• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈکیتی، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ

غربت، معاشی بحراناور بڑھتی مہنگائی کی وجہ سےشہر قائد میں ڈکیتی، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی مزید بڑھتی ہوئی تازہ لہر نے شہریوں خصوصاً تاجروں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے، شہر میں مسلح لٹیرے دندناتے پھرتے ہیں، جبکہ پولیس کی ناقص کارکردگی سے مایوس شہریوں نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت خود اسلحہ اٹھا کرڈاکووں کاقلع قمع کرنے کی ٹھان لی۔گزشتہ دنوں جرائم پیشہ عناصر نے تاجر سمیت4 سے زائد شہریوں کی قیمتی جانیں لے لیں۔ 

سرگرم ڈاکووں کی واراتوں سے تنگ شہریوں نے بھی اب مجبور ہو کر لوٹ مار کرنے والے 5 ڈاکووں کا قلع قمع کر دیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی پولیس کے یومیہ بنیاد پر مبینہ مقابلوں میں درجنوں اسٹریٹ کرمنلز کی زخمی حالت میں گرفتاری کے دعوؤں کے باوجود دن بدن وارداتوں میں اضافہ کیوں نظر آرہا ہے؟ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ، کراچی پولیس چیف کا جرائم میں کمی آنے کا دعویٰ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ڈکیتی اور راہزنی کی سب زیادہ وارداتیں ضلع شرقی، غربی اور وسطی میں رونما ہوئیں۔ 

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس اب تک 600 سے زائد شہری قتل وغارت گری کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں جو المیہ سے کم نہیں۔ پولیس کے انتہائی باوثوق ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر میں جرائم میں اضافے کی نئی لہر حالیہ دنوں میں جیل سے ضمانتوں پر رہا ہونے والےجرائم پیشہ اور ڈاکووں کے تازہ گروپ کے علاوہ بیرون شہر سے آئے ہوئے کراچی میں مقیم اور پولیس کو مطلوب جرائم پیشہ ملزمان بلاخوف کراچی کے مختلف علاقوں میں وارداتوں میں ملوث ہیں جو رات تو کجا دن دھاڑے بھی ذرا سی مزاحمت پر جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ عوام کسی بھی بڑی واردات کے بعد پولیس افسران کا رٹا ہوایک جملہ کہ جرائم پر جلد قابو پالیا جائے گا، سن سن کر اب تھک چکے ہیں۔ 

گزشتہ دنوں نیپئر تھانے کی حدود اولڈ سٹی ایریا ٹمبر مارکیٹ موٹر سائیکل سوار2 مسلح ملزمان نے دن دھاڑے لکڑی کے تاجر کی دکان میں گھس کر فائرنگ کر کے شہزاد جعفرانی کو بھتہ نہ دینے کی پاداش میں قتل کردیا اور فرار ہو گئے، بعد ازاں مبینہ طور قتل کی ذمہ داری لیاری گینگ وار وصی اللہ لاکھو گروپ نے میڈیا پر قبول کرلی، جبکہ ایس ایس پی سٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ واقعہ بظاہر ٹارگٹ کلنگ کا معلوم ہوتا ہے۔ 

لواحقین کے بیان کے بعد ہی صورتحال واضح ہو گی ،پولیس وقوعہ کے محرکات جانے کے لیےہر زاویہ سے تفتیش کررہی ہے، مارکیٹ کے صدر ا وردیگر افراد سے ملنے والی معلومات سے بھتے سے متعلق کوئی شکایت سامنے آئی، اور نہ ہی مقتول کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق فی الحال سامنے آیا ہے، جبکہ ٹمبر مارکیٹ اور آئرن مارکیٹ میں کوئی بھتے کی پرچی اور نہ ہی کوئی کال آئی، تاجر رہنما شرجیل گوپلانی کا کہنا تھا کہ مقتول کافی عرصہ سے لکڑی کے کاروبار سے وابستہ تھا واردات کےوقت د کان میں3 لوگ موجودتھے، 2 ملزمان نے دکان میں گھس کر صرف مقتول شہزاد جعفرانی کو نشانہ بنایااورجاتے ہوئے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

دوسری جانب سرجانی ٹاؤن تھانے کی حدود خدا کی بستی میں اینٹوں کے تھلے پر لوٹ مارلوٹ مار کر نے والےنامعلوم 2ڈاکو عوام کےہتھے چڑھ گئےاور تشدد سے زخمی ہوگئے ، اسی دوران ایک شہری نے لائسنس یافتہ پستول سے فائرنگ کر کے دونوں ڈاکووں کو ہلاک کردیا، پولیس نے موقع پر پہنچ کرجائے وقوعہ سے 2 پستول، موبائل فونز اور موٹر سائیکل برآمد کر کےہلاک ہو نے والے ڈاکووں کی لاشیں عباسی اسپتال منتقل کردیں ۔اورنگی ٹاؤن نمبر ایک قذافی چوک کے قریب 3 نامعلوم مسلح ڈاکووں نے چارے کی د کان میں گھس کردکان کے مالک 30سالہ شہروز عرف ببلو ولد اسلم سےلوٹ مار کی اور مزاحمت پر فائرنگ کر کےاسے قتل کردیا، فائرنگ کی آواز سن کر عوام بڑی تعداد میں جمع ہوگئی، مشتعل عوام نے ڈاکووں کو گھیرلیا اورتشدد کر کے تینوں کو ہلاک کردیا۔ 

مقتول کےوالدکا کہنا ہے کہ شہروز 4 بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا ، مقتول کے دوست کا کہنا ہے کہ شہروز کی دکان پر ماضی میں بھی ایک درجن سے زائد بار ڈکیتی کی وارداتیں ہوچکی ہیں لیکن پولیس نے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی، پولیس ہلاک ہو نے والے ڈاکووں نےکےقبضے سے 3 پستول بر آمد کر لیے۔

کراچی پولیس چیف خادم حسین رند اس جانب توجہ دیں کہ کہ آخرروشنیوں شہر کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کون ملوث ہے۔ تفصیلات کے مطابق 13 دسمبر کو گلستان جوہر میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دونوں ڈاکوں کے حوالےسے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ڈاکو پنجاب پولیس کو 60 سے زائد مقدمات میں مطلوب اور کراچی میں شناخت بدل کر وارداتیں کرتے تھے، مارے جانے والے ڈاکو جعلی شناختی کارڈ لے کر گھومتے تھے، ملزمان سے برآمد ہونے والے شناختی کارڈ پر رضوان اور قلب علی کے نام درج تھے، جبکہ ہلاک ہونے والے دونوں ڈا کوؤں کی اصل شناخت محمد رضوان اور آصف نور کے نام سے ہوئی ہے ، ملزمان کے خلاف لاہور، قصور، پھول نگر کے مختلف تھانوں میں 62سے زائد مقدمات درج ہیں، دونوں ڈاکو پنجاب میں ڈکیتی ، راہزنی ، اسٹریٹ کرائمز اور اسلحے کے متعدد مقدمات میں گرفتار ہو چکے ہیں ، ملزمان گزشتہ کئی سالوں سے کراچی میں جعلی شناختی کارڈ بنا کر کراچی میں مقیم تھے۔ یہاں بھی ڈکیتی کی کئی وارداتیں کر چکے تھے۔

پولیس ذرائع کامزید کہنا ہےکہ مارے گئے ڈاکوؤں نے چند روز قبل گلستان میں ڈکیتی مزاحمت پر مرتضی رضوی نامی شہری کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، ملزمان کے قبضے سے ملنے والے اسلحہ کی گولیوں کے خول مقتول مرتضی کی لاش کے پاس سے ملنے والی گولیوں سے خول سے میچ کر گئے ہیں، لواحقین دونوں ڈاکووں کی لاشیں پنجاب لے کر چلے گئے، جبکہ 26دسمبرکو شریف آباد پولیس کے غریب آباد ریلوے پھاٹک کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں زخمی حالت میں گرفتارہو نے والے ملزم عارف علی کے حوالے سے پولیس کا دعوی ہے کہ، ملزم کاآبائی تعلق ملتان سے ہے جو عارف علی راجپوت کے نام سے خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے ملزم عارف علی 2016 سے متعدد بار پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوچکاہےجس کے خلاف جمشید کوارٹر، رضویہ، فیروز آباد سمیت مختلف تھانوں میں11مقدمات درج ہیں۔

شاہ لطیف پولیس کے مطابق قائد آباد ملیر ندی گلستان سوسائٹی کے قریب مبینہ مقابلے میں زخمی حالت میں گرفتار ہو نے والا ملزم اکبر عرف لوٹا شیدی اور اس کے ساتھی زاہد کا تعلق جیکب آباد سے ہے جو ماضی میں بھی پولیس پر حملوں میں ملوث ہیں ۔ ناظم آباد پولیس کے ہاتھوں مجاہد کالونی مبینہ پولیس مقابلے میں زخمی حالت میں گرفتار ہو نےوالے ملزم اسحاق عرف چوزہ کا تعلق ہزارہ سے ہے۔

پابندی کے باوجود شہر میں ہوائی فائرنگ سے جانوں کے ضیاع اور زخمی ہونے کے واقعات کو روکنے میں تاحال ناکام ہے، البتہ سابق آئی جی سندھ کی جانب سےہوائی فائرنگ میں ملوث ملزمان کی گرفتاریاں کی جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں شاہراہِ نور جہاں تھانے کی حدود نصرت بھٹو کالونی میں شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سے ایک شخص کےجاں بحق ہوگیا، پولیس نے دولہا سمیت 2ملزمان عارف ولد محمد صدیق اور دولہا عمر ولد محمد نذیر کو گرفتارکر لیا، پولیس کے مطابق گھر سے بارات نکلتے وقت ہوائی فائرنگ سے قریبی واقع مکان کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک شخص سعد حسین شاہ ولد ریاض حسین شاہ گولی لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔ 

پولیس نے ملزمان کے قبضے سے ہوائی فائرنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد کر کے مقدمہ درج کر لیا، جبکہ جمشید کوارٹرز تھانے کی حدودجہانگیر روڈ میں واقع شادی لان میں شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سے گولی اور چھررے لگنے سے4افراد 14سالہ عبدالہادی ولداعجازاحمد ،24سالہ اسرار احمد ولد ناصر احمد ،23سالہ حمزہ ولد ناصراور26سالہ عبدالباسط ولد اعجاز حسین زخمی ہوگئے، پولیس نے موقع پر پہنچ کردولہا، دولہا کے والد،چچا اور ہال کے مینیجر کو حراست میں لے کرتھا نے منتقل کردیا۔

دہشت گردوں کی کینٹ اسٹیشن کو بم سے اڑانے کی کوشش ناکام ہوگئی ،خدا کاشکر ہے کہ ٹرین خالی تھی اور ڈیوائس میں خرابی کے باعث بم پھٹ نہ سکا اور کینٹ اسٹیشن بڑی تباہی سےبچ گیا۔ پشاور سے کینٹ اسٹیشن پہنچنےوالی عوام ایکسپریس سے بیگ سے بم برآمد ہوا، بم کی اطلاع پر کینٹ اسٹیشن پرخوف و ہراس پھیل گیا ا و ر بھگڈر مچ گئی ۔ ریلوے کا عملہ جب خالی ٹرین کی صفائی کےلیے بوگی نمبر 5 میں داخل ہوا توسیٹ نمبر 71-72 کے درمیان سے مشکوک بیگ دیکھائی دیا، جس میں سے تاریں بھی نظر آرہی تھیں، عملے نے ریلوے پولیس اورافسران کو مطلع کیا، افسران نےپولیس اور بی ڈی یونٹ کو طلب کر لیا جس نے مشکوک بیگ کو کھولا تو اس میں سے بم برآمد ہو ابم ڈسپوزل یونٹ نے 3 گھنٹے کی جدجہد کے بعد بم کو 2کنٹرول بلاسٹ کے ذریعےناکارہ بنا دیا۔

ڈسپوزل یونٹ کے مطابق بم دیسی ساختہ اور 5کلووزنی تھا جس میں 2کلوبارودی مواد تھا ، بم میں موٹر سائیکل کی بیٹری استعمال کی گئی تھی۔بم سیاہ اور لال رنگ کے اسکول بیگ میں رکھا گیا تھا۔رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کینٹ اسٹیشن پہنچ کر پلیٹ فارم نمبر ایک کو گھیرے میں لے لیا۔

سی ٹی ڈی پولیس کے افسر راجہ عمر خطاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بم کوٹائم ڈیوائس سے منسلک کیا گیا تھا، بم بلاسٹ ہو نےکے نتیجے میں اسٹیشن پر آگ لگ جاتی، فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ بم کس مقام پر ٹرین میں رکھا گیا تھا،کینٹ اسٹیشن پہنچنے تک راستے میں کئی اسٹیشن آتے ہیں۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے کہاکہ بم کا ممکنہ ہدف شمالی سندھ تھا، بم کا ٹائمر دن 12 بجے سیٹ تھا، دوپہر بارہ بجے ٹرین سکھریا روہڑی کے قریب تھی ۔ریلوے حکام کے مطابق پشاور سے کراچی تک 62 اسٹیشن آتے ہیں۔ بڑے اسٹیشنوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ کسی چھوٹے اسٹیشن سے دہشت گرد چڑھا ہوگا۔

ملک کے کسی سر کار ی حتیٰ کہ چھوٹے نجی اداروں میں بھی بھرتی کےلیے پو لیس کاکریکٹر سرٹیفیکٹ لازمی شرط ہے۔ اس کے بر عکس بلاتصدیق کرمنل ریکارڈ کےحامل ٹریفک پولیس میں بھرتی ہونے والے 30 امیدوار کا کرمنل ریکارڈ سامنے آناسوالیہ نشان ہے؟ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے مذکورہ 30 امیدواروں کو پولیس میں بھرتی ہونے سے روک کر ڈس کوالیفکیشن نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈسپلنس فورس کہلانے والی پولیس میں بھرتی ہو نے والےجرائم پیشہ افراد پو لیس کے ماتھےپر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ ان کی صرف ڈس کوالیفکیشن سے کام نہیں چلے گا، اس حوالے اس کے محرکات اور اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی اور محکمہ جاتی کارروائی نا گزیر ہے، اگر اس حوالے سے شفاف تحقیقات کی گئی تو کئی پردہ نشین بےنقاب ہوجائیں گے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید