خواتین کے زمانوں میں ماہ پارہ کا زمانہ

June 04, 2023

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
لکھنے والوں کو مشکل وہاں پیش آتی ہے جب وہ خوبیوں کی مالک شخصیات پر اپنا قلم جنبش میں لاتے ہیں۔ ان کی سمجھ سے بالا ہوتا ہے کہ وہ ان کی شخصیت کو احاطہ تحریر میں لانے کو کون ساپہلوپہلے اجاگر کریں پھر شخصیت بھی اگر جدت پسند ہو، دقیانوسی سماج کے برخلاف اڑنا چاہتی ہو، اپنی راہیں ترقی کی منزل کی جانب گامزن رکھنا چاہتی ہو، نسواں کی حق تلفی سےمعاشرے کو جھنجوڑ کرباور کرانا چاہتی ہو کہ ’’ہمیں بھی برابری اور اعتدال کے زاویئے پر پرکھا جائے کہ ہم بھی مردوں کی طرح متحرک ہوکر اپنا مقام بنا سکتی ہیں‘‘۔ تو پھر ایسی خواتین کی خوبصورتی پر ، نفاست پر، ہنر پر، جوہر پر اور دیگر خوبیوں پر کیوں نا تعریفی تمہید باندھی جائے جو ایک ہی سانس میں ایسے بیان ہو گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا جائے۔ تو کیا کہوں؟ افسانہ کہوں، تمہید باندھوں، تعریف کے پل کھڑے کروں، آپ کی مضبوط شخصیت کے گن گائوں، آپ کی صلاحیتوں کو کیسے کیسے اجاگر کروں، آپ کو نسواں کی رول ماڈل کہوں، موٹیویشنل ماڈل کہوں،سبق کہوں، معیار کہوں، نسواں کا وقار کہوں، اعتماد کی خوگر کہوں، نسائی مزاج کی ملکہ کہوں! سبھی کچھ کہوں تو یہ کیوں نا کہوں کہ ماہ پارہ صفدر زیدی آپ ہم جیسی بہت سی خواتین کیلئے اور اس دور کی بلکہ اپنے زمانے کی خواتین کیلئےمشعل راہ ثابت ہوئیں۔ پھر اسی ثابت قدمی نے آپ سے اپنی آپ بیتی ’’میرا زمانہ‘‘ تخلیق کرا دی۔ یوں یہ تمہید ماضی کی نیوز ریڈر بلکہ بہترین لب و لہجے سے خبریں ادا کرنے والی ماہ پارہ صفدر زیدی سےمتعلق ہے کہ کیسے انہوں نےاب سے چار یا پانچ دہائی قبل اپنے اعتماد سے نشریاتی ادارے میں قدم رکھا اور اس دور کی خواتین کو بتایا کہ معاشرتی دبائو میں آکر خواتین کو اپنی صلاحیتیں، ہنر و گن کو لپیٹ نہیں دینا چاہیئے بلکہ اعتماد سے بغیر کسی نسائی پابندی کے اجاگر کرنا چاہئے جیسا کہ آپ نے کیا۔خواہشات کو پر لگ جائیں تو انسان خود کو اڑتا محسوس کرتا ہے تو ماہ پارہ نے بھی اس دور میں کچھ عام ڈگر سے ہٹ کر کرنے کی خواہش کی ہوگی تبھی انہوں نے اس دور میں خبریں پڑھنے کو ترجیح دی۔ ماہ پارہ کہتی ہیںکہ اس دور میں جب پاکستانی معاشرے میں جدت کا رحجان کم ہی تھا اور اس پر خدا کا کرم کہ والدین کو اللہ نے چھ بیٹیوں سے نواز رکھا ہو اور والدین بھی انہیں خدا کی رحمتیں سمجھ کر معاشرے میں اعلیٰ مقام پر دیکھنے کے تمنائی ہوں تو پھر با صلاحیت بیٹیاں کیوں نا بام عروج تک پہنچتیں۔ خواتین کے معاملات میں بنیادی مباحثہ ان کی آزادی سےمتعلق ہوتا ہے۔ عورت کا استحصال یوں تو ہر معاشرے میں کسی نہ کسی نوعیت کا ہوتا ہے مگر ایشین ممالک میں عورت کی آزادی کو جانے کیا کیا نام دیا جاتا ہے۔مشکل پیش نہیں آتی اگر حوا کی بیٹیاں ٹھان لیں کہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہی ہے تو یوں لگتا ہے کہ ماہ پارہ اور ان کی بہنوں نے اپنی کامیابی کو اس دور میں چیلنج سمجھ کر لیا۔ شاید اس زمانے میں نسائی مسائل میں خواتین کی آزادی بھی اہم مسئلہ ہو کہ وہ کسی بھی شعبے میں آگے نہ بڑھ سکیں حتیٰ کہ خواتین کو مقدس پیشوں ڈاکٹر، ٹیچر، نرس، بینکر اور لکھاری ہونے سے روکا جاتا ہو مگر وہاں چھ بہنوں نے مختلف شعبوں میں ترقی کرکے اس زمانے کے اپنے پرائے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور کمال تو وہاں ہوا ہوگا کہ جب ماہ پارہ نے نشریاتی ادارے سے خبریں پڑھنےکا ذمہ سنبھالا۔ماہ پارہ کی کتاب کے تین حصےہیں ایک تو ان کی آپ بیتی دوسری تاریخی اہمیت کی حامل بھی ہے مگر خاتون ہونے کے ناطے بذات خود ان کی مختلف شعبے میں ترقی کرنا ہے نیوز ریڈر کی حیثیت سے۔ خدا کے عطا کردہ گُن کو استعمال کرکے ہمت و حوصلہ بنی دوسری ناریوں کیلئے۔ ہمیں یقین ہے کہ اردگرد کے احباب کی خواتین میں ضرور ہلچل مچی ہوگی اور جانے کتنوں کے دل مچل گئے ہونگے کہ وہ بھی ماہ پارہ اور انکی بہنوں کی طرح مختلف شعبوں میں متحرک ہو سکیں اور کئی ایک تو ہوئی بھی ہونگی۔ ’’میرا زمانہ ‘‘ کتاب لکھ کر ماہ پارہ نے سماجی رویوں کو خواتین کیلئے ایک قسم کی تحریک بنا دیا جس میں جبرواستحصال، حق تلفیاں، غیر مساوی حقوق اور ناروا سلوک کے خلاف ہر عورت کھڑی نظر آئے۔ ماہ پارہ جب ماضی کے سفر کو بیان کرتی ہیں تو وہاںبھی ہمیں نسائی جدوجہد نظر آتی ہے۔برطانوی افق پر جگمگاتا ماہ پارہ اور صفدر ہمدانی کا یہ گھرانہ علمی، ادبی اور کسی حد تک ثقافتی کشش رکھتا ہے۔ اس گھرانے کے بچوں سےلیکر بڑوں تک کے کردار ایک خاص علمی روشنی سے منور ہیں۔ علم و ادب کے اس مسکن کیلئےمزید دعائیں کہ ادب کے ، تہذیب کے ستون پر کھڑی ان کی عمارت ہم سب کیلئے سایہ رحمت بنی رہے کہ ہم بھی ان شخصیات سے کچھ سیکھ سکیں ویسے ہم تھوڑے سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ جہاں ہم نے پروفیسر الطاف فاطمہ، ناہید ندیم قاسمی سے تعلیم پائی وہیں ہم نے ماہ پارہ کی بڑی بہن طلعت نایاب کے گوہر علم سے اپنا ذہنی شعور بڑھایا۔ ’’میرا زمانہ، میری کہانی‘‘ ہم تک پہنچانے کیلئے ماہ پارہ کا شکریہ کہ آپ نسواں کی ہمت کی دلیل اور کمزور ناریوں کیلئے سکندر ہو۔