پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت، حقیقت کیا ہے؟

April 02, 2023

کراچی (رفیق مانگٹ) سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت کے آغاز کا واویلا کیا جارہا ہے، پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت، حقیقت کیا ہے؟دونوں ممالک میں براہ راست تعلقات ہیں نہ تجارت ممکن ، ماہرین ، پاکستانی اشیاء ذاتی حیثیت میں گئیں، پاکستانی نژاد یہودی فشیل نےپہلی بار پاکستانی غذائی اشیا اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا، پاکستانی تاریخ میں اسرائیل کیلئے واحد پاسپورٹ عمران حکومت نے ہی فشیل بن خالد کو جاری کیا ، نواز حکومت میں فشیل کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ بی بی سی اوروائس آف امریکا نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹس دی ہیں اور امریکی یہودی کانگریس نے بھی اس حوالے سے اپنا بیان جاری کیا ہے۔ جس میں واضح ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی براہ راست تجارت نہیں، بلکہ یہ پاکستانی غذائی اشیا خلیجی ممالک کی مارکیٹ سے ذاتی حیثیت سے سپلائی کی گئی ہیں۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان اس وقت کوئی سفارتی اور سیاسی تعلقات نہیں ہیں اور پاکستان نے اب تک اسرائیل کو تسلیم بھی نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کسی بھی قسم کے تعلقات نہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہیں کہ دونوں ممالک براہ راست تجارت کریں ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد یہودی فشیل بن خالد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار پاکستانی غذائی اشیا کی پہلی کھیپ اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کی ہے جس میں کھجور، خشک میوہ جات اور بعض مسالے بھی شامل ہیں۔ مشرف کے بعد عمران دور حکومت میں اسرائیل کے ساتھ پاکستانی رابطوں کی خبریں زیادہ سامنے آئیں، اور یہ خبر بھی اسرائیلی میڈیا نے ہی دیں۔گزشتہ75برسوں میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ عمران حکومت نے ہی اسرائیل کےلئےاسی فشیل بن خالد کو پہلا پاسپورٹ جاری کیا۔ انہوں 2016میں اس وقت کی نواز حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کو بطور یہودی پاکستان کا پاسپورٹ جاری کیا جائے لیکن اس وقت کی حکومت نے فیصلہ نہیں کیا تھا اور پھر عمران حکومت نے 2019 ہی میں انہیں بطور یہودی پاسپورٹ جاری کیا اور پاکستانی پاسپورٹ کو اسرائیل جانے کیلئے باقاعدہ Valid قرار دیا۔جس کے تحت وہ اسرائیل بھی جاچکے ہیں۔گزشتہ سال عمران دور حکومت میں ہی بعض پاکستانی نژاد شہریوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ دورے کے شرکا نے اسرائیلی صدر سےملاقات کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا بھی دورہ کیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین اس پر ردعمل میں کہتے ہیں کہ پاکستانی یہودی جس کو عمران خان نے یہودی رجسٹر کرکے پھر قانونی طور پر اس کو پاسپورٹ جاری کرکے اسرائیل بھیجا تھا وہ شخص دبئی سے اسرائیل کے ساتھ ذاتی طور پر تجارت کر رہا ہے۔ عمران دور حکومت میں نونومبر2018میں اسرائیلی صحافی نے ثبوت کے ساتھ ٹویٹ کیا تھا کہ تل ابیب سے پاکستان جہا ز آیا۔ نومبر2020 میں اسرائیلی میڈیا نے ہی یہ خبر دی تھی کہ عمران خان کے ساتھی ذلفی بخاری نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا ہے اس رپورٹ کی بعد میں ذلفی بخاری نے تردید کی تھی۔یل نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان غذائی اشیا کی تفصیلات شیئر کیں۔ان کا تعلق کراچی سے ہے۔فشیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی تاجروں سے دبئی اور جرمنی میں غذائی اشیا کی نمائشوں پر کئی بار ملاقاتیں کیں اور انہیں اس کی خریداری پر قائل کیا۔ ابتدائی طور پر خشک میوہ جات اور مسالے بھجوائے گئے ہیں جو یروشلم اور حیفہ کے بازاروں میں فروخت ہو رہے ہیں۔ امریکی یہودی کانگریس کا کہنا ہے کہ پاکستانی اشیا دبئی میں ایک فیسٹیول میں نمائش کے دوران موجود تھی جس سے اسرائیلی اور پاکستانی تاجروں نے معاہدوں اور ڈیل کو کامیاب ہونے میں مدد کی اور پاکستانی اشیا بذریعہ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے ذریعےاسرائیل بھیجی جا سکی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا کہ کل سےاسرائیل کیساتھ تجارتی تعلقات کےحوالےسےخبروں کی وزیراعظم شہباز شریف بلخصوص فضل الرحمن صاحب وضاحت دیں۔اسرائیل کوتسلیم کرناو تعلقات قائم کرنا اس معاملہ پہ بانی پاکستان کےموقف کی خلاف ورزی ہے مسئلہ فلسطین کے حل ومسجد اقصیٰ کی آزادی تک اسکی کوئ گنجائش نہیں۔پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے بھی پریس کانفرنس میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔رپورٹس کے مطابق پاکستان اور اسرائیلی حکام کے درمیان بات چیت کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ تصدیق دونوں جانب سے کبھی نہیں کی گئی۔ماضی میں پاکستانی حکام پر خفیہ طور پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔پاکستان میں اسرائیل سے متعلق تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی تجاویز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئیں تھیں۔امریکی یہودی کانگریس کے بیان کے مطابق 2005میں مشرف دور حکومت میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور اقتصادی پیش رفت ہوئی تھی، اٹھارہ سال قبل اس اقدام کی بدولت پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت پر قدغن لگانے والے لائسنس ختم کردیے گئے تھے،12ستمبر2005کو اسرائیل حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی تاجر برادری کے لئے پاکستان سے اشیا کے درآمدی لائسنس کو ختم کردیا گیا ہے، یہ اقدام اسرائیل کے اس وقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سیلفان شالوم اور پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کے درمیان یکم ستمبر 2005کو ہونے والی ملاقات کے بعد ہوا،دونوں ممالک کے درمیان یہ پہلا اعلانیہ سیاسی رابطہ تھا حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل نے ایشیا کے متعدد ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے پر توجہ دی ہے جن میں بھارت اور چین جیسی بڑی منڈیاں بھی شامل ہیں۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اسرائیل کے کئی مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی حجم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے خاص طور پر اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان امریکی ثالثی میں ہونے والے سیاسی معاہدے پر دستخط کے بعد ان تعلقات میں مزید گرمجوشی دیکھی جارہی ہے۔سابق سفیرآصف درانی کے مطابق57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔بی بی سی کے مطابق فشل کا تعلق پاکستانی کی کوشر فوڈ انڈسٹری سے ہے۔کوشر فوڈ یہودی مذہب کے عقائد کے مطابق تیار کردہ خوراک کو کہا جاتا ہے جیسے مسلمان حلال کھانے پر یقین رکھتے ہیں۔