ذہنی دباؤ، موٹاپے کی ایک وجہ

March 09, 2023

ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ وزن کیسے بڑھتا ہے یعنی جب ہم، مطلوبہ مقدار کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز کھانے لگتے ہیں تو وزن بڑھنے لگتا ہے۔ لیکن ہم ضرورت سے زیادہ کھانا کیوں شروع کر دیتے ہیں؟ کیوں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچانک چاکلیٹ یا کیک جیسی بہت زیادہ کیلوری والی چیزیں کھانے کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے حالانکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد ہمیں پچھتاوا ہوگا؟

صرف لالچ یا کچھ اور وجہ؟

خود پر قابو رکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن سائنسدانوں کو اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ذہنی دباؤ موٹاپے کی ایک اہم وجہ ہوتا ہے۔ زیادہ ذہنی دباؤ کی حالت میں ہماری نیند خراب ہوتی ہے اور خون میں شوگر کی مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں زیادہ بھوک لگتی ہے اور کچھ کھا کر ہی آرام ملتا ہے۔ تحقیقی گروپ ’ٹرسٹ می آئی ایم اے ڈاکٹر‘ کی ٹیم کے ڈاکٹر گائلز ییو نے برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی مدد سے ایک پورا دن بے حد تناؤ بھرے ماحول اور ذہنی دباؤ میں گزارا۔ اس کے بعد ان کا ’ماسٹرٹ سٹریس ٹیسٹ‘ کیا گیا۔

انھیں ایک کمپیوٹر کے سامنے بٹھا کر جلدی جلدی حساب کرنے کو کہا گیا۔ وہ حساب میں غلطیاں کرتے گئے۔ اس کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا ہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈال کر رکھیں۔ سائنسدانوں کی ٹیم نے اس ٹیسٹ کے پہلے اور بعد میں گائلز کے خون میں شوگر کا لیول معلوم کیا۔ ہمارے خون میں شوگر کی سطح تب بڑھتی ہے جب ہم کچھ کھاتے ہیں۔ ایک صحت مند شخص میں شوگر کی سطح جلد ہی نارمل ہو جاتی ہے۔ لیکن سائنسدانوں نے دیکھا کہ ذہنی دباؤ والے دنوں میں گائلز کے خون میں شوگر کی سطح کو معیار پر لوٹنے میں تین گھنٹے لگ گئے۔ یعنی عام دن کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ وقت لگا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ کا جسم سمجھتا ہے کہ اس پر باہر سے کوئی حملہ ہوا ہے۔ اس لیے جسم عضلات کو طاقت دینے کے لیے خون میں زیادہ گلوکوز خارج کرنے لگتا ہے۔ لیکن جب اس طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی تو لبلبہ انسولین خارج کرتا ہے جس کی مدد سے خون میں گلوکوز کی سطح معیار پر واپس آ جاتی ہے۔

انسولین کا لیول بڑھنے اور خون میں اس طرح شوگر کا لیول گرنے کی وجہ سے ہمیں دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے۔ اسی لیے جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو ہمیں بار بار زیادہ میٹھا کھانے کا دل کرتا ہے۔ اسی طرح جب ہماری نیند پوری نہیں ہوتی، تب بھی ہمیں بار بار بھوک لگتی ہے۔ برطانیہ کے کنگز کالج میں کی جانے والی ایک ریسرچ کے مطابق نیند پوری نہ ہونے پر ہم ایک دن میں 385 کیلوری زیادہ کھاتے ہیں۔ بچے بھی اگر ٹھیک سے نہیں سو پاتے تو بار بار کچھ کھانے کے لیے مانگتے ہیں۔

ذہنی دباؤ دور رکھنے کا طریقہ

ایک خاص انداز میں سانس لینے سے آپ ذہنی دباؤ کو خود سے دور رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اس طریقے کو اپنی روزانہ زندگی کا حصہ بنالیں تو زیادہ فائدے ہو سکتے ہیں۔ اسے کھڑے ہو کر، بیٹھ کر یا لیٹ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

٭ پانچ تک گنتی کرتے ہوئے ناک سے گہری سانس کھینچیے

٭ اب پانچ تک گنتی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ منہ سے سانس چھوڑیے

٭ اس عمل کو پانچ منٹ تک بار بار دوہرائیے

ایک اور ضروری بات یہ کہ اپنی نیند کو کسی بھی حالت میں متاثر نہ ہونے دیجیے۔ حالانکہ یہ کہنا آسان ہے کرنا نہیں۔

کارٹیسول کی مقدار کا بڑھنا

ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جن افراد میں ’’ذہنی تناؤ‘‘ پیدا کرنے والا ہارمون کارٹیسول مقدار میں زیادہ ہوتا ہے اور اگر ایک طویل عرصے تک یہ کیفیت برقرار رہے تو اس سے باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) میں اضافہ ہوسکتا ہے یعنی جن افراد میں اسٹریس ہارمون زیادہ ہوگا ان کی کمر بڑھی ہوئی اور جن میں کم ہوگا ان کی کمر قدرے کم ہوسکتی ہے۔

ماہرین نے یہ بھی بتایا ہےکہ انسان ذہنی تناؤ کی صورت میں کارٹیسول ہارمون خارج کرتے ہیں جو انسانی جسم میں بنیادی تبدیلیاں لاکر موٹاپے کو بڑھاتا ہے۔ اس کے لیے 54 سال یا اس سے زائد عمر والے خواتین و حضرات کا جائزہ لیا گیا۔ یہ عمر رسیدگی کے بارے میں ایک مطالعہ تھا۔

ماہرین نے اس کے لیے انسانی بالوں سے کارٹیسول کی پیمائش کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا اور رضاکاروں پر اسے آزمایا۔ جن افراد میں کارٹیسول کی مقدار کئی برس تک بڑھی رہی وہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ وزنی اور موٹاپے کا شکار نکلے۔ ماہرین نے تحقیق کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ ذہنی تناؤ کا موٹاپے سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ماہرین زندگی سے ذہنی دباؤ اور موٹاپے کو دور رکھنے کے لیے مختلف طرح کی جسمانی مشقت پر زور دیتے ہیں۔ ان میں ورزش کرنا، باغبانی کرنا اور یوگا وغیرہ شامل ہے۔ اس طرح آپ ناصرف جسمانی طور پر فٹ اور چست رہتے ہیں بلکہ اس سے آپ ذہنی دباؤ کا بھی شکار نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں موٹاپا بھی آپ سے دور رہتا ہے۔