کینیڈا میں جنگل کی آگ …

June 10, 2023

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
ماحولیات میں توازن اتنا خراب ہو چکا ہے کہ کرہ ارض پر ہم اپنی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ انرجی کے حصول اور استعمال کے تمام انسانی ذرائع کرہ ارض میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کی تعداد میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ جس سے زمین کے مختلف حصوں میں درجہ حرارت اور آلودگی دونوں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، کہیں بارشوں اور سیلابوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے تو کہیں خشک سالی چکر لگانے لگی ہے، کہیں آسمانوں میں بجلیوں کی گھن گرج نے خوفزدہ کر رکھا ہے اور کہیں بیٹھے بیٹھے جنگلوں کو آگ لگ جاتی ہے جو لاکھوںایکڑ زمین کے ساتھ ساتھ چرند پرند اور حیوانات کی کئی نسلوں کو مکمل ختم کر دیتی ہے۔ آجکل کینیڈا میں وائلڈ آگ نے پہلی دفعہ مشرقی امریکہ کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔اس کے دھوئیں سے تقریباً ایک چوتھائی امریکہ سفید زہریلے دھوئیں کے بادلوں تلے گھر چکا ہے جس سے علاقے کی ہوا بری طرح خطرناک ہو چکی ہے۔ دھوئیں میں موجود باریک زرات سانس لینے میں مشکل پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے پورےعلاقے کو مسلسل ہنگامی بنیاد پر آگہی دی جارہی ہے۔ نیویارک شہر کی آسمان سے لی گئی تصاویر مریخ کی طرح سرخ دکھائی دے رہی ہیں۔ شہریوں کو کہا جارہا ہے کہ وہ فقط انتہائی ضرورت کیلئے گھر سےباہر نکلیںوگرنہ اس مہلک فضا کے خطرات سےبچنے کے لئےگھروں میںہی بند رہیں۔ اس تمام آگ سے پیدا ہونے والے دھوئیں کا مرکز کینیڈا کے علاقے کیوبک کے جنگلات ہیں جبکہ انٹاریو سے لیکر نیویارک کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اب نیوجرسی بھی اس دھوئیں کی لپیٹ میں آچکا ہے اور وہاں بھی لوگوں کو مسلسل گھر سےنکلنے پر وارننگز دی جارہی ہیں اور لوگوں کو وارن کیا جا رہا ہے کہ جہاں جہاں یہ دھواں پہنچ رہا ہے وہاں تیز ہوائیں بجلی کی چمک اور کڑک لیکن بغیر بارش کے حبس اور سخت خشکی کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ واشنگٹن اور اس کے اردگرد کےعلاقوں میں بھی خشک مٹی سے بھرے ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہیں اور مشی گن سمیت کئی علاقوں میں آگ بھڑکنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے مناظر گزشتہ برسوں میں آسٹریلیا، کیلی فورنیا، یورپ (اسپین) اور چین میں دیکھے گئے تھے۔ کینیڈا میں حالیہ آگ سے سوا تین ملین ایکڑ زمین جل چکی ہے۔ آگ بجھانے کے لئے کینیڈا اور امریکہ مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں جہاں آگ سے چھو کر گزرنے والی ہوائیں شدید خشک ہو جاتی ہیں۔ آسمانی بجلی کی کڑک آگ کو پھیلانے اور بھڑکانے میںجلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ماحولیات کی ریسرچ کے ایک میگزین نےاپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا میں گزشتہ 35 برسوں میں 40 فیصد جنگلات جل کے راکھ ہو چکے ہیں جو کل ملا کر 20 ملین ایکڑ زمین بنتی ہے جو کہ پورے آئرلینڈ سے بڑا علاقہ بنتا ہے۔ دراصل ہمارےکرہ ارض میں آہستہ آہستہ جو درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ ایسے گرمی کے واقعات رونما ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ وائلڈ آگ اسی کی شکل ہے اور ہم ہیٹ ویوز کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا یہ ہیٹ ویوز بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں ، پھر ان کا دورانیہ دو سو سال بعد ہوگیا، اب جس طرح ہمارے کرہ ارض کی گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے اب بڑے بڑے ہیٹ ویو کے طوفان ہر دس سال بعد یا اس سے بھی جلدی آنے لگیں گے۔ ان ہواؤں میں ایسے ایسے باریک جرثومے بھی ہوتے ہیں جو جاندروں کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس گرمی سے فقط لکڑی والےجنگلات ہی آگ نہیں پکڑتے بلکہ ہ آگ گھاس کو بھی پکڑ لیتی ہے کیونکہ گرمی اور خشک ہوائیں گھاس کو بھی سکھا کے جلا ڈالتی ہیں۔ اس گرمی میں اضافے کا سبب دراصل ہم خود انسان ہی ہیں جو ترقی کی ان بلندیوں کو جلداز جلد چھونا چاہتے ہیں جہاں زندگی کا مکمل خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ جنگیںاور سرحدوں پر گرما گرمی اور ایک دوسرے کونیچا دکھانے اور تباہ کرنے کا شوق خطرناک اسلحے کے دوڑ میں مبتلا کرکے ہمارے کرہ ارض کو انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں چھوڑے گی اور انسان ترقی کرتا کرتا خود کو ہی کھا جائےگا۔