پرویز مشرف کی کہانی

February 08, 2023

ابھی جنرل پرویز مشرف کا تقرر بحیثیت آرمی چیف نہیں ہوا تھا کہ مری میں میاں شہباز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان ایک طویل نشست ہوئی اور واپسی میں انہوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تجویز دی کہ اس عہدے کیلئے سب سے موزوں امیدوار مشرف ہیں حالانکہ سنیارٹی میں غالباً وہ تیسرے نمبر پر تھے۔ انہوں نے 7؍اکتوبر 1998 کو اس عہدے کا چارج لیا، ایک سال بعد 12اکتوبر 1999کومیاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر 9 سال پاکستان کے حکمران رہے۔

اتوار کے روز 5؍ فروری کو جب ان کے انتقال کی خبر آئی تو ماضی کے بہت سےواقعات میرے سامنے آگئے۔جنرل مشرف کا بحیثیت سولجر اور جنرل کیریئر بہت شاندار رہا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب ان پر مشکل وقت آیا تو ان کے ادارے نے ان کا پورا تحفظ کیا، چاہے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہو یا سزا۔ آخری وقتوں میں بھی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ان کو پاکستان لانے کیلئے تیار تھے مگر انہوں نے معذرت کرلی بس اتنی گزارش کی کہ ان کی خواہش ہے کہ انتقال کے بعد ان کا جسد خاکی پاکستان لے جایا جائے۔

مشرف صاحب کی کہانی 1998 سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس کے بعد وہ اس ملک کے اہم ترین عہد ےپر فائز رہے۔ ان کے میاں نواز شریف سے تعلقات چند ماہ بعد ہی کشیدہ ہونا شروع ہوگئے تھے۔ بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی جب بذریعہ بس لاہور تشریف لائے اور پھر مینار پاکستان گئے تو اس پورے دورہ کے دوران مشرف صاحب کے رویے سے میاں صاحب خوش نہیں تھے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی روز واجپائی کی آمد کے وقت جماعت اسلامی نے خاصہ ہنگامہ برپا کیا۔ کچھ عرصہ بعد کارگل ہوگیا اس پر بھی میاں صاحب مشرف سے نالاں نظر آئے۔ ان کے ایک قریبی بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ وہ کبھی کبھار شہبازشریف اور نثار علی خان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے اور شاید اسی لئے جب 12؍اکتوبر 1999 کو انہوں نے جنرل مشرف کو برطرف کرکے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کیا تو دونوں حضرات سے مشورہ نہ کیا، حالانکہ وہ اس وقت وزیراعظم ہائوس میں ہی موجود تھے۔جنرل مشرف نے اپنے تئیں اس کی تیاری کی ہوئی تھی اس لئے سری لنکا جانے سے پہلے بقول جنرل (ر) امجد شعیب انہوں نے جنرل عزیز، جنرل محمود، جنرل احسان اور جنرل عثمانی کو الرٹ کردیا تھا کہ اگر وزیراعظم کی جانب سے کوئی انتہائی قدم اٹھایا جائے تو انہیں کیا کرنا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب اختلافات کی خبریں آرہی تھیں تو مشرف نے شہباز شریف سے ایک ملاقات میں میاں صاحب کو صرف یہ پیغام دیا کہ ’’میں جہانگیر کرامت نہیں ہوں‘‘۔

12؍ اکتوبر کا اقدام آئینی شکنی تھا اور جس انداز میں ہوا ،انتہائی شرمناک تھا ۔چند افسران نے جا کر ایک منتخب وزیر اعظم کو بے دخل کر دیا ۔ نواز شریف کا اقدام غلط ہو سکتا ہے طریقہ کار پر اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کا فیصلہ غیرآئینی بہرحال نہیں تھا۔ مشرف صاحب کے جہاز کو نہ اترنے دینے کی کہانی بھی مختلف افسران اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں مگر اس وقت میرا ایک اسکول کے زمانے کا کلاس فیلو کنٹرول ٹاور پر تھا، جب جہاز لینڈ ہوا۔ مشرف صاحب کے قریبی افسر نے اسی ٹاور کے ذریعہ ان سے گفتگو کی اور یقین دلایا کہ سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔ اس وقت تک ملک میں کوئی نظام نہیں تھا کیونکہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ گرفتار ہوچکی تھی فوج نے کنٹرول تو سنبھال لیا تھا لیکن مارشل لا نہیں نافذ ہوا تھا۔ اسی لئے مشرف نے جب پہلی تقریر کی تو اس سے پہلے قومی ترانہ نہیں سنایا گیا جس کی وجہ PTV کے اطہر وقار عظیم صاحب نے یہ بتائی کہ مشرف صاحب اس وقت صدر تھے نہ وزیراعظم اور نہ ہی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر۔ دو دن بعد جب ہائی کمان کی میٹنگ ہوئی تو مختلف آپشن بشمول مارشل لا لگانے پر غور ہوا ایک اور رائے یہ بھی تھی کہ فوری انتخابات کرادیے جائیں۔ مگر مشرف صاحب تو پہلے ہی اپنا سات نکاتی ایجنڈا قوم کو دے چکے تھے جس کےمعانی یہ تھے کہ وہ بھی اپنا ذہن بنا چکے تھے تاہم پہلا وار میاں صاحب کرگئے لیکن بغیرکسی تیاری کے۔

مشرف صاحب نے اپنے نئے دور کا آغاز میاں نواز شریف پر مقدمہ ہائی جیکنگ قائم کرکے کیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے خود اس مقدمہ میں اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرایا حالانکہ وہ اس کا اہم ترین کردار تھے۔ کراچی کی خصوصی عدالت میں یہ کیس چلا، جناب جسٹس رحمت حسین جعفری جج تھے۔ نواز شریف، شہباز شریف سمیت کئی ملزمان تھے جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں لایا جاتا تھا اور وہ بھی لانڈھی جیل سے۔ جس دن سزا سنائی گئی عدالت اور اردگرد سخت سیکورٹی تھی۔ محترمہ کلثوم نواز اور مریم نواز موجود تھیں۔ جیسے ہی جج نے فیصلے میں میاں صاحب کی عمر قید کی سزا کا اعلان کیا مریم نے کھڑے ہوکر مشرف کے خلاف نعرہ لگایا۔ اب جنرل مشرف نے حکومت طویل عرصہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا جس کے لئے PCO ججزز کی بھی ضرورت تھی اور ہماری اعلیٰ عدلیہ نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جس دن فوج نے ٹیک اوور کیا انہوں نے رات کو اپنے ساتھی ججز کو فون کرنا شروع کیا مگر چند ایک کے سوا کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ شاید ان کے ساتھی بھی ہدایت کا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر 2001 میں ظفر علی شاہ کیس میں عدالت نے نہ صرف 12؍اکتوبر کے اقدام کو جائز قرار دے دیا بلکہ مشرف صاحب کو آئین کی چند شقیں چھوڑ کر ترمیم کا بھی اختیار مل گیا ۔چونکہ مشرف صاحب ایک لمبی اننگ کھیلنےکیلئے آئے تھے لہٰذا ان کے پلان میں سب سے پہلے دونوں اہم سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو سائیڈ لائن کرنا تھا۔ گو کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 12؍اکتوبر کے اقدام کی مشروط حمایت کی مگر فوری الیکشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔ میاں صاحب کو سعودی عرب اور کچھ دیگر دوستوں کی ’’فرمائش‘‘ پر ایک 10 سالہ ڈیل کے ذریعے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ پہلے مرحلے میں مشرف صاحب کو ان کے رفقا نے ’’ریفرنڈم‘‘کا مشورہ دیا بہرحال ان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والوں میں ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان بھی شامل تھے جنہیں جنرل ضیا کے احتساب کی طرح یقین تھا کہ مشرف صاحب میاں صاحب اور بے نظیرکو سیاست سے بے دخل کر دیں گے۔ 2002 کے الیکشن میں انہوں نے کیا بھی یہی مگر عمران کے بجائے ہاتھ گجرات کے چوہدریوں کے سر پر رکھ دیا۔ ابھی یہ ہونا باقی تھا کہ 9/11ہو گیا۔ (جاری ہے)