دستور گلی میں دستورِ پاکستان کی تاریخ

March 15, 2023

پاکستان کی پہلی سینیٹ کے اراکین کی تصاویر

نگراں و ترتیب: رضیہ فرید (میگزین ایڈیٹر، جنگ کراچی)

پیج ڈیزائنر: نوید رشید

سینیٹ کا 50 سالہ جمہوریت ،پارلیمنٹ اور قانون سازاداروں کا ایسا تاریخی سفر ہے جو ایوان بالا نے اس مقصد سے شروع کیا تھا کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اور مساوی نمائندگی کے تحت وفاقی اکائیوں کو بااختیار بنایا جائے گا۔ نصف صدی قبل سینیٹ کو ایک مستقل اور ناقابل تحلیل ادارے کے طور پر قائم کیا گیا ،مگر دو مرتبہ اس کا وجود ہی ختم کردیا گیا۔ گزشتہ 50 برسوں میں11 سال سینیٹ موجود نہیں رہی۔ مشکلات ا ور مسائل کے باوجود 1973 ء سے شروع ہونے والا سفر جاری ہے۔

سینیٹ کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر قارئین ،جنگ میگزین کےخصوصی رنگین صفحات میں ایوان بالا کی غیر ہموار تاریخ سے لے کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سینیٹ کا کردار ،وفاق میں صوبوں کی آواز،خواتین سینیٹرز اور دستور گلی میں دھوپ چھاؤں کی سیاسی کہانی، تصویروں کی زبانی جانیں گے اور سینیٹ کے ہال آف فیم اور ہال آف شیم جان کر بھی اندازہ ہوگا کہ جمہوری پارلیمانی نظام اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے ایوان بالا نے کیا کردار ادا کیا۔

پارلیمنٹ ہائوس دستور گلی کا ایک تاریخی منظر۔ گلی کے آخر میں دو سیاہ منظر مارشل لا ادوار کے حوالے سے ہیں، جب قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ کو بھی معطل کردیا گیا تھا۔

5 ستمبر 2016 کو پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کی پہلی منزل کے ایک حصے کو دستور گلی قرار دیا گیا۔ ماضی میں ایک عام سی گلی کی حیثیت رکھنے والی یہ جگہ اب تاریخ پاکستان کے بہت سے اہم پہلوئوں کی عکاسی کرتی ہے، کہنے کو یہ صرف ایک گلی ہے مگر موضو عاتی لحا ظ سے یہ دستور پاکستان کی تاریخ کو مرتب اور نمایاں کرنے کا کردار ادا کرنے میں بہت بڑا اقدام ہے۔ اس گلی میں تصاویر کے ذریعے پاکستان کی سیاسی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

دو سابق وزرا اعظم کے تاریخی لمحات۔میاں نوازشریف ،فاروق لغاری اور غلام اسحاق سے وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے بے نظیر بھٹو غلام اسحاق خان اور وسیم سجاد سے حلف لیتے ہوئے

یہ جمہوریت کے گمنام ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے جو جمہوریت اور اظہار رائے کی چاہ میں سولیوں پر چڑھ گئے۔ اس میں سیاہ دور کو بھی عیاں کیا گیا ہے۔ دستاویزی تاریخ پاکستان 5 حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں وطن عزیز میں دستور کیلئے مختلف ادوار میں کی گئی جدوجہد کو اجاگر کیا گیااور بتایا گیا کہ نو آبادیاتی دورکے نظام سے عبوری دستور تک ملک میں زبان ،پیریٹی، وفاقیت اور دیگر مسائل کا سامنا رہا۔

دوسرے حصے میں بتایا گیا کہ آمرانہ ادوار میں کس طرح جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کو سلب کیا گیا، سیاسی کارکنوں محنت کشوں، کسانوں، طلبا، دانشوروں اور صحافیوں پر مظالم ڈھائے گئے، انہیں عقوبت خانوں میں بری طرح تشدد کا شکار کیا گیا۔

تیسرے حصے میں اجاگر کیا گیا کہ کس طرح جمہوری قوتیں عوام کے حقوق کی بازیابی کیلئے متحد ہوئیں اور انہوں نے تمام طبقات کو اکھٹا کیا ، آئین کیلئے ملک میں جدوجہد کے مراحل بیان کئے گئے۔ چوتھے حصے میں آئین معطلی سے پیدا صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے، اس میں پریس سنسر شپ، حقوق انسانی کی پامال شدہ لاشیں، فوجی عدالتوں کی سزائیں، سرعام کوڑوں سے انسانی گوشت کے اڑتے لوتھڑے اور دستور پاکستان میں من مانی ترامیم کے معاملات شامل ہیں، جبکہ پانچویں حصے میں جمہور یت کی بحالی اور آئین کی بالا دستی کیلئے عوام کی مزاحمانہ تحریکوں کے ساتھ ، سیاسی قیادت کے عزم و حوصلے کی کہانی بیان کی گئی۔

گلی دستور سے ملحقہ اوپن ٹیرس میں ایک فوارہ بنایا گیا ہے، جس میں بہتاپانی عوام کی علامتی شناخت ظاہر کرتا ہے، جو ملک کی اصل ڈرائیونگ فورس ہے۔ دستور گلی کے با المقابل کوریڈور کا ایک حصہ سینٹ میوزیم کیلئے مختص کیا گیا ہے، اس میوزیم میں 1973 سے 2020 تک سینٹ کی مختصر مگر جامع تاریخ ہے، میوزیم میں تاسیسی اجلاس میں چیئرمین سینٹ قائد ایوان، قائد حزب اختلاف اور بعدازاں قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور قائد حزب اختلاف اعتراز احسن کے مجسمے اور 1973میں دستور سازی کے کردار بھی اجاگر کئے گئےہیں۔

اس دستور کی تدوین میں صدر بھٹو اور سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کی کمیٹی اجلاس کی کہانی بھی ہے، چیئرمین سینٹ کے گاؤن اور ایوان میں چیئرمین کی ڈائس پر GOVELاور دیگر نادر اشیاء رکھی گئی ہیں۔ موقعہ ملے تو اس گلی کی سیر کرنے ضرور جائیں۔