عشرہ ذی الحجہ

June 09, 2023

مولانا نعمان نعیم

ہر سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے (سال چاہے انگریزی ہو یا اسلامی) انگریزی مہینوں کو شمسی مہینے بھی کہا جاتا ہے اور اسلامی مہینوں کو قمری مہینوں کا نام دیا گیا ہے۔ اسلامی مہینوں کی ابتداء چاند کے نکلنے سے ہوتی ہے اور دوبارہ جب ہلال کی صورت میں چاند نظر آتا ہے تو اگلا مہینہ شروع ہوجاتا ہے۔

قمری مہینوں میں ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام مہینے دنیا میں پائے جانے والے تمام موسموں میں آتے رہتے ہیں، کبھی کوئی مہینہ گرمیوں میں آرہا ہے تو یہی مہینہ سردیوں میں بھی آتا ہے، برسات میں بھی آتا ہے، بہار میں بھی آتا ہے اور خزاں میں بھی آتا ہے، چونکہ یہ چاند کی چالوں پر منحصر ہے، اس لیے یہ مختلف موسموں میں اَدلتے بَدلتے رہتے ہیں۔

اسلامی کیلنڈر کے سال کے بارہ مہینوں کی ابتداء محرم الحرام کے مہینے سے ہوتی ہے اور اس کی تکمیل ذی الحجہ کے مہینے میں ہوتی ہے۔ اسلامی معلومات کے تحت اس سال کے دوران آنے والے مختلف مہینے اپنے اندر پائے جانے والے اعمال کے تحت اہمیت کے حامل ہیں، جیسے کہ رمضان المبارک کا مہینہ، روزوں اور تراویح اور دیگر عبادات کی وجہ سے اہمیت و فضیلت کا حامل ہے، ان اہمیت والے مہینوں میں ایک مہینہ ذی الحجہ کا بھی ہے، اس مہینے کو اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے فضیلت واہمیت والا مہینہ قرار دیا ہے اور اس میں مختلف اعمال مخصوص شرائط کے ساتھ اپنے ماننے والوں پر لازم کیے ہیں۔

جہاں تک ذی الحجہ کے مہینے کا تعلق ہے ،اس کے پہلے دس روز ایسے ہیں کہ قرآن مقدس میں ﷲ تعالیٰ نے اس کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :وَ الْفَجْرِ،وَ لَیَالٍ عَشْرٍ’’ فجر کے وقت کی اور دس راتوں کی قسم۔‘‘ مفسرین کرام کے مطابق یہ دس راتیں ذی الحج کے پہلے عشرے کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی مہینے کی آٹھ تاریخ سے تیرہ تاریخ کی دوپہر تک پانچ دن ایسے مخصوص فرمائے ہیں ،جس میں مال و دولت رکھنے والے مسلمان (مرد و عورت) لوگوں کو زندگی میں ایک مرتبہ ﷲ تعالیٰ کے گھر یعنی بیت ﷲ بلایا جاتا ہے اور وہاں اِن مخصوص دنوں میں، مخصوص ہیئت کے ساتھ، مخصوص مقامات پر، مخصوص اوقات میں، مخصوص اعمال کرنے کو کہا جاتا ہے، اس کا اصطلاحی نام حج ہے۔ اِن پانچ دنوں میں صاحب استطاعت فرزندانِ اسلام دنیا کے چاروں طرف سے لاکھوں کی تعداد میں وہاں جمع ہوتے ہیں، بلاوا تو زندگی میں ایک مرتبہ ہے لیکن بعض خوش قسمت ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ یا ہر سال اہتمام سے عاشقانہ حاضری دیا کرتے ہیں۔

ذی الحجہ کی نو تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ تاریخ کی عصر کی نماز کے بعد تک ان پانچ دنوں میں ہر فرض نماز کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں (مرد و عورت) کو ایک ذکر کرنے کو بتایا گیا ہے جس کا اصطلاحی نام تکبیر تشریق ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، لا الٰہ الاّ ﷲ، وﷲ اکبر، ﷲ اکبر، وللّٰہ الحمد۔ مردوں کو یہ تکبیر قدرے بلند آواز سے پڑھنی ہوتی ہے اور عورتوں کو آہستہ آواز سے، اس تکبیر کا پڑھا جانا مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔ مرد حضرات اس میں عموماً کوتاہی یہ کیا کرتے ہیں کہ پڑھتے ہی نہیں یا بلند آواز سے نہیں پڑھتے، یہ دونوں باتیں وجوب کے خلاف ہیں اور اِن کی اصلاح ائمہ حضرات کو کرتے رہنا چاہیے۔

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت یہ بھی ہے کہ ان ایام میں ہر قسم کی عبادات جمع ہوجاتی ہیں، ان دنوں میں کلمۂ شہادت کے اقرار، تجدیدایمان اور کلمہ کے تقاضوں کی تکمیل کا بھرپور موقع ہے، ان دنوں میں صلاۃ پنج گانہ اور دیگر نفل نمازیں بھی ہیں، ان دنوں میں صدقہ وزکاۃ کی ادائیگی کا موقع بھی ہے، ان میں روزے کی عبادت بھی ادا کی جاسکتی ہے، یہ دن حج وقربانی کے دن تو ہیں ہی،البتہ حج وقربانی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف ان ہی دنوں میں ادا کئے جاسکتے ہیں دیگر ایام میں نہیں، ذکرودعا اور تلبیہ پکارنے کے بھی یہ ایام ہیں۔

ہر قسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہوجانا یہ وہ شرف واعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے، اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک نہیں۔ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تکمیل کی ہے۔ تکمیل دین وہ گراں قدر عطیہ ہے جس سے اہل دین کی تکمیل ہوتی ہے، ان کے اعمال وکردار اور اجروثواب کی تکمیل ہوتی ہے، حیات کاملہ نصیب ہوتی ہے، اطاعت وفرماں برداری میں لذت ملتی ہے، گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، مخلوقات کی محبت ملتی ہے، ایمان اور اہل ایمان کو طاقت وقوت ملتی ہے، نفاق اور اہل نفاق ذلت وپستی میں گرجاتے ہیں، تکمیل دین سے نفس امارہ پر، شیطان لعین پر اور نارواخواہشات پر غلبہ نصیب ہوتا ہے، اللہ کی عبادت میں نفس پُرسکون ہوتا ہے، قرآن مجید میں تکمیل دین کا اعلان بھی اسی عشرے میں ہوا ہے، جس کی بنا ءپر یہودی ہم سے حسد کا شکار ہوگئے، ایک بار ایک یہودی عالم نے سیدنا عمرفاروق ؓسے کہا: آپ کی کتاب قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم یوم نزول کو عیدبنالیتے، وہ آیت ہے: آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا، اور تم پراپنا انعام بھرپور کردیا،اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (سورۃالمائدہ)حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی ہے؟جمعہ کے دن میدان عرفات میں نازل ہوئی ہے۔

ان دس بابرکت دنوں کے مستحب اعمال: ۔ حج اور عمرہ کی ادائیگی دونوں سب سے افضل عمل ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: پے در پے عمرہ کرنا دو عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مقبول کا صلہ جنت ہی ہے (جنت کے سوا کچھ بھی نہیں) (متفق علیہ) پورے دنوں کے روزے رکھنا یا اتنے رکھنا جتنے کہ رکھ سکیں (عید اور ایام تشریق کے علاوہ) امام نووی ؒ نے یبان فرمایا کہ روزہ رکھنا نہایت درجہ مستحب عمل ہے۔ (شرح مسلم) نبی کریم ﷺ سے عرفہ کے روزے کے متعلق دریافت کیے جانے پرآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے"۔(صحیح مسلم) کثرت سے عمل صالح انجام دینا جیسے نفلی عبادتیں، روزہ، خیرات، تلاوت اور صلۂ رحمی وغیرہ۔ زیادہ سے زیادہ سبحان اللہ، الحمدللہ، لاالہٰ الاّاللہ، اللہ اکبر کہتے رہنا۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی پاکی، بڑائی، حمد وثناء بیان کرو اور اس کی بندگی وعبودیت کا اظہار کرو"۔(مسنداحمد)

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ ایام حج میں منیٰ کے اندر اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیر پڑھا کرتے تھے اور اس طرح مسجد میں موجود لوگ اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے ان کی آواز سن کر پڑھا کرتے تھے، پھر پورا منیٰ ان آوازوں سے گونج اٹھتا تھا۔(امام بخاریؒ نے اس حدیث کو معلق روایت کیا ہے)

قربانی کی تیاری: رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے: "جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور جس کسی نے بھی قربانی کرنے کی نیت کی ہو تو پھر اسے اپنے بال کتروانے اور ناخن تراشنے سے رکے رہنا چاہیے۔(مسلم شریف)

ذی الحجہ کی نو تاریخ اصطلاح میں یومِ عرفہ کہلاتی ہے، اس تاریخ کو حجاج تو عرفات کے میدان میں جمع ہوتے ہی ہیں اور وہاں دن بھر رہتے ہیں، لیکن وہاں حاضر نہ ہوسکنے والے مسلمانوں کو بھی ایک ترغیب اس تاریخ کے حوالے سے دلائی گئی ہے کہ مسلمان اس دن ایک نفلی روزہ رکھیں، یہ انتہائی فضیلت والا روزہ ہے، یہ واحد وہ نفلی روزہ ہے جس کے متعلق احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ ﷲ تعالیٰ اس روزے دار کے پچھلے ایک سال کے اور اگلے ایک سال کے یعنی اگلے اور پچھلے دونوں سالوں کے (صغیرہ) گناہوں کو معاف فرما دیا کرتے ہیں، یہ ﷲ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ ابھی گناہگار نے گناہ کیے بھی نہیں ہوتے اور اس سے اگلے سال صادر ہونے والے گناہوں کو صادر ہونے سے پہلے ہی ﷲ تعالیٰ معاف کرنے کا فیصلہ فرماچکا ہوتا ہے۔

ذی الحج کی دس تاریخ کی صبح سے بارہ تاریخ کے سورج کے غروب ہونے تک ایک اور اہم عبادت صاحب مال مسلمان مرد و عورت پر دنیا بھر میں اپنی جگہ پر رہتے ہوئے لازم کی گئی ہیں، اس کا اصطلاحی نام قربانی ہے، یہ قربانی مخصوص جانوروں کے ان تاریخوں میں ذبح کیے جانے سے ہی ادا ہوتی ہے۔

قربانی کا کوئی اور نعم البدل نہیں ہے، یعنی اس کی جگہ کوئی بدنی اور مالی عبادت نہیں کی جاسکتی، یہی جانور کا ذبح کرنا قربانی کے نام سے ان تاریخوں میں مخصوص اور مقرر ہے جیسے نماز کی جگہ روزہ نہیں رکھا جاسکتا، روزے کی ضرورت زکوٰۃ سے پوری نہیں ہوسکتی، زکوٰۃ کی اہمیت حج سے کم نہیں ہوسکتی، ہر عبادت اپنی جگہ مستقل حیثیت و اہمیت رکھتی ہے، اسی طریقے سے یہ اور اِن جیسے دوسرے نیک اعمال قربانی کے قائم مقام نہیں بن سکتے، یہاں مخصوص جانوروں میں شرائط پورے کرنے والے جانوروں میں سے کسی ایک جانور کا ایک صاحب مال (مرد و عورت) کی طرف سے ذبح کیا جانا لازمی ہے یا جن جانوروں میں شریعت نے سات حصّوں کی گنجائش رکھی ہے اُن میں سے کسی ایک حصّے کو قربانی کے لیے لازم کرنا ضروری ہے۔

قربانی کے حوالے سے اس کے واجب ہونے کے لیے سب سے پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ بات واضح طور پر ارشاد فرمائی کہ جو لوگ قربانی کی وسعت رکھتے ہوں اور قربانی نہ کرتے ہوں تو وہ ہماری عیدگاہوں میں بھی حاضر نہ ہُوا کریں، دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اعمال میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ آپﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال پابندی سے قربانی کا اہتمام فرمایا ۔اِن دو قولی اور عملی باتوں سے امام ابوحنیفہؒ اور اُن کے پیروکار قربانی کو وجوب (واجب) کا درجہ دیا کرتے ہیں، دیگر ائمہ کے نزدیک قولی اعتبار سے تو یہ واجب نہیں، بلکہ سنتِ مؤکدہ ہے، لیکن عملی اعتبار سے وہ حضرات عملی طور پر اسے وجوب ہی کا مقام دیتے ہیں۔