پاکستان کے خراب حالات

March 31, 2023

تحریر: ایم اسلم چغتائی۔۔۔۔ لندن
بے شمار جانی و مالی قربانیاں اور طویل جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا دونوں اطراف ہزاروں لاکھوں مسلمان ہندوئوں اور سکھوں کا قتل عام ہوا۔ ہزاروں خاندان اپنے گھر بار کاروبار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ مسلمانوں کے لئے پاکستان کا قیام انگریزوں کی غلامی ختم ہونے کے بعد ہندوئوں کی غلامی سے بچنا تھا۔ اس سے پہلے مسلمان 800سال تک ہندوستان میں حکمرانی کرتے رہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے خواب کو تعبیر کرنے والے معمار پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ قیام پاکستان کے دوسرے سال ہی اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے۔ انہیں پاکستان کو مستحکم کرنے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا موقع نہ نصیب ہوا۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظمؒ کے ساتھی لیاقت علی خان ایک نڈر اور محب وطن سچے حکمراں تھے۔ لیاقت علی خان ملک و قوم دشمن عناصر کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے اور انہیں لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک سازش کے تحت گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد مفاد پرست وڈیرے اور مورثی سیاستدان پاکستان کی سیاست پر غلبہ پانے لگے اور کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ نااہل مفاد پرست سیاست دانوں اور حکمرانوں کی آپس کی لڑائیوں کا فوج نے اٹھایا اور یوں ملک میں پہلا فوجی مارشل لاء جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں 1958میں لگ گیا اور یوں جمہوریت کی ریل پٹری سے اتر گئی اور اس کے بعد بھی ملک میں جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی مارشل لاء لگائے اور طویل عرصہ اقتدار پر فائض رہے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور اقتدار میں 1970میں پاک بھارت جنگ ہوئی جس کا انجام مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام تھا اور اس سے ہمارے دو قومی نظریے پر گہری ضرب لگی۔ پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے تیسرے مارشل لاء کے دوران ملک دہشت گردی کو فروغ ملا۔ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ملک کی کشتی آج بھی بھنور میں ہے اور کنارے کا کہیں نام و نشان نہیں کبھی برائے نام کی جمہوریت کبھی صدارتی نظام اور سول مارشل لاء کے ادوار آئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش معاشی اعتبار سے پاکستان سے بہت آگے نکل چکا ہے آج ایک برطانوی پائونڈ کے بدلے 129بنگلہ دیشی ٹکہ اور 350کے قریب پاکستانی روپے ملتے ہیں اور حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ہندوستان کی معیشت آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے مگر ہم معاشی ، سیاسی اور سماجی بحرانوں میں پھنستے جا رہے ہیں حکمرانوں کو ملکی و قومی بنیادی مسائل کی پرواہ نہیں ، ذاتیات کی سیاست اور پیسوں کی سیاست ہو رہی ہے لوٹنے کی سیاست ہو رہی ہے۔ عوام پر بھی آج غفلت کی نیند میں مدہوش ہیں اپنے حقوق کے لئے اٹھنا پڑتا ہے لڑنا پڑتا ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں خدانخواستہ یہ ملک دوسرا سری لنکا یا کسی پسماندہ افریقی ملک کی طرح نہ ہو جائے۔ راقم کسی خونی انقلاب کی حمایت نہیں کرتا مگر جانی و مالی نقصان کے بغیر ایک پرامن تبدیلی نظام یا نظام کی تبدیلی کے لئے انقلاب کی ضرورت ہے۔ مورثی سیاسی چہرے بدلنے سے کچھ نہیں بدلے گا جو آج تک ہو رہا ہے۔ نئے انتخاب سے بھی کچھ نہیں ہوگا کچھ نہیں بدلے گا بلکہ دھاندلی کے نام پر نیا بحران پیدا ہو جائے گا۔ 9 کروڑ افراد آج غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے، غدار قرار دینے کے علاوہ کوئی کام نہیں، عدالتوں کو سیاسی معاملات میں الجھا دیا جاتا ہے مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے یہ نئی اتحادی حکومت مہنگائی کا شور مچا کر برسراقتدار میں آئی تھی۔ چند سو افراد ملک کی دولت پر قابض ہیں، وزیروں اور وزیروں کی کثیر تعداد ہے اور یہ ہزاروں لاکھوں کی تنخواہوں کے علاوہ بے شمار مراعات اور الائونسز حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے اربوں ڈالرز بیرون ملک بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں اور عوان کو نت نئے قرضوں میں جکڑ رہے ہیں جو آنے ولی نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔ اس سے پہلے کہ حالات بے قابو ہو جائیں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے ملک اور عوام دوست مخلص تمام قوتیں مل کر ملک کو اس عظیم بحران، معاشی بحران سیاسی بحران سے نجات پانے کے لئے کامکریں۔ باتوںتقریروں اور نعروں وعدوں کا وقت اب نہیں رہا، عملی اقدامات کی ضرورت ہے، فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، خدا نہ کرے ملک و قوم کا انجام کیا ہوگا یہ سوچ کر خوف آنے لگتا ہے۔