جیل، معافی نامے، کامریڈ فتح محمد سے سبق

June 01, 2023

تحریر:پرویز فتح۔۔۔۔لیڈز
ایک طرف توپاکستانی سماج کو بدلنے اور تبدیلی لانے کے دعوے دار سیاسی رہنما معمولی جیل یاترا کے ساتھ ہی معافی ناموں پر دستخط کر کے جوق در جوق رہائی پا رہے تھے اور تبدیلی سرکار یعنی عمران خان کی تحریک انصاف سے علیحدگی کے اعلانات کر رہے تھے، تو دوسری طرف اسی ہفتے 25 مئی کو ہمارے ہی ملک کے ایک ہونہار انقلابی اور پاکستان کی کسان تحریک کے سالار کامریڈ چوہدری فتح محمد کی تیسری برسی منائی جا رہی تھی جو ملک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کر کے انصاف اور برابری پر مبنی، استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے 18برس کے لگ بھگ جیل کی کالی کوٹھریوں، نظربندیوں اور انگریز دور کے بدنامِ زمانہ شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانوں میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنتے اور اپنی نظریاتی وابستگی کی قیمت ادا کرتے رہے۔ اپنی 72 سالہ سیاسی جدوجہد میں نہ تو اُن کے چہرے پر کبھی مایوسی نظر آئی اور نہ ہی امید کا دامن چھوٹا۔ کامریڈ فتح محمد نے بی اے کیا تو فاشزم کے خلاف فوج میں بھرتی ہو کر برطانیہ جا پہنچے۔ جنگ ختم ہوئی تو وطن واپس آ کر اپنے گاؤں میں لائبریری قائم کر لی اور دوسروں کی تعلیم و تربیت کو اپنا مشن بنا لیا۔ اُنہی دنوں تحریک آزادی زور پکڑ گئی اور قابض برطانوی سرکار نے مذھبی منافرت کو ھوا دے کر ملک کو قتل و غارت کی طرف دھکیل دیا۔ بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا اور مذھبی جنونی سکھوں کے گروہ نے اُن کے والد چوہدری امیر دین کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ برِصغیر کا بٹوارہ ہوا اور کامریڈ اپنے والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کر جالندھر کو خیرباد کہتے ہوئے ہفتوں کی پیدال مسافت کے بعد والٹن لاہور پہنچ گئے اور وہاں سے چلے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب چک 305 گ ب میں مستقل طور پر آباد ہو گئے۔ یہ اگست 1947ء کی بات ہے اور ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کو بے پناہ تقالیف سے گزرنا پڑتا تھا۔ کامریڈ فتح محمد نے خود آباد ہوتے ہی اپنے آپ کو ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی آبادکاری میں مدد کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے چند ہفتوں میں ہی مقامی سماجی کارکنوں سے رابطے کیے اور مہاجرین کی آبادکاری میں مدد کے لیے تنظیم بنا ڈالی اور اُس کو وسعت دیتے ہوئے اُس کی لائیلپور ضلعی کمیٹی کے کنوینر منتخب ہو گئے۔ 1948ء کے آغاز میں ہی اُن کی قریبی گاؤں کے نامور سماجی رہنما ڈاکٹر محمد عبداللہ سے دوستی ہو گئی اور اُنہوں نے پاکستان کسان کمیٹی میں شمولیت اختیار کر کے اُس کے قُل وقتی کارکن کے طور پر کام شروع کر دیا۔ اُنہوں نے اس لگن اور جذبے سے کسانوں میں کام کیا کہ تین ماہ بعد ہی اُنہیں کیمونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ 1948ء کے اختطام پر لاہور میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی کانگریس منعقد ہوئی تو اُنہیں اُس کی مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ وہیں اُن کی ملاقات نامور مزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم، سردار شوکت علی، پروفیسر ایرک سپرین، سید مطلبی فرید آبادی، سی آر اسلم، حمید اختر اور فیض احمد فیض سے ہوئی، جو جلد ہی اُن سے دوستی میں بدل گئی۔ پاکستان بنے ابھی ڈیڑھ برس ہی گزرے تھا کہ 1949ء میں اُن کے پہلے ورنٹ گرفتاری جاری ہو گئے۔ پہلے پارٹی فیصلے کے مطابق دوسرے شہروں میں کسانوں کو منظم کرنے میں لگ گئے، اور پاکستان کے پہلے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور صرف 26 ووٹوں سے انتخاب ہار گئے۔ اُس زمانہ میں حلقہ انتخاب پرواضع ہوتا تھا اِس لیے اُن کی روپوشی کی وجہ سے نامور ترقی پسد دانشور سردار مظہر علی خان اور پروفیسر صفدر میر ان کی الیکشن مہم پارٹی کے فیصل آباد آفس سے منظم کرتے رہے۔ بعد ازاں پارٹی رہنماؤں کے مشورے سے گرفتاری دے دی۔ 10 ماہ بعد رہائی ملی تو دوبارہ کسانوں کو کسان کمیٹیوں میں منظم کرنے، گاؤں گاؤں کسانوں کے جلسے منعقد کرنے میں سرگرم ہو گئے۔ کسانوں کے ان جلسوں میں لاہور اور دیگر شہروں سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے رہنما اور دیگر ترقی پسند کارکن بھی آتے اور تقاریر کرتے تھے، بعد ازاں 1951ء میں راوالپنڈی سازش کیس بنا اور 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی، پاکستان کسان کمیٹی، پاکستان ٹریڈ یونیں فیڈریشن، انجمن ترقی پسند مصنفین اور دیگر تنظیموں پر پابندی لاگا کر اُنہیں خلاف قانون قرار دے دیا گیا تو کامریڈ فتح محمد کو ایک با پھر گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں پیچھے ڈال دیا گیا۔ 1957ء میں ڈھاکہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو وہ وہاں بھی کنونشن کے ڈیلیگیٹ کے طور پر موجود تھے اور کچھ ہی عرصہ میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قریبی دوستوں میں شمار ہونے لگے اور بعد ازاں جب بھی سنتوش نگر میں کسان کانفرنس منعقد ہوتی تو وہ مشرقی پاکستان میں موجود کسان رہنماؤں کے شانہ بشانہ ہوتے۔ ایوب کا مارشل لاء لگا اور اُس کے خلاف تحریک چلی تو اُنہیں لمبے عرصہ کے لیے جیل یاترا پر بھیج دیا گیا۔ بعد ازاں مسٹر بھٹو نے جمہوریت نوازوں، جاگیر داروں، قبائیلی سرداروں اور کچھ ترقی پسندوں کو ملا کر پیپلز پارٹی بنائی اور اقتدار حاصل کیا تو اُس نام نہاد عوامی دور میں بھی اُنہیں نا بخشا گیا اور 6 ماہ کے لیے تقصِ امنِ عامہ کی آڑ میں جیل بھیج دیا۔ ایسا ہی ڈکٹیڑ ضیاء الحق کے دور میں ہوا اور اُنہیں پہلے 3 ماہ کے لیے فیصل آباد جیل اور پھر 3 ماہ جہلم جیل میں قید رکھا۔ پھر نواز شریف دور میں اور پرویز مشرف دور میں بھی جیل یاترا لازمی قرار پائی۔ اِس طرح کامریڈ چوہدری فتح محمد کو قیام پاکستان سے لے کر 2009ء تک ماسوائے بے نظیر بھٹو کے دور کے، ملک کی ہر حکومت نے اذیت خانوں میں ڈالا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لیکن وہ ہر دفعہ باہر آ کر ایک نئے جذبے کے ساتھ انقلابی تحریکوں میں جُت جاتے۔ آج ہم دیکھیں کہ تحریک انصاف کی قیادت کے ملک میں تبدیلی لانے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اُن کا دور فوجی حکمرانوں کی طرح جابرانہ ہی تھا، جِس میں ہر مخالف پر مقدمات بنانے اور اُنہیں اٹھوا کر غائیب کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، اور اس عمل میں صحافیوں کا اغواہ اور اُن پر تشدد بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ پاکستان میں بائیں بازو کے ایسے بے شمار کارکن و راہنما ہیں جو ایسے ہی زندگی بھر ریاستی تشدد اور بربریت کا شکار بنتے رہے لیکن اُن کی سوج اور سیاسی جدوجہد میں کبھی لغزش نہ آئی۔ ہماری دھرتی کے انہی ہونہار سپوتوں نے آج تک ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں اور استحصال کا شکار عوام میں امید کی کرن کو اُجاگر رکھا ہے۔