• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں ماہ کی6 تاریخ کو خواجہ اجمیر نگری تھانے کی حدود نارتھ کراچی سیکٹر 5C/4سے رات گئے ایک خبر سامنے آئی کے40 سالہ عارف نے خود پر اور اپنے تین بچوں سمیت پیٹرول چھڑک کر آگ لگالی ، عارف اور اس کے معصوم بچے بری طرح جھلس کر شدید زخمی ہوگئے،واقعہ کی اطلاع ملتےہی اہل محلہ جمع ہوگئے اور اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھا کر چاروں کو فوری طبی امداد کے لیے سول اسپتال برنس وارڈ منتقل کر دیا۔

عارف اور اس کی بڑی بیٹی پانچ سالہ ایمن سول برنس وارڈ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دوران علاج ہی دم توڑگئے تھے، بعد ازاں چار سالہ حوریہ 5 دن تک موت سے جنگ لڑتے لڑتے 11 مارچ کوزندگی کی بازی ہار گئی، اس کی موت کے اگلے دن سب سے چھوٹا بچہ تین سالہ غلام حسین بھی دوران علاج زندگی کی بازی ہار گیا۔

پولیس کے مطابق متوفی عارف نے دو شادیاں کیں تھیں، پہلی شادی 2010 میں آمنہ کے ساتھ ہوئی، جس سے اس کی دو بیٹیاں 12 سالہ دعا اور 7 سالہ اقراء ہیں ۔7 سال قبل عارف نے اپنی رشتہ دار خاتون کلثوم کے ساتھ دوسری شادی کی اور نیو کراچی 5Gمیں رہائش پزیر اختیار کر لی۔7 ماہ قبل دوسری بیوی کا انتقال ہوگیا تھا۔ 

آگ سے جھلس کر جان بحق ہونے والے تینوں بچوں کی ماں مرحومہ کلثوم تھی۔عارف اپنی دوسری بیوی کے انتقال کے بعد گذشتہ 6 ماہ سے پہلی بیوی کے ساتھ رہائش پزیر تھا۔ واقعہ کے وقت وہ نارتھ کراچی 5C/4میں ہی تھا۔خواجہ اجمیر نگری پولیس کا کہنا ہے کہ ، عارف اپنے تین بچوں کو لے کرگھر کے قریب گراؤنڈ میں گیا ، جہاں اپنے اور بچوں پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لی تھی۔ عارف فروٹ کا ٹھیلا لگاتاتھا۔

متوفی کے بھائیوں نے الزام عائد کیاہے کہ ہمارے بھائی اور اس کے بچوں کو پہلی بیوی نے اپنے بھائی ظہیر کے ساتھ مل کر قتل کیا ہے، متوفی عارف کے بھیتجے وقاص نے ایس پی گلبر گ کو اس حوالے سے بذریعہ ڈاک، 11 مارچ 2024 کو ایک خط ارسال کیا،جس میں اُس نے لکھا کہ، مورخہ 6 مارچ 2024 کی رات کے تقریباڈیڑھ بجے ان کے عارف چچا کی پہلی بیوی اور اس کےبھائی نے چچا کے ساتھ بدتمیزی کی انہیں ڈرایا دھمکایا اور پھر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی ، جس سے وہ بہت زیادہ جھلس گئے۔ 

خط میں یہ بھی درج ہے کہ اسپتال میں چچا محمد عارف نے انتقال سے قبل اسےاپنے ایک پڑوسی عادل کی موجودگی میں یہ بات بتائی تھی کہ’’ میری بیوی اور اس کے بھائی ظہیر نےمجھے اور میرے بچوں کو جان سے مارنے کے لیےہم پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی ہےـ‘‘۔ اس بیان کے تقریباََ 4 گھنٹے بعد چچاکا انتقال ہوگیا،جبکہ دو بیٹیاں حوریہ اور ایمن چچا کے انتقال کے دو دن بعد 8 مارچ کو انتقال کرگئیں۔

11 مارچ کو جب یہ درخواست ایس پی گلبرگ کو بھیجی گئی تھی، اس وقت تک عارف کا سب سے چھوٹا بیٹا غلام حسین تشویشناک حالت میں اسپتال میں زیر علاج تھا۔ایس پی گلبرگ کو لکھے گئے خط میں درج ہےکہ اس سلسلے میں وہ خواجہ اجمیر نگری تھانے گئے اور اس سلسلے میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی ، لیکن پر متعلقہ ا فسران نے آمنہ اور اس کے بھائی ظہیر کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے درخواست وصول نہیں کی، متوفی کے بھتیجے کی جانب سے ایس پی گلبر گ کو لکھی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ، واقعے کو خودکشی کا رنگ دےکر حقیقت چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے،چچاکی پہلی بیوی اور اس کے بھائی سے مذکورہ واقعہ سے متعلق تفتیش کی جائے اوران کے خلا ف مقدمہ درج کرکے واقعے کی باقائدہ تحقیقات کی جائے اور ملزمان کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔

متوفی کی اہلیہ آمنہ کاکہنا ہے کہ،’’ واقعے کے روز میرے علاوہ میری امی، بھابھی، اور میری دو نوں بچیاں گھر پرتھے ،عارف کمبل اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، نہیں معلوم انہیں کیا ہوا کہ اچانک باہر نکلے ان کے پیچھے ایک ایک کرکے تینوں بچے بھی گئے بعدازاں پتہ چلا کہ انہوں نے خود کو اور بچوں کو آگ لگالی، مجھے سمجھ نہیں آرہا انہوں نے ایسا کیوں کیا۔7 سال قبل عارف نے دوسری شادی کرلی تھی اور وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہ رہے تھے ،6 ماہ قبل دوسری بیوی کے انتقال کے بعد ہماری صلح ہوگئی اور ہم ساتھ رہنے لگے ،واقعہ سے کچھ دن پہلے وہ کچھ عجیب و غریب باتیں کررہے تھے ،ایسا لگتا تھا کہ کسی نے عارف پر کوئی جادو کیا ہے،واقعے والے دن میں نے شوہر سے باہر سےکھانا منگوانے کا کہا توجواب دیا کہ میرے پاس صرف 2سو روپے ہیں میں نے اپنے پاس سے سو روپے ملا کر حلیم روٹیاں منگوائیں۔ آمنہ کا مزید کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بھائی اور بھتیجے ہم پر کیوں الزام لگارہے ہیں۔‘‘

متوفی کے بھائیوں نے نمائندہ جنگ کو بتایاکہ ،’’لوگوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ، ان کے بھائی کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے جس کی وجہ سے اس نے خود کو اور بچوں پر پیٹرو ل چھڑک کر آگ لگالی۔ واقعے کو روز رات 9 بجے ہماری بھائی سے بات ہوئی تھی، انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی ،اور وہ مالی طورپر بھی مطمئن تھے۔ وہ فروٹ کا ٹھیلہ لگاتے تھے ،جبکہ رمضان میں فروٹ فروخت کرنے کا ارادہ تھا۔ 

حال ہی میں 3 لاکھ روپے کی سوزوکی بھی خریدی تھی اور اگر وہ کسی کے مقروض تھے تو سوزوکی کیسے خریدتے، پھر ابھی تک قرض دار سامنے کیوں نہیں آئے۔ ان کی موت پر جب ہم نے تھانے میں پولیس سے اپنے بھائی کی سابقہ بیوی اور اس کے بھائی پرمقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تو پولیس نے اُلٹاہمیں ہی بند کرنے کی دھمکیاں دیں، یہ کہاں کا انصاف ہے۔‘‘

اس سلسلے میں ہم نے ( نمائندہ جنگ) خواجہ اجمیر نگری تھانے کے ایس ایچ او نواز گوندل سے معلومات حاصل کیں تو انہوں نے کہا کہ،’’ کیسے کسی کے خلاف مقدمہ درج کرلیں، اگر کوئی مقدمہ ہوتاہے تو وہ متوفی عارف کے خلاف بنتا، اس نے کیوں اپنی اور اپنے بچوں کی جان لی۔ واقعہ کے تفتیشی آفیسر نیاز حسین شیخ نے بتایا کہ ایس پی نے واقعے کی انکوائری کا حکم دیا ہے، میں نے تمام فریقین کو بلایا ہے ،پوچھ گچھ کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 

حیرت ہے کہ4 افراد کی زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے اور پولیس معاملہ کی جانچ کرنے میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے، اگر متوفی کے لواحقین کو کسی پر شک ہے تو پولیس ان کے شک کو ختم کرے اور جو وہ نشاندہی کررہے ہیں، اس کی روشنی میں تحقیقات کرکے حقیقت کو سامنے لائیں کی ،یقیناََ معاملہ ایک معمہ بن گیا ہے۔ اعلیٰ حکام کو چاہئے کہ، باپ اور 3معصوم بچوں موت کی تحقیقات کسی دوسرے آفیسر کے سپر د کرکے حقائق کو سامنے لائیں، تاکہ دونوں فریقین کی تسلی ہوسکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید