• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دو مائیں‘‘ ایک نے محبت کرنا سکھایا، دوسری نے ’’بدذات‘‘ میں الجھا دیا

راحیل میری دوسری بیوی کے پہلے شوہر سے تھا۔ جڑواں بیٹوں کی پیدائش کے وقت کچھ ایسی پیچیدگی ہوئی کہ میری بیوی جان کی بازی ہار گئی۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے امّاں فوری طور پر خیر النساء کو بیاہ لائیں۔ اور یوں راحیل بھی ہماری زندگی میں چلا آیا۔ پہلے دن امّاں نے اس کا تعارف کرواتے وقت کہا بیٹا! خیر النساء بہت اچھی عورت ہے اور دُکھی بھی ہے، تیرے گھر اور بچوں کو بہت پیار سے سنبھال لے گی۔ 

بس اپنے بچوں کی خاطر تجھے اس کے لڑکے کو بھی گھر میں برداشت کرنا ہوگا۔ اب وہ اُس بدذات کو بھلا کہاں چھوڑے؟ امّاں کی بات نے میرے دِل میں ایک گِرہ لگا دی۔ دِل کے ایک کونے میں کینہ پلنے لگا۔ راحیل بہت تمیز دار بچہ تھا۔ ایک چیز جو میں نے شدت سے نوٹ کی کہ میرے سرد رویئے کے باوجود وہ مُجھ سے بہت محبت کرتا، اُسے میرے رویے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

صبح جب میں ناشتے کے لیے کھانے کی میز پر آتاتو راحیل انتہائی تمیز سے السلام و علیکم ابّا جان کہتا اور بھاگ کر میرے آگے اخبار رکھتا۔ میرے دِل میں لگی گِرہ ڈھیلی ہوتی کہ ساتھ ہی آواز آتی، ارے بد ذات! چل اپنی ماں سے کہہ جلدی ناشتہ لا میرے بچے کو دیر ہو رہی ہے۔

وعلیکم السلام کے ساتھ راحیل کے سر پر پیار دینے کے لیےاٹھتا ہاتھ وہیں میری اپاہج سوچ کے ساتھ لڑتا اور شکست کھا کر ڈھیر ہوجاتا۔ خیرالنساء نے میرے گھر اور بچوں کو اچھی طرح سے سنبھال لیا تھا۔ وہ بہت صابر عورت تھی، کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہ لاتی۔ مجھے یاد ہے ایک دن راحیل اُس سے پوچھ رہا تھا امّی جان’’ بدذات‘‘ کیا ہوتا ہے؟ میرا پورا جسم کان بن گیا۔ میری سماعتیں شدت سے خیرالنساء کے جواب کی منتظر تھیں۔

مسکرا کر کہنے لگیں جب کوئی بہت پیارا لگے اور نظر لگنے کے ڈر سے آپ بتانا نہ چاہیں تو اُسے بدذات کہتے ہیں۔ اُس دن میں نے دیکھا راحیل بہانے بہانے سے سارا دن امّاں کے اِرد گرد پھرتا رہا۔ کبھی جائے نماز بچھا کر دے رہا ہے اور کبھی ذرا سا کھانسنے پر پانی کا گلاس اُن کے آگے رکھ رہا ہے۔ امّاں کی آواز آئی۔ ارے بدذات! کیوں میری جان کھا رہا ہے ڈرامے باز! جا دفعہ ہو! جا کر کچھ پڑھ لے۔کیا جاہل رہ کر میرے بیٹے کے مال پر عیش کرتا رہے گا۔

راحیل نے کھٹ سے امّاں کے گلے میں باہیں ڈالیں ،اُن کے گال پر پیار کیا اچھا پیاری دادی جان کہہ کربھاگ گیا۔ میں وہیں امّاں کے تخت کے پاس بیٹھا دیکھ رہا تھا۔امّاں کی آنکھوں میں ہلکی سی نُور کی چمک نظر آئی اور پھر معدوم ہوگئی۔ کیسے بدقسمت تھے ہم ماں بیٹا اور کیسے خوش بخت تھے وہ ماں بیٹا۔ خیر النساء، نے بچے کے دِل میں نفرت کی گرہ نہیں لگنے دی تھی اور میری ماں مُجھ اونچے لمبے مرد ، پیشہ کے اعتبار سے وکیل کے دِل میں کس آسانی کے ساتھ گِرہ لگانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

مجھے جوتے جمع کرنے کا بہت شوق تھا، اچھے جوتے میری کمزوری تھے۔ میری وارڈ روب میں ایک سے بڑھ کر ایک جوتا تھا۔ راحیل بہت شوق سے میرے جوتے پالش کیا کرتا۔ کئی بار میں نے اسے بڑی دلجمعی سے جوتے چمکاتے دیکھااور سچ بات تو یہ ہے کہ جوتے دیکھ کر میرا دل خوش ہوجا تا۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے خوش ہو کر صرف اتنا کہا واہ راحیل کمال کر دیا تم نے، پھرانعام میں اسے پانچ سو کا نوٹ دیا۔ وہ بھاگا بھاگا امّاں کے کمرے میں گیا، دادی دادی دیکھیں ابّا نے مجھےانعام دیا ہے۔ گھر کے ملازمین سے لے کر گھر میں آنے والے ایک ایک مہمان کو بتاتا کہ ابّا نے مُجھے انعام دیا ہے۔ 

امّاں نے بدذات دفعہ ہو جا کہہ کر منہ پھیر لیا۔ کاش !امّاں اُسے خیرالنساء کی خاطر ہی ایک بار گلے سے لگا لیتیں، جس نے اُن کے پوتوں کو اپنے جِگر کے ٹکڑے سے بڑھ کر پیار دیا تھا۔

امّاں کی لگائی ہوئی نفرت کی دھیمی آنچ پر میری انا کا بُت پکتا رہا۔ خیرالنساء، کی میرے بچوں اور گھر کے ساتھ بے پناہ محبت اور احسان بھی انا کے اس بُت کو توڑ نہ پایا۔ راحیل کی تمام خوبیوں کے باوجود میں نے کبھی اسے سینے سے نہیں لگایا تھا۔ ہاں، مگر میں نے اس پر خرچ کرنے یا اس کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ 

خیرالنساء، اسی میں مطمئن اور خوش تھی۔ وقت گزرتا رہا، بچے بڑے ہو گئے۔ عمر اور علی میرے جُڑواں بیٹے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلے گئے۔راحیل نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ میرے بہت چاہنے کے باوجود وہ مزید پڑھ نہیں سکا۔ سارے محلے کا لاڈلا تھا۔ صبح کا گھر سے نکلا شام کو گھر آتا۔ اکثر ہاتھ پر پٹی بندھی ہوتی جانے کہاں سے چوٹ لگوا کر آتا تھا۔ خیرالنساء نے میرے دریافت کرنے پر کہا فکر نہ کریں، مجھے بتا کر جاتا ہے، میری اس پر نظر ہے۔

وقت نے امّاں کو ہم سے چھین لیا۔ آخری وقت میں راحیل نے امّاں کی بہت خدمت کی۔کئی بار اپنی گود میں اُٹھا کراسپتال لے جانے کے لیےگاڑی میں بٹھایا۔ اُن کا کمزور وجود باہوں میں بھر کر کئی راتیں راحیل نے ہسپتال کے بیڈ پر جاگ کر گزار دیں۔ جانے کس مِٹّی سے بنا تھا۔ حالاںکہ اب اس کو بدذات کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا ہوگا۔ آخری وقت میں امّاں کے ہاتھ راحیل کے آگے جُڑے ہوئے تھے۔ جنہیں چُوم کر اُس نے اپنے ہاتھوں سے امّاں کی آنکھیں بند کیں اور میرے ساتھ انہیں لحد میں اُتارا۔

میرے دونوں بیٹے چاہنے کے باوجود دادی کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو پائے۔ اُس دن امّاں کی لگائی گِرہ ڈھیلی ہوگئی۔ بس ایک بار راحیل کو گلے سے لگانے کی دیر تھی کہ کُھل جاتی، مگر انا کو شکست دینا کہاں میرے بس میں تھا۔ عمر اور علی نے پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شادیاں کر لیں اور اُدھر کے ہی ہو کر رہ گئے۔ سال میں ایک بار بس ملنے کے لیے آجاتے۔

گھڑی پر سوئیوں کا رقص جاری تھا ۔اب کے ڈانس اسٹیپ میں وقت کا پاؤں میری قسمت پر تھا۔ مُجھے اپنی کارکردگی پر ایک بہت بڑا ایوارڈ ملنے والا تھاکہ مجھے فالج ہو گیا۔ چمکتے بوٹ پہننے والے پاؤں مفلوج ہوگئے۔ کیا عثمان شاہ ننگے اور ٹیڑھے پاؤں کے ساتھ وہیل چیئر پر ایوارڈ وصول کرے گا، جس انا کے بُت کو میں نا توڑ پایا اللہ نے اُسے توڑ ڈالا تھا۔ 

نوکروں کی فوج کے باوجود، راحیل میرے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتا۔ تقریب والے دن اُس نے مجھے اپنے ہاتھوں سے بہترین لباس پہنا کر تیار کیا بالکل ایسے جیسے کوئی باپ اپنے بچے کو اسکول کے پہلے دن کے لیے تیار کررہا ہو اور پھر ایک انتہائی خُوبصورت کالے چمڑے کے بوٹ میرے پاؤں میں پہنانے لگا، جو کہ اسپیشل میرے پاؤں کے لیے بنے تھے۔

مجھے جوتوں کی بہت پہچان تھی، جوتے کسی بہت مہنگی کمپنی پر آرڈر دے کر بنوائے گئے تھے۔ ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے میری وہیل چیئر چلانے کے لیےاسپیشل انتظام کیا گیا تھا، مگر راحیل خود میری وہیل چیئر چلا کرا سٹیج پر لایا۔ ایوارڈ ملنے کے بعد میرے گال پربوسہ دیا اور کہنے لگا I am proud of you baba...!

میں بہت بار راحیل سے کہنا چاہتا تھا I am proud of you my son...مگر کبھی نہ کہہ سکا۔ وہ ایک بار پھر جیت گیا۔ میری ماں کی لگائی گئی گرہیں بہت سخت تھیں۔ یہ وقت کے ساتھ ڈھیلی تو پڑ گئیں، مگر کُھل نہیں پائیں۔ میرے کان میں امّاں کی آواز آئی بدذات! آج شاید میری انا کا امتحان تھا۔ ایوارڈ کی تقریب کے بعد راحیل مُجھے جوتوں کی ایک فیکٹری میں لے گیا۔ 

اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا ہر کوئی راحیل کو’’سلام صاحب ،سلام صاحب‘‘ کہہ رہا ہے اور پھر راحیل مجھے ایک دفتر میں لے گیا جہاں ایک بہت خُوبصورت بزرگ بیٹھے تھے۔ راحیل کو دیکھتے ہی اُٹھ کر آئے، اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے مبارک ہو عثمان شاہ صاحب۔

اللہ کو کوئی تو آپ کی بات پسند آئی ہو گی جو اُس نے آپ کو راحیل جیسا بیٹا دیا۔ یہ آپ کے بیٹے کی فیکٹری ہے۔آپ کا بیٹا دنیا کا سب سے مشہور’’ شو میکر‘‘ ہے۔ یہ سن کر مجھے پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ اُس وقت مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ میری پسند کے بہت مہنگے جوتے خراب ہو گئے تھے۔ وہ جوتے اٹلی کے تھے اور واپس کمپنی میں بھیجنے میں بہت وقت لگتا۔ 

راحیل نے بڑے ماہر موچی ’’بابا جی“ کو ڈُھونڈ کر اُن سے میرے جوتے مرمت کروائے۔ یہ وہی جوتے تھے جن پر خوش ہو کر میں نے اُسے پانچ سو کا نوٹ انعام میں دیا تھا۔ باباجی کی مہارت دیکھتے ہوئے۔ میرے شوق کی خاطر راحیل نے اُن سے جوتے بنانے کا فن سیکھا۔ اور اب راحیل کے بنائے ہوئے جوتے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ 

یورپ سے امراء راحیل کو اپنے جوتے بنوانے کے لیے بلاتے، مگر وہ مُجھے اور اپنی ماں کو چھوڑ کر کبھی نہیں گیا۔ یہ بابا جی نے ساری کہانی سنائی۔ اُس وقت راحیل کے پٹی بندھے ہاتھ میری آنکھوں کے سامنے آتے رہے۔ اُس کے ہاتھوں میں چُبھنے والی سوئیاں میرے سارے جسم میں چھید کر گئیں۔ 

میرے جسم میں سوئیاں ہی سوئیاں تھیں۔ اب کون نکالے گا اُنہیں۔ کیا میری توبہ میرے زخم بھر پائے گی؟ گرہ کُھل گئی تھی، انا کا بُت ٹوٹ چکا تھا۔ میں نے راحیل کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ اُس راحیل کے سامنے جسے اماں بدذات کہتی تھیں۔

راحیل نے میرے آنسو صاف کیئے۔ میرے قدموں میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا میرے سب دوستوں کے پاس ابو تھے۔ نانی مجھےاللہ سے دُعا مانگنے کا کہتیں اور میں نے بہت بار اللہ سے دعا مانگی۔ آپ میری دُعاؤں کا ثمر تھے۔ میرے لیے اللہ کی طرف سے انعام تھے۔ میں آپ سے محبت کیسے نہ کرتا۔ 

آپ مجھے بہت پیارے ہیں ابّا! آپ کی نظرِ کرم پانچ سو کا وہ ایک نوٹ وہ میری زندگی کی کتاب کا سب سے بہترین ’’نوٹ‘‘ بن گیا، جس نے میری زندگی بدل ڈالی۔ میں اپنے ابا کا پسندیدہ بیٹا بننا چاہتا تھا اور وہ بن گیا۔ وہ میرا سب سے پیارا بیٹا بن گیا۔ خیرالنساء پاس بیٹھی رو رہی تھی، مگر اُس کی پیشانی چمک رہی تھی۔ 

وہ راحیل کی ماں تھی، اُس نے راحیل کو محبت کرنا سکھایا تھا۔ کاش میری ماں نے بھی مجھے محبت کرنا سکھایا ہوتا۔ اُس رات جب راحیل نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے۔ میرے بوٹ اتار کر مجھے بیڈ پر لٹایا تو زندگی میں پہلی بار میں نے اُس کا منہ چوم کر کہا۔

I am proud of you my son...

I love you more than everything

(انتخاب :صفیہ سفیر )