سنو فائزہ تم کو پتہ چلا شاہدہ بھابھی کا؟ کیا پتہ چلنا تھا، فائزہ نے حیرانی سے جواب دیا۔ ارے بھئ ان کی طبیعت کافی دن سے خراب چل رہی تھی لیکن وہ ٹالے جارہی تھیں اور جب مجھے پتہ چلا تو میں نے بھی اصرار کیا کہ ڈاکٹر کو دکھائیں لیکن وہی ہم عورتوں کی لاپرواہی کہ ٹھیک ہوں، کچھ نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ اور اب طبیعت زیادہ بگڑی اور گھر والے ہاسپٹل لے کر بھاگے، ڈاکٹر نے ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ ان کو کینسر ہے اور وہ بھی تیسرا اسٹیج۔
اوہ میرے خدا ! یہ تو بہت بری خبر ہے۔ یہ سن کر فائزہ بھی ہکا بکا رہ گئی۔ ہاں بھئ ہم عورتوں کو عادت ہوتی ہے نا کہ اپنی بیماری کو اہمیت نہیں دیتے اور اپنے آ پ کو دھکا دے دے کر چلاتے رہتے ہیں۔ نتیجہ پھر ایسا ہی نکلتا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عمومی رویہ ہے کہ گھروں میں ہم اپنی ماں، بہنوں ،بیویوں یا بیٹیوں کی صحت کو اہمیت نہیں دیتے۔
ان کا فرض سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی کنڈیشن ہو گھر ،بچوں یا میاں کے کسی کام میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔بہت کم گھروں میں خواتین کی صحت کی اہمیت کو مقدم سمجھا جاتا ہے ورنہ تو شاید سب کو یہ لگتا ہے کہ خواتین لوہے کی بنی ہیں جن پر سردی ،گرمی، خزاں، بہار کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔
جب کہ اس وقت دنیا بھر میں جس قدر وائرس پھیلے ہوئے ہیں اور پھر ناقص ترین غذائیں، اس میں احتیاط کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر معمولی بخار بھی ہوا ہے اور وہ طول پکڑ رہا ہے تو فوراً چیک اپ اور ضروری ٹیسٹ کروائے جائیں، تاکہ مرض بڑھنے سے پہلے اس کا تدارک کرلیا جائے۔
ایسے کتنے ہی کیسز تواتر سے سننے میں آ رہے ہیں جن میں معمولی بخار نے کینسر کی شکل اختیار کرلی، معمولی نزلہ کھانسی نے ٹی بی کا روپ دھار لیا، کام کرنے میں تھکن، سانس پھولنے اور کمزوری کی شکایت آ گے جا کر دل کا مرض بن گئ۔ اور پھر مزید لاپرواہی جان لے کر ہی چھوڑتی ہے۔
ابھی حال ہی میں خواتین میں سروائیکل کینسر ( بچہ دانی کا کینسر) کی بڑھتی ہوئی شرح پر حکومتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، جس کے بعد اس کی روک تھام کے لیے مفت ویکسینیشن مہم شروع کی گئی۔ جو کہ 9سے 13 سال تک کی بچیوں کو لگائی جارہی تھی لیکن ہمارے ہاں تو یہ عام بات ہے کہ چونکہ حکومت کی جانب سے کوئی مہم شروع ہو تو لوگوں کا اس کی شفافیت پر بھروسہ کرنا مشکل ہوتا ہے تو اسی لیے اس مہم کے خلاف مہم شروع ہوگئی کہ اس میں بھی کوئی سازش ہے اور بچیوں کو بانجھ بنانے کے لیے یہ مہم چلائی جارہی ہے اور اسی لیے اس کی مفت ویکسین لگائی جارہی ہے، جس کے بعد لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اس ویکسین میں کوئی گڑبڑ ہے جب کہ سچ یہ ہے کہ HPV وائرس، غیر معیاری غذائیں، نامناسب خوراک آ لودگی اور بہت سی دوسری وجوہات اس کینسر کی شرح میں مسلسل اضافے کی وجہ بن رہی ہیں۔اسی لیے اس بیماری کا سدباب کرنا بہت ضروری ہے۔
خواتین کسی بھی گھر کا اہم ستون ہیں، جس کے اوپر پورے گھر کی عمارت کھڑی ہے۔ اگر گھر کی عورت بیمار رہے گی تو یہ بنیاد کمزور سے کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ اسی لیے اب اس معاشرے کے لیے یہ آ گاہی بہت ضروری ہے کہ صحت مند معاشرے، اچھی تربیت اور ترقی کے لیے گھر کی عورت کا تندرست اور صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔
اگر گھر میں ہنستا کھلکھلاتا ماحول رکھنا ہے تو آ پ کو اپنی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کا بھی بالکل اسی طرح خیال رکھنا ضروری ہے، جس طرح وہ آ پ کے لیے موسم، وقت اورحالات کی پروا کیے بغیر دن رات ایک کر دیتی ہیں۔
اسی طرح گھر کے مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کا اسی طرح خیال رکھیں، تاکہ معمولات زندگی بخیر و خوبی چلتے رہیں نیز خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صحت کو ترجیح دیں اور لاپرواہی کر کے بڑی بیماری کو دعوت نہ دیں۔
ایک اچھی صحت مند ماں یا بیوی آ پ کے بچے کی اچھی تربیت بھی کرے گی، آ پ کا بھی خیال رکھے گی اور گھر کے ماحول کو بھی خوشگوار رکھے گی۔ لیکن اگر یہی عورت بیمار ہویا کسی ذہنی یا جسمانی عارضے میں مبتلا ہو تو اس سے پورے گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ بچے اور شوہر دونوں اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف خاندانی مسائل کی وجہ سے مردوں اور عورتوں دونوں کی اکثریت ذہنی امراض کا شکار ہورہی ہے۔
اس سے بہت بڑے بڑے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ہمارے ہاں ذہنی مسائل کو بیماری سمجھا نہیں جا سکا ہے، اسی لیے اس کا علاج کرواتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں کہ اگر ہم دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس چلے گئے تو ہمیں پاگل سمجھا جائے گا جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے حالات کی وجہ سے ملک کی آ بادی کا بڑا حصہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے، جس میں خواتین کی اکثریت ہے، کیوںکہ ان پر گھریلو دباؤ اور مختلف سازشی عناصر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس ڈپریشن کا نتیجہ بالآخر گھریلو ناچاقی ، طلاق یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ہے لیکن پھر بھی ہم ذہنی دباؤ اور اس کا علاج کروانے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔
ذہنی امراض کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بچےکی پیدائش کے بعد اکثر خواتین پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں۔ کچھ خواتین اپنے بچوں تک کو نقصان پہنچا بیٹھتی ہیں۔ یہی وہ پیچیدگیاں ہیں جو آ گے چل کر بڑے مسائل کا شاخسانہ بنتی ہیں۔
مردہو یا عورت دونوں گاڑی کے دو پہیے ہیں دونوں کا فٹ اور صحت مند ہونا بہت ضروری ہے، کیوںکہ ایک کی بھی بیماری پورے گھر کو متاثر کر تی ہے ۔خاص کر عورت کی بیماری پورے گھر کو تتر بتر کر دیتی ہے۔
مرد اگر بیمار ہو جائے تو اللہ نے عورت میں یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ گھر، بچوں اور باہر سب چیزوں کو سنبھال لیتی ہے لیکن اگر عورت بیمار ہو جائے تو بہت کم مرد ایسے ہوتے ہیں کہ جو گھر بچے اور آ فس میں توازن رکھ سکیں۔
ہر چیز کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اسی لیے صحت مند عورت، صحت مند معاشرے کی کنجی ہے۔ اپنے گھر کی عورت کی صحت کا خیال رکھیں اور اپنے گھر اور معاشرے کا توازن برقرار رکھیں۔