بلیوزونز میں رہنے والے افراد دراز عمر کیوں پاتے ہیں

April 15, 2023

کیا آپ دنیا کے معمر ترین شخص کا نام جانتے ہیں؟ ممکن ہے کہ آپ اپنے ارد گرد کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں جو اس شخص سے بھی زیادہ معمرہو لیکن ہم ریکارڈ پر درج شخص کی بات کررہے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق، لوسیل رینڈن نے جب رواں برس جنوری میں اپنی آخری سانس لی تب اُن کی عمر 118 سال تھی اور ان کا نام دنیا کی معمر ترین انسان کے طور پر ریکارڈ میں درج تھا۔

ان کا تعلق فرانس سے تھا اور وہ ایک راہبہ تھیں جو ’سسٹر آندرے‘ کے نام سے مشہور تھیں۔ انھوں نے دونوں عالمی جنگیں دیکھی تھیں۔ وہ چاند پر انسان کے پہلی مرتبہ قدم رکھنے کی گواہ تھیں اور انھوں نے ڈیجیٹل دور بھی دیکھا۔ ایک ایسی دنیا جہاں انسان کی اوسط عمر 73.4برس ہے، اس میں لوسیل نے اتنی طویل عمر کیسے پائی؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔

میڈیکل سائنس کی ترقی کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی زندگی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اس صدی کے وسط تک انسانوں کی اوسط عمر 77سال تک ہو سکتی ہے۔ تاہم، عمر درازی کا تعلق خطوں سے بھی ہے۔ جہاں موناکو میں انسانوں کی اوسط عمر 87 سال ہے، وہیں افریقا کے غریب ملک جمہوریہ چاڈ میں اوسط عمر صرف 53 سال ہے۔ موناکو کے بعد چین کے زیر انتظام ہانگ کانگ کا نمبر آتا ہے۔ مکاؤ تیسرے اور جاپان چوتھے نمبر پر ہے۔ عالمی طاقتوں میں جاپان میں انسانوں کی اوسط عمر سب سے زیادہ ہے۔

عمر درازی کے محرکات

عمر بڑھنے میں جینیاتی وجہ سب سے اہم ہوتی ہے لیکن اس میں دیگر چیزیں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کی پیدائش جہاں ہوئی ہے وہاں کے حالاتِ زندگی کیا تھے اور اس نے بطور انسان اپنی زندگی میں کس قسم کے فیصلے کیے؟ لمبی عمر صرف صحت کے بہتر نظام اور اچھی خوراک سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وہ فیصلے بھی اہم ہیں، جنہیں ماہرین ’اسمارٹ فیصلے‘ کہتے ہیں، جیسے کہ متوازن خوراک، نیند پوری کرنا، تناؤ کو کنٹرول کرنے اور ورزش سے متعلق فیصلے۔

وہ ممالک جو لمبی اوسط عمر کے لحاظ سے سرِفہرست ہیں، ان میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے زیادہ آمدنی۔ ان میں ایک اور چیز مشترک ہے، وہ ہے ان ممالک میں آبادی کا حجم۔ اقوام متحدہ کے آبادی کے تخمینے کے شعبے کے سربراہ پیٹرک گیرلینڈ کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں موناکو اور لکٹنسٹائن جیسے بہت چھوٹے ممالک شامل ہیں۔ ان کی آبادی میں دیگر ممالک کی طرح تنوع نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں ’یہ ممالک بظاہر منفرد نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں دیکھیں تو ان کی آبادی مختلف سی ہے۔ دوسرے ممالک میں جس طرح مختلف قسم کی آبادی کا مکسچر دیکھا جاتا ہے، ویسا یہاں نہیں ہے‘۔ ان کا معیارِ زندگی بلند ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں اچھی ہیں اور وہاں کوئی بے ترتیبی نہیں ہے۔

بلیو زون اور بڑھاپا

اٹلی کا ساردینیا علاقہ سب سے پہلا بلیو زون تھا۔ بلیو زون آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ یہاں ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ جیتے ہیں۔ چند دہائیاں قبل،آبادیاتی ماہر مائیکل پلن اور صحافی جانی پیس ایک مشن پر نکلے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دنیا کے معمر ترین لوگ کہاں رہتے ہیں، نقشے پر انھوں نے گول نشان بنائے۔ انھوں نے پایا کہ نقشے پر نیلے رنگ سے نشان زدہ ایک علاقہ ’بارباجا‘ ہے۔ یہ اطالوی جزیرے سارڈینیا پر واقع ہے۔ انھوں نے اسے ’بلیو زون‘ کا نام دیا۔

اس وقت سے، یہ نام ان جگہوں سے منسلک ہے جہاں لوگ بہتر معیار زندگی کے ساتھ طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔ اس تحقیق کی بنیاد پر، صحافی ڈین بوٹنر نے ماہرین کی ایک ٹیم تیار کی تاکہ دوسری جگہوں پر ایسی ہی کمیونٹیز کی تحقیقات کی جا سکے۔ انھوں نے پایا کہ ساردینیا کے علاوہ چار اور بلیو زونز ہیں۔ یہ جاپان کا جزیرہ اوکیناوا، کوسٹا ریکا میں نکویا، یونان میں ایکاریا کا جزیرہ اور کیلیفورنیا میں لوما لنڈا ایڈونٹسٹ کمیونٹی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبی عمر کے لیے جینیاتی عوامل ایک نعمت ہیں۔

2008ء میں، بیوٹنر نے ’دی بلیو زونز: لیسن فار لیونگ لانگر فرام دی پیپلز ہو ہیو لیوِڈ لانگیسٹ‘یعنی ان لوگوں سے سبق جو طویل عرصے زندہ رہے، کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد سے انہوں نے خود کو اس خیال کو آگے بڑھانے کے کام میں وقف کر دیا۔ تاہم ہر کوئی ان کی باتوں سے متفق نہیں تھا۔ لوگوں نے دلیل دی کہ ان کے بہت سے بیانات طویل مدتی سائنسی مطالعہ کے بجائے مشاہدے پر مبنی تھے۔

ضروری مشاہدات

بٹنر اور ان کی ٹیم نے کمیونٹیز کے اپنے مطالعے میں کچھ یکسانیت پائی۔ ان کی بنیاد پر انھوں نے بتایا کہ ان برادریوں کے لوگوں کی زندگی باقی دنیا کے مقابل طویل اور بہتر کیوں ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں یہ تھیں۔

ان کی زندگی کا کوئی ایک مقصد تھا۔ یعنی جس وجہ سے وہ ہر صبح اُٹھتے ہیں؛ وہ خاندانی رشتہ مضبوط رکھتے ہیں؛ وہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے معمول کی زندگی سے ہٹ کر کچھ کرتے ہیں؛ وہ دوسری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جو سماجی عادات کا حصہ بن چکی ہیں؛ وہ کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھاتے بلکہ پیٹ کی بھوک کا 80 فیصد کھاتے ہیں؛ وہ متوازن خوراک لیتے ہیں۔

اس میں سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں؛ وہ ہر روز ٹہلنے جیسی جسمانی ورزش کرتے ہیں؛ ان میں برادری کا شدید جذبہ ہے۔ وہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور اچھی عادات کو فروغ دیتے ہیں؛ وہ ایسے گروہ کا حصہ ہیں جہاں عقیدے یا مذہب کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ دوستانہ ماحول، اچھی طبیعت، صحت بخش خوراک تک رسائی اور بڑے شہری مراکز سے دوری بھی ان کے طرزِ زندگی کا حصہ تھے۔

حالانکہ بلیو زون کا حصہ بننے کے لیے آپ کو وہاں پیدا ہونا اور اس کمیونٹی کا ایک فعال رکن ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ طریقے ان تمام لوگوں کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں جو لمبی اور بہتر زندگی چاہتے ہیں۔