کیا جمہوریت ہے اور کیا فسطائیت

June 04, 2023

گزشتہ دنوں گلالئی اسماعیل،جوایک پاکستانی پشتون ہیں، نےٹویٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ جب وہ اپنے والدین کو پاکستان کی عدالتوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھتیں تو کبھی کبھار رنجیدہ ہوکر لکھتیں کہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔اِس کے جواب میں اُس وقت کے ’ہتھ چھُٹ نوجوانوں‘ نے جو کچھ لکھا اُن کی تصویری جھلک ، بولے تو اسکرین شاٹ،گلالئی نے اپنے ٹویٹر کھاتے پر دکھائے ، آپ بھی پڑھیں اور سر دھُنیں :’’(1) تیری ماں بھی تو کسی وقت —— کی ——رہی اگر تم —— کردار نہ ہوتی غدار و ملک فروش نہ ہوتی تو آج تیری ——ماں بھی تکلیف سے دوچار نہ ہوتی ۔ (2)بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کے والد محترم کو اِس طرح ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت لایا گیا۔ میرے خیال میں اُن کو اتنی ہی عزت دینی چاہئے تھی جس کا وہ حقدار ہے مطلب اس کے گلے میں کتے کی طرح پٹہ ڈال کرعدالت گھسیٹتے ہوئے لانا چاہئے تھا۔ (3)بھائی تمام وطن دشمنوں کا طریقہ واردات یہی ہوتا ہے ، اس گھٹیا —— عورت کا اصل مقصد سیاسی پناہ حاصل کرنا تھا۔ اب باہر بیٹھ کر ریاست کے خلاف بھونک رہی ہےاور بھونکتی رہے گی ورنہ دہلی اور کابل سے پیسے ملنا بند ہوجائیں گے...(4)—— کا باپ بھی —— ہی ہوتا ہے لہٰذا تم ادھر بیٹھ کے اپنی ———(5) غدار اور وفادار سانجھے نہیں ہوتے۔‘‘

یہ چاول کی دیگ کے صرف چند دانے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دیگ کیسی ہوگی۔جو خالی جگہیں میں نے چھوڑی ہیں انہیں پُر کر کے اگر فقرےمکمل کئے جائیں تو یقین کریں کہ وہ بدقماش لوگوں کی محفل میں بھی نہیں سنائے جا سکیں گے۔اور کچھ جملے تو ایسے ہیں کہ انہیں خالی جگہوں کے ساتھ سنسر کرکےبھی نہیں لکھا جا سکتا۔اور یہ صرف ایک مثال نہیں ، ایسی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں،عاصمہ شیرازی سے لے کر غریدہ فاروقی تک اور ابصار عالم سے لے کر عمر چیمہ تک،بے شمار عورتوں اور مردوں کے ساتھ اِس ملک میں یہی ہوا، ہر اُس شخص کی کردار کُشی کی گئی جو اِن لوگوں کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا تھا/تھی جن کے تبصروں کا نمونہ اوپر پیش کیا گیا ہے۔آج وقت کچھ بدل گیا ہے ، اب یہ لوگ receiving end پر ہیں اور اپنے اوپر بنائے جانے والے مقدمات پر احتجاج کر رہے ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ اِن پر ظلم ہو رہا ہے ، ایسا ظلم جوپاکستان کی پچھتر سال کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، یہ مارشل لا سے بھی زیادہ بد ترین دور ہے ،یہ فسطائیت کا عروج ہے،وغیرہ وغیرہ۔

ہماری قوم کی یادداشت چونکہ کمزور ہے اِس لئے بار بار بتانا پڑتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ اپریل 2022 سے نہیں بلکہ 14 اگست 1947 سے شروع ہوتی ہےاور تاریخ میں جو ظلم ہوتا رہا اُس کا احاطہ یہاں نہیں کیا جا سکتا ، صرف اتنا ہی لکھا جا سکتا ہے کہ جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ اُس کا عشر عشیر بھی نہیں جوماضی میں ہوالیکن یہ دلیل دینے کامقصد کسی ظلم و زیادتی کا دفاع کرنا ہرگز نہیں بلکہ فقط ریکارڈ درست کرنا مقصود ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے لئے رحم اور معافی کی درخواست اِس بنیاد پرکر رہے ہیں کہ وہ پڑھے لکھے ہیں، نیٹ فلکس دیکھتے ہیں اور پاپ کارن کھاتے ہیں، بھلاانہیں اُن دہشت گردوں سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے جو علاقہ غیر سےآکرخود کُش حملے کرتےتھے!اِس دلیل میں وزن اِسلئے نہیں کہ دہشت گردی ایک فعل ہے ، یہ فعل جو بھی کرے گا وہ دہشت گرد کہلائے گا ،کسی کو محض اِس بنیاد پر رعایت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پڑھا لکھا ہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ کیا انہیں اپنے کئے پر کوئی پچھتاوا ہے ،کیا واقعی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے ، کیا انہیں اِس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے ماضی میں اپنے مخالفین کے ساتھ جو سلوک کیا وہ خلاف آئین اور قانون تھا، کیا اُن کے حالیہ کسی رویے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ ماضی میں کی گئی اِن حرکتوں پر شرمسار ہیں یا کم ازکم انہیں دہرانے کا ارادہ نہیں رکھتے؟شاید ایک دودھ پیتا بچہ بھی اِن سوالات کے جوابات جانتا ہے۔ اگر اِن لوگوں کو معافی دیدی جائےاور کچھ عرصے بعد حالات اِن کے حق میں سازگار ہوجائیں اور پھر چند ماہ یا سال بعدانہیں کسی نہ کسی طریقے سے اختیار مل جائے تو یہ لوگ کیا کریں گے، یہ لوگ وہی کریں گے جو مندرجہ بالا ٹویٹ کے جواب میں انہوں نے کیا اور اِس بات کا لحاظ بھی نہیں کریں گے کہ کون پڑھا لکھا ہے اور کون ان پڑھ،ہر وہ شخص جو اِن کے خلاف زبان کھولے گا اُسکی زندگی مقدمہ چلائے بغیر ہی اجیرن کر دی جائے گی۔

یہ تمام باتیں چاہے درست ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی اِن کی آڑ میں نا انصافی اور خلاف آئین و قانون اقدامات کو جواز فراہم نہیں جا سکتا ہے ،اُس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خلاف آئین اقدام کو جواز فراہم کرنے کی روایت ڈال دی جائے تو پھر اُس پر بند نہیں باندھا جا سکتا،ایسی صورت میں کل کو کوئی دوسرا طالع آزما اٹھے گا اور کسی بھی بات کو جواز بنا کر آئین سے ماورا بندو بست نافذ کردے گا، اُس صورت میں کیا ہم اُس بندو بست کا بھی دفاع کریں گے!مصیبت مگر وہی ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے انہیں آئین اور قانون کی یہی باتیں سمجھائی جاتی تھیں مگراُس وقت انہیں اِن باتوں سے بغاوت کی بُو آتی تھی اور وہ ایسی باتیں کرنے والوں کے خلاف غداری کے مقدمے بنایا کرتے تھے۔ لیکن اِس کے باوجود آج ہمیں اِن لوگوں کے خلاف غداری کے مقدمات بنانے کی حمایت نہیں کرنی چاہئے کہ جمہوریت اور فسطائیت میں یہی تو فرق ہے۔ اِس تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اِن میں سے بہت سے لوگ حقیقتاً حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر پُر امن احتجاج اور جدو جہدمیں یقین رکھتے ہیں، ایسے لوگ کسی بھی ملک اور جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں ، اگر یہ لوگ جیل کی سختیاں جھیل گئے تو آنے والے وقت میں یہ ملکی معاملات میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔اِس سارے معاملے میں یہ واحد خوش گمانی ہے جو رکھی جا سکتی ہے ’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔‘