تین شخصیات... پی پی کی پہچان

March 21, 2023

پاکستان پیپلز پارٹی کے چند چہرے ایسے ہیں جو دنیا بھر میں اس پارٹی کی پہچان بن چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ قانون اور آئین کی حکمرانی کا پرچار کیا اور ایسے میں ان پر زمین تنگ کر دی گئی، مگر اسٹیبلشمنٹ کے بھرپور دباؤ کے باوجود پی پی پی قیادت نے ان پر ہمیشہ بھرپور اعتماد کیا، ایسے ہی تین نام فرحت اللہ بابر، قمر زمان کائرہ اور راجہ پرویز اشرف کےہیں جن کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی جماعت اور جمہوریت کیلئےبیشمار قربانیاں ہیں ۔ قمر زمان کائرہ کو حلقے کی سیاست سے باہر کرنے کیلئے بھرپور مہم چلائی گئی اور ایسے حالات بنانے کی کوشش کی گئی کہ وہ پی پی پی کا ساتھ چھوڑ دیں اور پی ٹی آئی یا کسی دوسری جماعت کا حصہ بن جائیں۔ لیکن ان کو اندازہ تھا کہ ملک کی اصل جمہوری جماعت صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے، وہ کہتا تھا کہ حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے، مارشل لا دیکھ چکے ہیں اور عمرانی آمریت بھی ختم ہوجائے گی، پیپلز پارٹی کی قیادت کی فہم و فراست کااس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے وفاداروں کو ہمیشہ عزت اور احترام دیا اور ان پر بھرپور اعتماد بھی کیا ۔اب آتا ہوں فرحت اللہ بابر کی طرف، یاد رہے کہ 2021ءمیں سینیٹ الیکشن کیلئے کاغذات جمع کرانےکے دوران یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ کاغذات جمع کروانے کی فیس 40ہزار ہے لیکن انکے پاس صرف 32ہزار تھے تو کسی دوست نےیہ رقم پوری کی، میں نے انھیں ہمیشہ پی پی پی کے عام کارکنان کی طرح گھومتے پھرتے پایا، شائستہ مزاج فرحت اللہ بابر کا ایک قصور یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق، آئین پاکستان اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں، لہٰذا انھیں اس کی قیمت بھی چکانا پڑی، کچھ غیر سیاسی دوست فرحت اللہ بابر پر یہ الزام بھی لگاتے ہیںکہ وہ پشتونوں کے رہنما ہیں اور پشتونوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، حالانکہ فرحت اللہ بابر ہی وہ واحد رہنما ہیں جو پشتون ، پنجابی، سندھی اور بلوچوں سمیت اقلیتوں پر ہونیوالے ہر ظلم پر سیخ پا نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان کے خلاف غلاظت بھری زبان استعمال ہوتی ہے،ان کا ایک قصور یہ بھی ہے کہ انھوں نے پشتونوں کو افغانستان میں نام نہاد جہاد کی آگ میں جھونک دینے کی ہمیشہ مخالفت کی، قصہ مختصر یہ کہ فرحت اللہ بابر اور اسٹیبلشمنٹ کبھی ایک پیج پر نظر نہیں آئے لہٰذا فرحت اللہ بابر ہمیشہ تنقید اور پروپیگنڈا کا شکار رہے۔ پی پی پی قیادت بھرپور تحسین کی مستحق ہے جس نے بھرپور دباؤ کے باوجود فرحت اللہ بابر پرہمیشہ اعتماد کیا، ماضی میں ان پر دوری اختیار کرنے کیلئے بھرپور دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے لیکن پی پی پی کی قیادت نے فرحت اللہ بابر کو ہمیشہ صف اول میں رکھا۔ پی پی پی کے بے باک رہنماؤں کی بات ہو اور اس فہرست میں راجہ پرویز اشرف شامل نہ ہوں یہ ممکن نہیں، گزشتہ انتخابات میں راجہ پرویز اشرف کو کھیل سے باہر رکھنے کیلئےعمران خان اور اس کے غیر سیاسی آقاؤں نے پوری کوشش کی، راجہ پرویز اشرف پر کیس بنائے گئے مگر جب کیس عدالتوں میں گئے تو الزام لگانے والے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے دونوں فرار ہوتے دکھائی دیے۔ ان کو علم تھا کہ پنجاب میں الیکٹ ایبل ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنا سیاسی موت سے کم نہیں لیکن وہ اور ان کا پورا خاندان پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ بحیثیت وفاقی وزیر ِپانی و بجلی وہ سیہون تشریف لائےتو میں نے ان سے درخواست کی کہ لعل شہباز قلندر کے احاطے اور ارد گرد کے علاقے کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور انھوں نے موقع پر ہی حکم دیا اور اس کے بعد یہ علاقہ لوڈشیڈنگ سےمستثنیٰ ہوگیا۔

راجہ پرویز اشرف پر بھی پیپلز پارٹی سے کنارہ کشی کیلئے دباؤ رہا لیکن انھوں نے ہر موڑ پر ثابت کیا کہ وہ بے وفا نہیں ہیں، 2018ءکے انتخابات میں آخری دم تک کوشش کی جاتی رہی کہ انھیں اور ان کے خاندان کو ان نشستوں سے محروم کردیا جائے مگر وہ پیپلز پارٹی کرساتھ وابستگی رکھنے کی ہر قیمت چکانےکیلئے تیار رہے۔راجہ پرویز اشرف جیسے رہنمائوں اور کارکنان نے ثابت کیا کہ پی پی پی کو پنجاب میں زندہ رہنے کیلئےکسی اقتدار کی ضرورت نہیں، اگر پنجاب میں اقتدار ملے بغیر یہ لوگ نشستیں نکال سکتے ہیں تو کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں اگر ایک بار پھرحکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تو یقینی طور پرپنجاب میں سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا، اس کیلئے ضروری ہے کہ پی پی پی پنجاب کی سیاست میں اپنے وفاداروں سے رابطے استوار رکھے۔