سازشوں کا جال بُنتے بُنتے خود ہی اُس میں نہ الجھ جائیں

December 10, 2023

گھر والے ٹی وی کے آگے بُت بنے ، منہ اور آنکھیں کھولے ، سسرال والوں کی سازشوں کو ،جو وہ اپنی نام نہاد بہو کے خلاف کر رہے تھے ، بڑے غور و توجّہ سے دیکھ اور سُن رہے تھے۔ عرشی نے کمرے میں داخل ہو کر ایک نظر ہونق بنے اپنے اہلِ خانہ پر ڈالی، جن کو اس کے کمرے میں آمد کی بھی خبر نہ ہوئی تھی، دادی سے لے کر چھوٹی ببلی تک کا پورا دھیان ڈرامے میں پَل پَل بدلتی صورتِ حال میں گم تھا۔’’توبہ، یہ کیا آپ سب ایک ہی طرح کے ڈرامے روز دیکھتے ہیں‘‘۔ ’’ ارے، آپی آج کی قسط میں تو، ساس نے بہو کو گھر سے ہی نکال باہر کیا۔ گھر والوں کے سامنے ایسے ایسے الزامات لگائے کہ…‘‘۔’’سارے گھر والوں کی عقل کیا گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔‘‘اور بہو کس زمانے کی ہے،منہ میں زبان نہیں رکھتی۔‘‘ وہ طیش میں آگئی۔’’ نہیں نہیں، اصل میں…‘‘ بہن نے ڈرامے کے حق میں وضاحت دینا شروع کی، باقی گھر والے بھی ناگواری سے اس کے اس دخل در معقولات کو دیکھ رہے تھے۔’’ارے چھوڑو، اصل یا نقل، سوائے سازشیں ہی سازشوں کے انہیں کوئی موضوع میسّر نہیں، ارے کچھ اچھا دکھاؤ، آخر ایسا کہاں ہوتا ہے؟‘‘ بات کاٹ کر عرشی نے طنزیہ کہا۔’’ ہوتا کیوں نہیں، بالکل ہوتا ہے، یاد نہیں وہ آپا نغمہ کی بہن۔’’ امّی نے کسی دور کی رشتے دار کی یاد دلائی۔‘‘ بس خال خال امّی، ورنہ ایسے رکیک الزام کون لگاتا ہے اور اگر ایسا ہے بھی تو ضروری نہیں کہ اسے عام کیا جائے۔

ان سازشوں کے بجائے اگر خلوص و یک جہتی کا پیغام ذہنوں میں انڈیلیں تو کیا بُرا ہے۔’’معاشرے کے بگاڑ میں سب آگے ہیں، بھلا سدھار و سلامتی کو کس سے مطلب؟ یہ کہنے والی باجی جان تھیں، جو کم بولتیں تھیں، لیکن سولہ آنے بولتیں۔’’سلامتی ؟‘‘ عرشی چونکی تھی۔اور چونک تو ہم سب جاتے ہیں، جب خیر و بھلائی کی بات کریں، کسی کوعافیت و برکت کی دعا دیں، لوگوں سے بے غرض ملنا، دعا سلام کرنا بھی، آج کے حالات میں چوں کہ کم یاب ہے، لہٰذا چوکنا کر دیتا ہے،کیوں کہ بے حسی و خود غرضی کے اس دور نے ہر چہرے سے مسکراہٹ چھین کر لاتعلقی کا پیراہن پہنا دیا ہے۔ آج معاشرے میں انتشار و افتراق نے دِلوں سے گنجائشیں نوچ پھینکیں ہیں، خود غرض سوچ نے سازشوں و چال بازیوں کا جال بچھا کر ہر گھر سے مروت و خیرخواہی کا پیغام ہوا میں بکھیر دیا۔

یہ سازشیں گھریلو سطح کی ہوں یا بیرونی سطح کی۔ دفاتر، اداروں یا حکومتی سطح پر ہو، ٹانگ کھینچ کر اپنے مَن پسند کو آگے کرنا یا ناپسند کے خلاف جال بُننا انتہائی پست عمل ہے، جو ہر سطح پر خرابی و خانمائی کی بنیاد بنتا ہے۔ اللہ اپنی زمین پر امن و خوش حالی چاہتا ہے، وہ گھروں میں بھی اور گھر سے باہر ہر نظام میں سلامتی و استحکام چاہتا ہے۔

سلام کے رواج کو عام کرنے پر کیوں زور دیا گیا؟ تاکہ ہر کوئی دوسرے سے محفوظ و مامون ہو جائے۔ سلامتی دینے کے بعد ، دوسرے کو یہ پیغام پہنچانے کے بعد کہ مَیں آپ کے لیے خیر کا باعث ہوں، مجھ سے آپ کو کسی بھی قسم کے شر کا اندیشہ نہیں، اس ذریعے سے سلامتی پہنچا کر پھر ذہنی رو کیسے بہک سکتی ہے؟سوال غور طلب ہے، لیکن غور کیا نہیں جاتا، ہم نے سلام کو بالکل ایک عام جملے کی طرح لیا ہے، حالاں کہ اس میں چُھپا پیغام دِلوں کو جوڑنے اور وسعت دینے کا ہے۔ یہ دُعا جو ایک دوسرے سے ملاقات، اجنبیوں کی اجنبیت میں غیر محسوس کمی کرکے دل کے دروازے وا کرنے والی ہے۔ تو ہم کیوں پھر اس دُعا کے بے شمار استعمال کے باوجود دل و دماغ میں دوریوں و غلط فہمیوں کی دیواریں کھڑی رکھتے ہیں؟ ہم بے دریغ سلامتی بھیج کر بھی سلامتی سے گریزاں رہتے ہیں۔

اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو ہم ان منفی پروپیگنڈے کے ذریعے کتنی مشقّت میں ڈالتے ہیں، جو قابلیت درست سمت میں لگا کر کام یابی و اطمینان کی سیڑھی بن سکتی تھی، ہم نے گٹھ جوڑ کر کے ان سے گھروں میں تلخیاں بھی پیدا کیں اور ناحق فاصلے بھی، گھروں کی توڑ پھوڑ کے ساتھ دِلوں کی ٹوٹ پھوٹ کا راستہ بھی کھول دیا۔ ہم اپنے گھریلو نظام کے خاتمے کے خود مجرم ہیں، نہ خود خوشی محسوس کی اور نہ دوسروں کو ہی خوش رہنے کا باعث بنے، یہ سازشوں میں ملوّث خاندان اپنی حقیقی مسرتوں سے محرومی کی بنیاد ڈالنے والے ہیں۔

دوسروں کی ناخوشی کے منصوبہ ساز اس پہلو سے نا آشنا ہی رہتے ہیں۔ دن رات پنپتے خیالات کا ہجوم، اپنی توانائی بگاڑ پیدا کرنے میں صرف کرتے خواتین و حضرات، کاش درگزر اور افہام و تفہیم کے رستے سے بھی آشنا ہو جائیں، تو مثالی گھرانوں کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے کوشش نہیں، جدوجہد درکار ہے، کیوں کہ بھٹکانے کے لیے ہمارے ذرائع ابلاغ کا ایک حصّہ ہی کافی ہے،جو سوچ و فکر کے زاویے اس رخ پر موڑنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہے، جہاں کوئی گھر بچ نہ پائے، سازشی اور نفرت سے بھرا سیال سرنج میں لیے بازو ڈھونڈتے پِھر رہے ہیں۔ انھیں جال بُننے سے روکنا ہے، سلامتی کا پیغام عام کرنا ہے۔ سچّی راہ بڑی سادہ، کشادہ اور آسان وسہل ہے۔ اس پر چلنا دشوار نہیں، لیکن پہلا قدم رکھنا ضرور مشکل ہے۔ بس وہ پہلا قدم ہی اٹھانا ہے۔ٍ