مبین چوہدری … کچھ باتیں، کچھ یادیں

February 09, 2023

ڈیٹ لائن لندن، آصف ڈار
موجودہ صدی کی پہلی دہائی کے اوائل میں برطانیہ میں پاکستانی نیوز چینلز کی بھرمار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں صحافیوں اورمیڈیا کارکنوں کی تعداد انتہائی محدود تھی۔ اگر لندن کی بات کی جائے تو یہاں ہونے والی تقریبات میں محض چندایک رپورٹرز اور فوٹوگرافرز ہی شریک ہوا کرتے تھے۔ ان میڈیا کارکنوں میں اخبارات کی پالیسیوں اور مقابلے کی فضاسے ہٹ کر بہت زیادہ دوستیاں بھی ہوا کرتی تھیں، میں نے بھی برطانیہ میں اپنی صحافت کا آغاز انہی دنوں میں کیا اور مجھےتقریباً ہر روزکسی نہ کسی ایونٹ میں جانا ہوتا تھا وہاں اکثر علی کیانی مرحوم، مبین چوہدری اور مرتضیٰ علی شاہ سمیت کئی دوستوں سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی، ایونٹ اگر تاخیر سے شروع ہونا ہوتا تو ہم کسی کافی شاپ یا ایسی ہی کسی جگہ بیٹھ کر گپ شپ کر لیا کرتے تھے، علی کیانی کی موت بھی اگرچہ اچانک اور اندازوں کے برخلاف ہوئی تھی مگر مبین چوہدری نے تو اچانک ایک صدمہ دیا اورچل دیا، ایک ہفتہ ہو گیا ہے اس کا جنازہ بھی پڑھ کرآگیاہوں مگریقین نہیں آتا کہ وہ نہیں ہے، اس کے جنازے کے شرکاء کی تعدادسےاندازہ ہوتاہے کہ وہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اورمذہبی کمیونٹیز کے اندر بھی بہت مقبول تھا اوراس کے جانے کارنج سب کو ہی ہے، میری اس کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں زیادہ تربات میڈیاکے نمائندوں کے اتحاد اورکشمیر کی صورتحال کے حوالے سے ہی ہوا کرتی تھی، وہ چاہتا تھا کہ برطانیہ میں میڈیا کے نمائندوں کی ایک ہی تنظیم ہو، دھڑےبندیاں ختم ہوں تاکہ میڈیا کارکنوں کی فلاح و بہبود کیلئے مل کر کام کیا جائے، ان کے معاشی حالات اور اوقات کار کے حوالے سے مالکان اورحکومت پردباؤ ڈالا جائے، اسی جدوجہد کے دوران اس نے کئی مرتبہ مجھے فون کیااورایک مرتبہ تو اس نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے صدرافضل بٹ کی مرتضیٰ علی شاہ مجھ سے اور بعض دوسرے ساتھیوں سے ایک میٹنگ بھی کرائی، افضل بٹ کے ساتھ میری شناسائی 1990 کی دہائی سے ہےجب ہم راولپنڈی، اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے مل کرویج بورڈ ایوارڈ اور میڈیا کارکنوں کیلئے جدوجہد کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھاجب PFUJ کے صدر نثار عثمانی اور سیکرٹری جنرل عبدالحمید چھاپرا ہوا کرتے تھے،اس بات کا تذکرہ افضل بٹ نے بارکنگ میں اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں بھی کیا تھا جس کے بعد سے مبین چوہدری کے ساتھ میرا ایک اعتماد کا تعلق قائم رہا تاہم میں نے خود کو برطانیہ کی میڈیا کی سیاست سے الگ رکھا اور میرے اس فیصلے کا ہمیشہ اس نے احترام کیا۔ برطانیہ میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ایونٹس کی تعداد بہت کم ہوگئی تھی، اس لئے اس کے ساتھ محض فون یا سوشل میڈیا پر ہی ملاقات ہوتی تھی۔ 5 اگست 2019 کو جب انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے تمام سیاسی و اخلاقی حدیں پار کر دی تو ان دنوں میں، میں نے کچھ کالم لکھے جنہیں اس نے پسند کیا اور اکثر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے اپنے جذبات میرے ساتھ شیئر کیا کرتاتھا، میری اور دوسرے تمام کشمیریوں ، پاکستانیوں کی طرح اسے مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑےلاک ڈاؤن، کریک ڈاؤن، گھر گھر تلاشیوں، نوجوانوں کی گمشدگیوں اورشہادتوں پرسخت تشویش تھی، ہم دونوں اس مسئلے کے حل کے حوالے سے اتفاق کرتے تھے کہ اسےاقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائےشماری کے ذریعے حل کیا جائے، مگر اس بات پر سوئی ہمیشہ اٹک جاتی تھی کہ اگر رائےشماری ہوئی تو خدانخواستہ کچھ الٹ پلٹ ہو گیا تو کیا ہوگا، حقیقت یہ ہےکہ انڈیا نے جموں اور بعض دوسرے علاقوں میں پہلے ہی چپکے چپکے ادھر ادھر سے لوگوں کو لاکر اپنے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر لیا تھا اور اب 2019 کےبعد اب تک 40/50 لاکھ لوگوں کو وادی میں بھی لے آیا ہے، ان کو باقاعدہ کشمیر کا شہری بنا دیا ہے، اگراب رائے شماری ہوتی ہے تو اقلیت بن جانے کے باعث کشمیریوں کے ووٹ کم پڑ جائیں گے جب کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں رہنے والوں کی کوئی تازہ مردم شماری ہی نہیں ہوئی کہ ان کی صحیح تعداد معلوم ہو سکے۔ بھارت نے اگر چالاکی کرتے ہوئے ایسے وقت میں رائے شماری کے لئے حامی بھرلی جب آزادکشمیر اور پاکستان کے کشمیریوں کا حقیقی ڈیٹا دستیاب نہیں ہوگا تو کیا ہوگا، دوسری طرف اب گلگت بلتستان کے لوگ بھی رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ یہ علاقے تو اب پاکستان کا پانچواں صوبہ بن چکے ہیں۔ ان حالات میں کیا پاکستان رائے شماری کا رسک لے سکے گا جب بھارت نے لاکھوں جعلی ووٹر بنا رکھے ہوں گے پھر رائے شماری اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہوتی ہے تو پھر اس کیلئے ضروری ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی افواج 1948 کی پوزیشن میں واپس چلی جائیں اور 2دو سال تک سارے کشمیریوں کو مل کر رہنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیاجائے، واضح رہے کہ اس وقت کشمیر میں پاکستان کا کوئی فوجی نہیں تھا اور انڈیا کے فوجیوں کی تعداد 10ہزارتھی میں اور مبین چوہدری اس قدر گھمبیر بحث کے بعد پریشان ہو جایا کرتے تھے اور ’’اللہ رحم کرے‘‘ کی صدا بلند کرکے خود کو تسلی دے لیا کرتے تھے مگر اب ایسالگتاہے کہ جوکھچڑی پک رہی تھی وہ پک اوربٹ بھی چکی ہے، اب صرف اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ اس بٹوارے کا اعلان کب اور کیسے کیا جائے۔