؤں کو مجموعی طور پر گرفتار کیا گیا جن میں رنگے ہاتھوں گرفتار کیئے جانیوالے 136 ڈاکو شامل ہیں۔ان گرفتاریوں کے نتیجے میں 52 ڈکیت گینگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوا جبکہ پولیس مقابلوں کے دوران 40 ڈاکو ہلاک بھی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق کچہ آپریش کے دوران 1883 اشتہاری اور 1549 مفرور ملزمان بھی گرفتار کیئے گئے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید