ہنگو کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے وقت خود کش دھماکہ ہوا ۔ مستونگ میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں خود کش دھماکہ ہوا۔اس سے پہلے بھی سینکڑوں خود کش حملے ہوئے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خود کش بمبار کیسے تیار کئے جاتے ہیں ۔پہلے میرا خیال تھا کہ مذہب کی بنیاد پرکچے ذہنوں کو اس سطح پر لانے میں کچھ لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں مگر ایک طویل تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ نہیں ۔مذہب کا تو ایک معمولی سا پہلو ہے ان کی تیاری میں ۔انہیں تیار کرنے والے ماہرین بچوں پرمختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں ۔پھر وہ ہپناٹائز کئےجاتے ہیں اور ان کے سحرزدہ دماغوں میں صرف یہی بات ڈال دی جاتی ہے کہ اس کو فلاں جگہ جانا ہے اور یہ بٹن دبا دینا ہے ۔یہ کام کوئی مولوی نہیں کر سکتا ۔تحریک طالبان پاکستان یا دوسری دہشت گرد تنظیموں کے اپنے اندر ایسے ماہرین جنم نہیں لے سکتے ۔یہ کام تو بہت ہی پڑھے لکھے اور باقاعدہ تیار شدہ ماہرین کر سکتے ہیں ۔جن کے پاس دماغ کو کنٹرول کرنے والی ذہنی قوت ہواور وہ ماہراس بچے کی زبان بھی جانتا ہو وگرنہ کسی پندرہ بیس سالہ بجے کو موت کیلئے تیارکرنا نا ممکن ہے۔
پہلے ہم یہ باتیں صرف کہا نیوں میں پڑھا کرتے تھے مگر اب ترقی یافتہ دنیا نے ایسا کرنا ممکن بنا لیا ہے۔ یقیناً یہ غیر ملکی ماہرین ہیں جو مسلمان تو قطعاً نہیں ہوسکتے ۔انہیں مسلمانوں کے بہروپ میں دہشت گرد تنظیموں میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دے سکیں ۔اگر یہ لوگ اتنی آسانی سے مل سکتے تو کشمیری حریت پسندوں کی طرف سے بھی بھارت میں کبھی کوئی خود کش دھماکہ ہوتا،خالصتان کی تحریک چلانے والے کبھی ایسا کچھ کرتے ۔بھارت میں آزادی کی کتنی تحریکیں چل رہی ہیں مگر خودکش بمبار وہاں تیار نہیں ہو سکے۔
تاریخ کی کتابوں میں حسن بن صباح کا ذکر ملتا ہے جس نے خود کش فدائین تیار کئےتھے ۔وہ بھی انہیں سحرزدہ کرنے کیلئے مختلف نشہ آور دوائیاں کھلاتا تھا اور اپنے زمانے کا بہت بڑا ساحر تھا ۔اس نے باقاعدہ اپنی جنت بھی بنائی ہوئی تھی پھر بھی تاتاریوں سے شکست کھا گیا تھاکیونکہ بڑی تعداد میں خود کش فدائین تیار کرنا اس کیلئے بھی ممکن نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق موجودہ خود کش بمبار چند دنوں میں تیار ہوجاتے ہیں ۔یہ سائنسی ایجادات کے بغیر ممکن نہیں۔خود کش بمباروں کو دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ جیب میں رکھے سوئچ کو بار بار ٹٹولتے ہیں ۔ ان کی آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں ،ہونٹ کپکپارہے ہیں، ان کی کیفیت بالکل سحرزدہ آدمی کی ہوتی ہے۔گیارہ ستمبر کے خود کش حملہ آوروں کے متعلق اگرچہ کئی تجزیے کئے گئے ۔کچھ دماغی امراض کے ماہرین نے کہا کہ چونکہ انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے ہوائی جہازوں کو عمارتوں سے ٹکرادیا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقصد کیلئے جان دینا چاہتے تھے لیکن ان کی تمام تر تفاصیل جاننے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں۔دراصل خودکش حملہ آورکسی شدید بحران اور ناقابلِ برداشت تکلیف سے بچنے کیلئے خود کو ہلاک کرتے ہیں ۔ان افراد میں سے اکثر مختلف اقسام کی ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں خوف، ناکامی، شرمندگی، غضب اورقصور وار ہونے کا تصور بڑھایا جاتاتھا۔ جس فلسطینی مجاہدہ نے اسرائیل میں خود کش دھماکہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔وہ اس سے قبل دو مرتبہ اقدامِ خودکشی کرچکی تھی ۔اسی طرح قاری سمیع نے دوہزار پانچ میں کابل کے ایک کیفے میں خود کو دھماکے سے اُڑادیا تھا۔ وہ ایک کیفے میں داخل ہوا کھانے کی میزوں اور لوگوں کو عبور کیا، کیفے کے باتھ روم میں پہنچا۔ دروازہ بند کرکے اس نے بارودی بیلٹ کو چلادیا۔ وہ چاہتاتوبہت آسانی سے بہت سارے لوگوں کو مار سکتا تھا ۔ وہ بھی انٹی ڈپریسنٹ دوائیں استعمال کررہا تھا۔اسی طرح گیارہ ستمبر کاخود کش محمد عطا کئی برس سے الگ تھلگ رہ رہا تھا، شدید ڈپریشن، شرمندگی اور نا امیدی کا شکار تھا۔ایسی حالات میں کوئی ہیپناٹسٹ اس سے کچھ بھی کرا سکتا تھا۔ اسی طرح تل ابیب یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات ایرل میراری نے حال ہی میں پندرہ ناکام خودکش حملہ آوروںکا نفسیاتی مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ آٹھ شدید ڈپریشن میں تھے، چھ خودکشی کی جانب مائل نظر آئے اور ان میں سے دو افراد پہلے ہی خودکشی کی کوشش بھی کرچکے تھے۔
بے شک کئی لوگ ضرور ایسے ہونگے جو اپنے مقصد کیلئے جان قربان کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے ہونگے ۔ مگر مسجدوں میں دھماکے کرنے والے پندرہ سے بیس بائیس سال عمر کے خود کش بمبار وہ نہیں ہو سکتے ۔یہ یقیناً پاکستان کو تباہ کرنے والے دشمنوں کی سازش ہے۔جو سمجھتے ہیں پاکستان انتہائی کمزور حالت میں ہے ۔ معاشی طور پر اور سیاسی طور پر بھی ۔ایسی صورت میں اسے اور کمزور کیا جائے۔وہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں الیکشن ہوں اور ملک کو استحکام ملے ۔ میرے خیال میں اسی لئے دہشت گردی کا سلسلہ بڑھایا جارہا ہے ۔اللہ نہ کرے یہ پنجاب ، اسلام آباد ،کراچی اور سندھ تک پہنچے مگر مجھے خطرہ ہے کہ پہلے خیبر پختون خوا میں آگ لگائی گئی ۔ اب بلوچستان میں خون بہا یا گیا اس کے بعد سندھ اور پنجاب کی طرف دہشت گرد رخ کریں گے ۔ فوری طور پر افواج پاکستان کو اس سلسلہ میں کارروائی کرنا ہے وگرنہ معاملات خرابی بسیار کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔