کہیں نہ پھر دیر ہوجائے

February 07, 2023

تحریر: رفیعہ ملاح
ملک میں بڑھتی بدامنی، بے روزگاری اور کئی دیگر مسائل سے دوچار ہمارا معاشرہ ایک ایسی بے حسی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا نتیجہ صرف تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اور شاید ایسے نتائج کا احساس ہونے کے باوجود ہم بطور قوم سنجیدہ کردار ادا نہیں کر رہے۔ ہمارا مستقل ہماری نوجوان نسل ہے اور اس نوجوان نسل پر سوشل میڈیا کے مثبت سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پر یہ ڈرامے اور شارٹ اسٹوریز عام ہیں کہ کسی بھی پریشانی سے نجات کا واحد راستہ منشیات ہیں۔ گھریلو پریشانی، بے روزگاری یا اپنے تعلیمی ادارے سے کم نمبرز لینے سے لیکر محبوب یا محبوبہ کے روٹھ جانے تک کے تمام مسائل سے فرار کا جو حل دکھایا جاتا ہے وہ سگریٹ نوشی سے لیکر ہیروئن کا استعمال ہے۔ اور پھر اس ڈرامے کے بعد ڈرامے بازی کرتے ہوئے ہماری نوجوان نسل منشیات کی لت میں پڑ جاتی ہے اور اس وقت تو بہت ہی بڑی تعداد میں ہمارے نوجوان لڑکے و لڑکیاں منشیات کے استعمال کے عادی بن چکے ہیں۔ یہ منشیات فروش نہ جانے کس کی گود میں پل رہے ہیں کہ وہ اتنے با اثر ہیں کہ ان کی منشیات اب بس اڈوں، گلیوں اور سڑکوں سے نکل کر تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ اب ہائی اسکولز سے لیکر کالج و جامعات کے طلبہ و طالبات قوم اور وطن دشمن منشیات فروشوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل، ہم نے تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت کے انسان دشمن عمل کی روک تھام کیلئے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ ملکر ایک پروگرام بھی کیا تھا جس میں ہمارا ہدف نجی تعلیمی ادارے تھے۔ چوںکہ میں محکمہ تعلیم میں نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن اور ڈائریکٹوریٹ میں ملازمت کرتی ہوں تو ہم نے کچھ نجی اسکولز کی انتظامیہ کو تعلیمی اداروں میں منشیات کی بڑھتی لعنت پر قابو پانے کے حوالے پروگرام منعقد کیا۔ بہت ہی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے بڑے شہروں میں جو بھی بڑے نام والے تعلیمی ادارے ہیں ان کے طلبہ و طالبات میں نشے کی عادت بڑھنے لگی ہے۔ شوق سے سگریٹ، چرس، افیون، آئس اور ہیروئن کا نشہ کرنے والے چھوٹی عمر کے بچے، جو مستقبل کے معمار ہیں، نشے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اسکولز، کالجز اور جامعات کے ارد گرد کچھ کیبنز اور کنٹینز قائم ہیں وہاں چرس کے بنے بنائے سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں اس کے علاوہ کراچی میں سرعام شیشہ پوانٹس جو قائم ہیں، جو اب منشیات کے اڈے بن چکے ہیں۔ شام کے اوقات اکثر نوجوان لڑکے و لڑکیاں ان کا رخ کرکے یہاں موجود سموکنگ پوائنٹس پر مخصوص منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ مخلتف فلیورز میں موجود منشیات سے خود کو پرسکون اور پر مسرور سمجھنے والی ہماری نسل شاید بے خبر ہے کہ وہ تباہی طرف بڑھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس تباہی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ خود اپنے پیسوں سے اپنی تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ حیرانی ہے کہ ملک میں انسداد منشیات کے کتنے ادارے ہیں، ان میں کتنے ملازمین ہیں اور یہ لوگ کتنی تنخواہ لیتے ہیں، ان کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ منشیات کے استعمال کی روک تھام کیلئے کردار ادا کریں لیکن ملک میں منشیات ایسے کھلے عام فروخت ہوتی ہے جیسے آٹا اور چینی۔ کیا اس صورتحال پر قابو پانے والا کوئی نہیں؟ یہ ادارے منشیات کی فروخت کو کیوں روک نہیں پاتے، اس کا جواب ان اداروں کے ذمہ داران کو دینا چاہئے۔ بطور والدین ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ بطور ایک ماں، میں ان سماجی برائیوں سے بیحد پریشان رہنے لگی ہوں، اور رہنا بھی چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ مرد بیچارہ سارا دن محنت کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے تو اس کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ وقت ان کو بھی نکالنا چاہئے لیکن یہ ایک سچ ہے کہ بچوں کو ماں سے زیادہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے۔ مائیں تو بچوں کے عیب کو اپنے اندر چھپا لیتی ہیں اور ان کو صرف بچوں کی خوبیاں ہی نظر آتی ہیں پھر جہاں بیٹھتی ہیں وہاں بچوں کی تعریف کے پل باندھتی ہیں۔ یہ ایک سچ ہے ۔ مائوں کو چاہئے کہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں، ان کی پریشان کن کیفیات بھانپتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان سے حال چال معلوم کرے تو شاید یہ بچے کئی برایوں سے بچ سکتے ہیں۔ جو بھی لڑکا یا لڑکی پہلی مرتبہ کوئی نشہ آور چیز استعمال کرتا ہے تو ضرور ان کی طبعی اور جسمانی کیفیت تبدیل ہوتی ہے اور وہ جب کیفیت کی تبدیلی کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو مائوں کو سمجھ جانا چاہئے کہ صورتحال کیا ہے لیکن شاید وہ اسے نظر انداز کرتی ہیں۔ کچھ شوق میں کچھ نام نہاد مجبوری میں اور کچھ دوستی یاری میں اس منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں اور یہ پھر یہی منشیات ان طلبہ کے روشن مستقبل کی راہوں میں موجود روشنیوں کو تاریکی میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ ان بچوں کی غیر فطری حرکات کو نوٹس کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے لیکر والدین تک سب کو مستعد اور چوکنا رہنا چاہئے۔ خدانخواستہ کوئی بچہ اگر اس لت کا شکار ہے تو اس کا فوری طور پر علاج کرانے کیلئے اقدامات کیے جانا چاہئیں۔ چھپانے سے برائیاں مزید بڑھتی ہیں۔ بچوں کے دوستوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ معلوم ہو سکے کہ بچہ کس طرح کے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس کے ساتھ متعلقہ اداروں سے بھی درخواست ہے کہ پاک سر زمین پر موجود منشیات فروشوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر ارض پاکستان کو منشیات سمیت تمام برائیوں سے پاک کیا جائے تا کہ ہمارے روشن مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ بس کہیں دیر نہ ہو ۔