کراچی ( رپورٹ :محمد منصف ) قومی ورثہ قرار دی گئی عمارتوں کو مبینہ طور پر سندھ حکومت سے بااثر حلقے خریدنے لگے جس پر سندھ ہائی کورٹ نے قومی ورثہ میں شامل عمارتوں کا 27 سالہ ریکارڈ ایک ہفتے میں طلب کرتے ہوئے سول لائن کی قدیم عمارت کی جگہ کثیرالمنزلہ بلڈنگ کی تعمیر سے روک دیا ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عبدالرحمٰن نے سیکریٹری محکمہ ثقافت و سیاحت کو حکم دیا ہے کہ 1996سے اب تک وہ قدیم عمارتیں جو قومی ورثہ کی فہرست سے خارج کی گئیں ہیں اور اس حوالے سے محکمہ کے احکامات پر مشتمل تمام ریکارڈ ایک ہفتے تک عدالت میں جمع کروائیں۔ سماعت کے موقع پر سیکریٹری ایڈوائزری کمیٹی سندھ کلچرل ہیریٹیج حلیم لغاری عدالت عالیہ کے روبرو پیش ہوئے پیش ہوئے مہلت طلب کی کہ کچھ وقت کہ عدالت میں تفصیلی ریکارڈ پیش کیا جا سکے۔ جسٹس عبدالرحمٰن نے مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ 1996 سے اب تک قومی ورثہ ریکارڈ سے نکالی گئی عمارتوں کی تفصیلات اور اس سے متعلق محکمے کے تحریری احکامات پر مشتمل مکمل دستاویزاتی تفصیلات ایک ہفتے تک جمع کرائیں ، عدالت عالیہ نے آئندہ سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔ قبل ازیں سول لائن کے شہری سراج احمد اور کلفٹن کے رہائشی محمد فہد نے ٹی پی ایل پرائیویٹ لمیٹڈ، ڈائریکٹر جنرل محکمہ ثقافت، سیاحت، نوادرات، اینڈ آرکائیو سندھ ، ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، ڈائریکٹر جنرل ماسٹر پلان کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ 1996 میں سول لائن کی حدود میں واقع ایک قدیم عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا گیا تاہم 12 سال بعد 2008 میں ٹی پی ایل نامی ایک نجی فرم نے مذکورہ قدیم عمارت کو سندھ حکومت سے مبینہ طور پر خرید لیا اور بعد ازاں مبینہ طور پر قومی ورثہ کے ریکارڈ سے بھی اس عمارت کو نکلوا دیا اور اب اسی عمارت کی زین پر نئی بلڈنگ بنائی جا رہی ہے۔ لہذا عدالت عالیہ سے استدعا ہے کہ غیر قانونی و غیر آئینی اقدام سے روکا جائے۔