• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تشدد ‘‘چھوٹا سا مگر کتنا تکلیف دہ لفظ ہے جو اپنے اندر ظلم، جبر، سختی، مارپیٹ، ذیادتی اور بدسلوکی سمیٹے ہوئے ہے۔ اور اگر یہ تشدد عورت پر ہو تو یہ لفظ دل چیر دیتا ہے۔

دنیا بھر میں 25نومبر کو عورتوں کے خلاف تشدّد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلا تا ہے کہ معاشرے کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی عورتیں اب بھی مختلف شکلوں میں ظلم امتیاز اور تشدد کا سامنا کررہی ہیں۔ یہ تشدّد صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی، نفسیاتی، معاشی اور سماجی صورتوں میں بھی ہوتا ہے۔ 

قرآن مجید میں عورت کو رحمت، عزّت اور احترام کا درجہ دیا گیا ہے۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ رحمت اللعالمین بناکر بھیجے گئے وہ محسنِ انسانیت تو ہیں وہ محسنِ نسواں بھی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو آپ نے عورت کے ساتھ حسنِ سلوک کو ایمان کی علامت قرار دیا۔

علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی بھی قوم کی ترقی کا پیمانہ اس کی عورتوں کے مقام سے لگایا جاتا ہے، جہاں عورت محفوظ، تعلیم یافتہ اور با اختیار ہو وہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔

رسولِ مقبول نے عورت کو مرد کی طرح مکمل انسان قرار دیا، جس معاشرے میں عورت زندہ دفن کردی جاتی تھی اس معاشرے میں عزت و تکریم کی مستحق قرار دی گئی۔ اسے زندہ رہنے کے حق کے ساتھ اسے عزّت و عصمت کا حق، حصول تعلیم کا حق، حسنِ سلوک کا حق، علاج کا حق، معاشی خود مختاری کا حق ،ملکیت اور جائیداد کا حق حرمتِ نکاح، طلاق اور خلع کا حق، تشددسے تحفظ کا حق وغیرہ۔

ان حقوق سے عورت کو محروم رکھنا بھی ظلم اور تشدد کی ایک شکل ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان وطنِ عزیز میں آج تشدد کی ہر صورت ہمارے ارد گرد پائی جاتی ہے، گھریلو تشددَ تلیم کے مواقع سے انکار عزّت اور غیرت کے نام پر ظلم، وراثت سے محرومی، یہ سب سماجی رویوں کے بگڑنے کا ثبوت ہیںناکہ عورت کی کمزوری۔ 

پاکستان میں قریباً سالانہ 5000 عورتیں  تشدد سے مر جاتی ہیں۔ ہزاروں شدید زخمی یامعذور ہوجاتی ہیں۔ دنیا میں پاکستان عورتوں کیلئے تیسرا خطرناک ملک ہے۔ یہاں 47 فی صد عورتیں گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں، کاروکاری یا غیرت کے نام پر عورت کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یہاں جرگہ عورت کی شادی یا قتل کا فیصلہ خود کرتا ہے۔

کسی قانون کی ضرورت نہیں۔ رواں برس اب تک105 عورتیں صرف سندھ میں غیرت کے نام پر بے غیرتوں کے ہاتھوں قتل کردی گئیں جبکہ 2024 میں اس دورانئے میں79 عورتیں قتل ہوئی تھیں۔ یعنی ہم سفاکی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور بلوچستان ڈیگاری کی بانو بی بی کا آخری جملہ تو ذہین سے محو ہی نہیں ہوتا۔’’ صرف مارنے کی اجازت ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں‘‘۔ 

یہ صرف ہمّت اور حوصلے کی بات ہے یہ ظلم کے خلاف ایک خاموش چیخ ہے۔ سندھ بلوچستان پنجاب۔ خیبرپختون خواہ کون سا صوبہ ہے جہاں یہ ظلم نہیں ہوتا۔ کمال یہ ہے کہ مارنے والے باپ، شوہر، بھائی، چاچا سسر یا دیگر رشتے دار ہوتے ہیں۔ یہاں عورت رسم و رواج ظلم اور تشدّد کے تلے دفن ہے۔ کاریوں کے قبرستان بے کفن عورتوں سے بھرے پڑے ہیں جنکی خاتمہ بھی ممنوع ہے۔

ملک میں عورتوں کے ساتھ زیادتی اور عصمت دری کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے۔ وطنِ عزیز میں پسند کی شادی گناہِ عظیم ہے۔ شادی سے انکار، دوستی سے انکار یا پسند کی شادی پر کتنی ہی لڑکیوں کا قتل ہوچکا ہے۔ 

اسلام آباد میں سال کے پہلے 6 ماہ میں 373 خواتین کے خلاف تشدّد کے کیسز درج ہوئے لیکن کسی کو سزا نہیں ملی۔ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کو اس کے گھر کے اندر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق صوبہ پنجاب میں صرف ایک سال میں 10201 کیس عورتوں پر تشدد کے درج ہوئے جن میں  6624کیسز ریپ کے تھے۔ صوبہ سندھ کی دیہی علاقوں کی تنظیم کے مطابق 1632 سے زائد کیس خواتین اور بچیوں کے خلاف ہوئے جن میں قتل اغواءاور عزت کے نام پر تشدّد شامل ہیں۔

لاہور میں 2025 کے پہلے تین ماہ میں 151 عورتوں کے خلاف ریپ کے کیسز درج ہوئے اور 27 عورتیں قتل کردی گئیں۔ لاہور ہی میں گذشتہ 8 مہینوں میں 264 کیس گھریلو تشدد کے درج ہوئے۔

بلوچستان میں 21 کیس ریپ کے درج ہوئے، جب کہ 32 عورتوں کو عزت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ 185 عورتیں اغواء اور 160کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کے پی کے، میں 258 عورتوں کے ریپ کے کیس، 943 عورتوں کو اغوا 134 کو عزّت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اور 446 کیس گھریلو تشدد کے درج ہوئے ۔

ان میں وہ گھٹی ہوئی چیخیں، آہیں اور سسکیاں جو گھر کی دیوار سے باہر سنائی نا دے سکیں، شامل نہیں ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گاؤں ہو یا شہر، گھر، دفتر، اسکول، کالج، یونیورسٹی مدرسہ تفریحی مقامات یا پولیس اسٹیشن ہر جگہ بچیاں اور عورتیں تشدّد کی کسی نا کسی شکل کا سامنا کرتی ہیں۔ 

رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ سزا یافتہ افراد کی تعداد انتہائی کم ہے جو بنیادی انصاف کے نظام کی کمزوری کو عیاں کرتی ہے۔ اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ثقافتی، سماجی اور قانونی خلا کا نتیجہ بھی ہے جہاں عورت کو اختیار اورحق کا انتخاب نہیں ہوتا۔

آلڈس یونارڈیکسلے نے انسانی دکھ کے بارے میں لکھا تھا، تکلیف اور خوف کی چیخیں فضا میں گیارہ سوفٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ تین سیکنڈ سفر کرنے کے بعد وہ سماعت کے قابل نہیں رہتیں۔ 

اب وقت آگیا ہے کہ ان چیخوں کو سماعت کے قابل بنایا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ بچیوں اور عورتوں کو خوف نہیں حوصلہ دیں۔ تشدد کی صورت میں ہماری خاموشی تشدد کی سب سے خطرناک شکل ہے۔ قانون بنا لینا کافی نہیں انکا اطلاق بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سطح پر کوشش کرنا ہوگی۔ اس کے لئے کچھ اقدامات تو کرنا ہوں گے۔ مثلاً

تعلیم اور شعور کی بیداری

خواتین اور مردوں دونوں کو صنفی مساوات سے متعلق آگہی اور خصوصاً اسکولوں اور کالجوں میں احترام انسانیت اور خواتین کی عزّت توقیر اور حقوق سے آگہی دی جائے۔

مضبوط قانونی اقدامات

گھریلو تشدّد، ہراسانی اور جبری شادی کے قوانین پر عملدرآمد کیا جائے اور خواتین کے لئے آسان اور محفوظ شکایات درج کرانے کا نظام بنایا جائے۔ حکومتی سطح پر خواتین کے لئے ہیلپ لائن فعال کی جائے، ان کے لئے شیلٹر ہومز اور خواتین تحفظ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

سماجی رویوں میں تبدیلی

مردوں کو مثبت کردار کی تربیت بچپن سے دی جائے کہ وہ عورت کو برابر کا انسان ہمیں کمزور یا کمتر نہیں۔

معاشی خود مختاری

عورتوں کو ہنر سیکھنے اور چھوٹے کاروبار کیلئے مالی معاونت کا انتظام ہونا چاہئے۔

مذہبی اور اخلاقی تربیت

دینی رہنماؤں اور عالموں کو چاہئے کہ وہ عورت کے احترام اور ظلم کے خلاف اسلام کی تعلیمات کو اجاگر کریں۔ قرآن اور سنّت کی روشنی میں بتایا جائے کہ عورت پر تشدّد کتنا بڑا گنا ہے۔ 

عورتوں کے خلاف تشدد پر خاموشی کے بجائے اجتماعی آواز بلند کی جائے۔ ایسی آواز جو معاشرے کے ساتھ اعلیٰ اداروں تک پہُنچ سکے اسی طرح عورت پر تشدد کے خاتمے کی طرف پہلا قدم بڑھایا جاسکتا ہے۔