• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماں میں نے کہہ دیا ہے مجھے مہندی کا فنکشن گرینڈ کرنا ہے اور اس میں مجھے دولہا کے ساتھ ڈانس بھی کرنا ہے جیسے آپ نے وہ فلاں ٹک ٹاکر کی وڈیو میں نہیں دیکھا تھا، کتنی شاندار شادی تھی اس کی ہر سال آ ٹھ دس تقریبات کررہی ہے وہ اپنی شادی کے سلسلے میں اور پھر بھی رخصتی ابھی تک نہیں ہوئی۔

چھ سات ڈھولکیاں، منگنی،بات پکی،پھر اس کے بعد بھی ڈھولکی، مایوں، مہندی، پری نکاح فنکشن پھر نکاح اور پھر پوسٹ نکاح فنکشن۔ افففف !میں تو کہتی ہوں اتنا پیسہ ہونا چاہیے بندے کے پاس کہ ایسی شان سے شادی کرے۔مزنہ کی جب سے شادی طے ہوئی تھی وہ اتاؤلی ہوئی جارہی تھی کہ کس طرح اپنی شادی کو منفرد بنائے۔ اس کابس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے ابا کا سارا پیسہ اپنے شادی کے فنکشنز میں ہی جھونک دے۔ 

اماں ابا بیچارے مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بیٹی کی خوشی کے لیے کئ کمیٹیاں بھی ڈالی ہوئی تھی، اس کے باوجود شادی کے خرچے تھے کہ بےلگام ہوئے جارہے تھے۔ ابا نے اپنے آ فس میں لون(قرض)کے لیے بھی درخواست دے دی تھی، کیوںکہ بیٹی کی خواہشات تھیں کہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھیں جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی تو رونا دھونا مچادیتی تھی کہ آ پ کو تو مجھ سے محبت ہی نہیں ہے ،سب ماں باپ اپنی اولاد کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے لیکن آ پ لوگ میری ذرا سی خوشی پوری نہیں کر پارہے۔

ساری زندگی آ پ نے کیا ہی کیا ہے ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے رہے ہیں، میری سہیلیوں کی شادیاں ہوئیں آ پ لوگوں نے بھی دیکھا کیسی شان سے شادیاں کیں، ان کے ماں باپ نے جب کہ وہ بھی سب مڈل کلاس فیملی کی ہی لڑکیاں تھیں ایک میرے ہی لیے ساری پابندیاں ہیں۔ قارئین یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی بن گئ ہے۔

سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کو آ پ کی ہتھیلی میں سمیٹ دیا ہے وہیں اس کی وجہ سے کتنے ہی گھرانے برباد ہوگئے ہیں۔ اس پر موجود مختلف ایپس جس میں ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک ،یوٹیوب اور دیگر ایپس نے لوگوں میں احساس کمتری، احساس محرومی اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے اور دکھاوے کا رجحان بڑھادیا ہے۔

ہر لڑکا لڑکی زیادہ سے زیادہ امیر ہونا چاہتا ہے، پوری دنیا گھومنا، بڑی بڑی گاڑیوں میں سیر وتفریح اور شاندار گھر کی خواہش میں مرا جارہا ہے۔ اسی طرح ان ٹک ٹاکرز کی شادیوں نے بھی ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں۔ ان کی شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی تقریبات نے لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

ان تقریبات کی شان اور اس میں پہنے جانے والے لاکھوں کے جوڑے ۔وہ کسی بھی متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ان سے متاثر ہوتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کتنے ہی اچھے اور نیک گھرانوں میں ایسی ایسی چیزیں اور ایسے ایسے نمونے نکل کر سامنے آ رہے ہیں کہ دیکھ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے ان نمونوں کا واحد مقصد صرف ہر طریقے سے پیسہ کمانا ہے۔

اس وقت تو فیملی وی لاگنگ نے پیسہ کمانے کا ایسا طریقہ متعارف کروادیا ہے، جس نے گھر گھر کی عورتوں اور لڑکیوں کی عزت کو دو کوڑی کا کردیاہے۔پہلے متوسط طبقے میں گھر کی عورتوں اور لڑکیوں کی عزت کو ہر چیز پر فوقیت دی جاتی تھی لیکن پیسہ کمانے کی ہوس نے وہ عزت کا احساس ختم کردیا ہے اب پورے پورے گھر، کیا ماں،کیا باپ کیا بیٹا اور کیا بیٹی سب وی لاگنگ کرکے پیسہ بنانے میں لگے ہیں۔ اور جب کمائی اندھی ہو تو خرچ بھی پھر اندھا ہوجاتا ہے۔

نارمل متوسط طبقے کی شادیوں میں ایسی ایسی رسومات اور ایسی فضولیات دیکھنے میں آ رہی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنا خرچ کرنے کے لیے لوگوں کے پاس پیسہ آ کہاں سے رہا ہے۔ پرانے زمانے میں ہمیں یاد ہے کہ ایک مایوں کی رسم ضرور ہوتی تھی، جس میں تمام خاندان جمع ہوتا تھا لڑکی کے ابٹن لگایا جاتا تھا سارا خاندان ابٹن کھیلتا تھا اس میں سادے سے پیلے کپڑے دلہن کو بھی پہنائے جاتے تھے اور گھر والے اور آ نے والے مہمان بھی پیلے ہی کپڑے پہنتے تھے۔

یہ مایوں کی تقریب شادی سے کوئی ہفتہ بھر پہلے ہوتی تھی اس کے بعد لڑکی کو ایک کونے میں پردہ ڈال کر بٹھا دیا جاتا تھا کہ ابا بھائیوں اور اب مردوں سے پردہ ہوگا، تاکہ شادی والے دن نور آ ئے۔ بہت کوئی پیسے والے لوگ ہوتے تھے تو ان کے ہاں مہندی کی رسم بھی ہوتی تھی، جس میں مہندی آ تی تھی اور جاتی تھی، اس میں بھی بڑی معصومانہ رسمیں ہوتی تھیں یہ آج کل کی مہندی کے نام پر بے ہودگی اور بے لگامی نہیں تھی ،جس میں باقاعدہ ڈانس فلور بھی ہوتا ہے اور پھر دولہا دلہن اس میں ناچتے بھی ہیں اور نچاتے بھی ہیں،پھر نیا رواج قوالی نائٹ کا بھی ہے۔

پہلے مایوں، پھر مہندی، پھر قوالی نائٹ پھر ڈھولکی نائٹ پھر نکاح کی تقریب اور پھر کہیں جاکر رخصتی کی باری آ تی ہے، پھر اب تو شادی میں بھی لڑکی ناچتی گاتی اسٹیج تک پہنچتی ہے پہلے کی طرح روتی دھوتی دلہنیں نہیں ہوتیں اور دلہن کیا اب تو گھر والے نہیں روتے کہ کہیں ہزاروں کا میک اپ نہ دھل جائے۔

ان بےجارسومات اور فضولیات نے شادی جیسی مقدس سنت کو کتنا کٹھن بنادیا ہے، اگر ہمارے آ پ کے جیسے لوگ اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کا سوچیں تو خرچوں کا سوچ کر ہی بخار چڑھ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب متوسط طبقے کی لڑکیاں بھی پڑھائی کے بعد جاب کرنے کو ترجیح دیتی ہیں کہ کچھ پیسے اکٹھے ہو جائیں تو والدین کا ہاتھ بٹ جائے۔ 

ایسے ہی لڑکوں کی شادی میں بھی پیسے اکٹھے ہونے کی کوشش میں اکثر لڑکوں کی عمر ہی نکل جاتی ہے۔ ان فضولیات کو اگر ہم اپنی زندگیوں سے نکال دیں تو سب کی مشکل آسان ہو جائے گی۔ لڑکی والے مجبور ہوتے ہیں کہ لڑکے والوں کی خواہش ہے کہ شادی میں یہ اور وہ ضرور ہو، ورنہ رشتہ داروں میں ہماری بےعزتی ہو جائے گی۔ 

اگر سب لڑکے اور ان کے والدین یہ تہیہ کرلیں کہ ہمیں کوئی جہیز اور کوئی شو بازی نہیں چاہیے تو لڑکی والوں کی بڑی پریشانی ختم ہوجائے۔ ہاں لیکن اکثر لڑکے والوں سے زیادہ لڑکی والوں کو دکھاوے کا شوق ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ ہم کسی سے کم نہیں خود بھی پیسہ برباد کرتے ہیں اور لڑکے والوں سے بھی یہی چاہتے ہیں۔

ہماری ایک دوست نے اپنے بیٹے کی شادی میں سختی سے لڑکی والوں کو جہیز کا منع کردیا، پھر مسجد سے نکاح اور عصر کے بعد رخصتی کروائی۔ اور پھر ولیمہ ہال میں کیا اور کارڈ میں لکھ دیا کہ کسی قسم کا لفافہ لانے کا تردد نہ کریں۔ ولیمے میں سنت کے مطابق کھانا کردیا ،جس میں ایک نمکین اور ایک میٹھی ڈش رکھی گئی اور آ نے والے مہمانوں کو ترجمے والے قرآن تحفتاً پیش کیے۔

ایسی بہترین اور بابرکت شادی کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اور وہ کوئی کم حیثیت لوگ نہیں تھے اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔اسی طرح ہمارے قریبی عزیز جنہوں نے اپنے بیٹے کی شادی کی، لڑکے نے جہیز کے نام پر ایک دھجی نہ لی اپنے کپڑے بھی خود بنائے لیکن دلہن کے شادی اور ولیمے کے خوبصورت جوڑے ضرور تیار کروائے۔

لڑکی والے بھی حیثیت والے لوگ تھے لیکن لڑکے نے کہا میں اپنی حیثیت کے مطابق سارا فرنیچر کپڑا زیور خود لوں گا۔ میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ ایک تو لڑکی والے اپنی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی ہمیں دیں اس کے ساتھ اس کا ساز و سامان بھی مہیا کریں اور لڑکی والوں کے اصرار کے باوجود کوئی چیز نہیں لی۔

ایسے لوگوں کی عزت ہی اور ہوتی ہے معاشرے میں بھی،لڑکی کی نظر میں بھی اور لڑکی کے گھر والوں کی نظر میں بھی۔ ہمیں اب اپنے معاشرے اور اپنے اردگرد میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے جہاں لڑکی والے مجبور نظر آتے ہیں بیٹی کے ساتھ لاکھوں کا جہیز اور لاکھوں کا کھانا بھی کھلاتے ہیں اور پھر بھی سسرال والوں کی ناک بھوں چڑھی رہتی ہے۔

آ ئیے یہ عہد کریں کہ اپنے گھر سے تبدیلی کی ابتداء کریں، اگر آ پ بیٹے والے ہیں تو یہ وعدہ کریں کہ اس تکلیف دہ سسٹم کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔ میرا اور میرے گھر والوں کا یہ پختہ ارادہ ہے کہ ہم اپنے بیٹے کی شادی میں سنت کے مطابق سادگی اور آ سانی والی شادی کریں گے، جس میں لڑکی والوں پر کوئی بوجھ نہ ہو اور لڑکا اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیوی کو ساری سہولتیں فراہم کرے گا ان شاءاللہ۔ سنت اور سادگی میں ہی ہم سب کی نجات بھی ہے اور ایسے نکاح بابرکت ہوتے ہیں جو اس کے مطابق کیے جائیں۔