• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فائزہ مشتاق

نجمہ نے طائرانہ نگاہ مکان پہ ڈالی اور کچھ نوٹ ایڈوانس کی مد میں مالک مکان کے حوالے کیے۔ باقی رقم اور کرائے کی ادائیگی مکان میں منتقل ہونے کے ساتھ مشروط کی اور چلتی بنی۔ شازیہ، نجمہ کی آفس کی ساتھی تھی اور مکان ڈھونڈنے میں مستقل مددگار بھی رہی۔ گلی کے نکڑ پر پہنچتے ہی اس کے چہرے پہ پھیلے سوال آخر کار زبان پر آگئے ۔’’اس سے پہلے کئی بہترین مکان آپ نے رد کر دیے، مگر یہ ان کی نسبت کافی ابتر حالت میں ہے، علاقہ بھی خاص نہیں۔؟‘‘

نجمہ اس کی بات کا مدعا سمجھ گئی اور بات مکمل ہونے سے پہلے ہی مسکراتے ہوئے بولی۔’’یہ مکان خستہ حال سہی، علاقہ چھوٹا بھی دکھائی دیتا ہے ،مگر سنسان نہیں ۔اکیلی عورت کھلی تجوری کی مانند ہے اور اسے اپنی حفاظت خود ہی کرنی پڑتی ہے۔ ان گنجان علاقوں میں تو میری تکلیف اور سسکی دبی رہ جائے گی۔

یہاں کوئی پوچھنے والا ہمدرد ہمسایہ بھی مل جائے گا۔‘‘نجمہ نے اثبات میں سر ہلایا اور بولی۔’’اس پہلو سے تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔تم ٹھیک کہتی ہو۔ تنہا عورت کو ہر قدم پھونک پھونک کر ہی رکھنا پڑتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اکیلی رہنے والی عورت سے زیادہ کسے ہوگا؟‘‘کہتے ہیں اکیلا پن دیمک کی مانند ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ مرد اگر مکان بناتا ہے تو اسے رشتوں کے مہکتے آشیانے میں عورت ہی بدلتی ہے۔

ذہنی، مالی، جسمانی،خانگی غرض کسی طور پر بھی عورت کو اکیلا کرنے کا مطلب رشتوں میں دراڑ کی ابتدا ہے ۔اولڈ ہاؤس اور لاوارث بچیوں کی شکل میں اس کی مثالیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔ عورت جو ماں، بیوی، بہن کے روپ میں مکان کو آشیانہ بنانے میں جت جاتی ہے،لیکن مرد محض ذاتی مفادات کی آڑ میں اسے تنہائی کی وادی میں چھوڑ دیتے ہیں اور بیٹیاں جنہیں رحمت قرار دیا گیا ہے، انہیں خود سے جدا کر کے بےرحم معاشرے کے سپرد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

تنہائی اچانک کسی کا مقدر نہیں بنتی بلکہ واقعات، حالات اور رویے اس کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔تنہائی عورت کا انتخاب نہیں بلکہ آزمائش ہے۔ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی عورت، بیٹی جنم دینے کی پاداش میں در بدر ٹکریں کھاتی عورت بیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں اس طرح کی سنگین نوعیت کے باعث تنہائیوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ 

سماج میں کچھ شرح ایسی خواتین کی بھی ہے جو اکیلے رہنا پسند کرتی ہیں۔ یاد رہے مرد قوام ہے چاہے وہ شوہر ہو، باپ ہو، بھائی ہو یا بیٹا۔ جیسے آشیانہ عورت کے بناقبرستان ہے بالکل ویسے ہی عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے، گویا عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہو ملزوم ہیں۔

عورت کی زندگی کا محور اس کے جان سے پیارے رشتے اور چار دیواری ہوتی ہے۔ محبت اور خلوص کی چاشنی،زندگی کی اونچ نیچ غرض مزاجوں کے گرم سرد بھی انہی رشتوں سے جڑے ہوتے ہیں اور عورت ناصرف معاشی بلکہ جذباتی طور پہ بھی انہی رشتوں پہ انحصار کرتی ہے۔ لیکن وہ اکیلی کردی جائے تو اس کے لیے خود کو سنبھالنا نہایت مشکل ترین امر ہوتا ہے۔ گھریلو ناچاقیاں، فیصلوں میں نظر انداز کرنا ایسے اقدامات ہیں، جس سے دھیرے دھیرے خواتین میں تنہائی پنپتی ہے اور عدم اعتماد ان کی شخصیت کا حصہ بن کر خاندان کے درمیان ہوتے ہوئے بھی انہیں ایک کونے تک محدود کر دیتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ طلاق یافتہ، بیوہ اور کنواری رہ جانے والی خواتین کو عموما ًتنقیدی نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ طعنے ، تشنے دے کر ان کی زندگی دوبھر کردی جاتی ہے،جس عورت کی سرشت میں گھر بنانا ہو اور وہ اس کے اجڑنے کےکٹھن تجربے سے گزری ہو، ایسے میں سماج کے بےتکے سوالات، طعنے اور رویے اسے تنہائی کے اندھے کنویں میں دھکیلنےکا کام کرتے ہیں۔گویا جیسے یہ زندگی اس نے خود چنی ہو۔ 

اگر کوئی خاتون اپنے یا بچوں کی خاطر شادی کا فیصلہ کرتی بھی ہے تو اسے جذبات، غیرت اور شرمندگی کی چادر لپیٹ کر بنیادی، جائز اور قانونی حق سے روک دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ قطع تعلقی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔زندگی پھولوں کی سیج نہیں جیسے سب کی خوشیاں، دکھ جدا ہوتے ہیں، اسی طرح اذیت اور تکالیف بھی مختلف ہوتی ہیں ۔لیکن یاد رکھیں ،کبوتر کی طرح ان سے آنکھیں موند لینے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اپنے حصے کی جدوجہد تا دم حیات خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔

ضروری ہے کہ وہ خواتین جو کسی بھی وجہ سے اکیلے پن کے دلدل میں دھنس چکی ہیں، دیگر خواتین ان کا ساتھ دیں۔ تسلی اور تشفی کے دو بول درد کا مرہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ شدید ذہنی کوفت اور الجھن سے نکلنے میں ان کی مدد کریں۔اور وہ بھی خود کو کسی سرگرمی سے جوڑیں۔ ہمارے بتائے ہوئے مشوروں پر عمل کرکے اکیلے پن کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔جسمانی صحت اگر اجازت نہیں دیتی تو ذہنی طور پر مصروف ہو جائیں۔

مصروفیت انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔ اگر تعلیم یافتہ ہیں، گھر میں اپنی سہولت سے محلے کے بچوں کو ٹیوشن دے دیں، قرآن کی تجوید پڑھا کر بھی خود کو مصروف رکھا جا سکتا ہے۔ ہنرمند ہیں تو اپنے ہنر کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کیجئے۔کل وقتی نہ سہی جز وقتی ملازمت کر لیں۔اس کے ذریعے ارد گرد سے جڑے رہنے کا موقع بھی ملے گا اور تعلقات سے کچھ پرخلوص دوست بھی میسر آئیں گے جن سے اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے اور شخصیت پربھی مثبت اثر پڑے گا۔

خانگی ناچاقیوں کی صورت میں خود کو ذہنی طور پہ ان معاملات سے ازحد وقتی طور پر علیحدہ کرنے کی کوشش کریں۔ایک عورت ،جس کے ہاتھوں نسل پروان چڑھتی ہے وہ اختلافات کو زیر کرنے کے لیے صبر، خاموشی اور تدبر کے فن سے آشنا ہوتی ہے۔ 

حالات سے وقتی خاموشی حالات کی جانچ، مشاہدے اور اس کے حل کے لیے مختلف زاویے سامنے لانے میں آسانی فراہم کرتی ہے۔زمانے کے منفی رویوں کو نظر انداز کرنا سیکھیں ۔اپنے لیے کوئی مقصد متعین کر لیں، اٹھتی آوازیں خود بخود خاموش ہو جائیں گی۔

جان ہے، تو جہان ہے کے مصداق اپنے جسمانی قوت کا خیال رکھیں اور درپیش صحت کے مسائل سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ اپنا خیال خود رکھیے کہ خدا کی مدد بھی انہی کے ساتھ شامل حال ہوتی ہے جو ہمت و حوصلے سے ہر تکلیف کا سامنا کرتے ہیں۔

زائد العمر خواتین اکثر تنہائی کو خود پر حاوی کر لیتی ہیں، وہ گھونسلہ جسے تنکا تنکا کر کے جوڑا ہوتا ہے قدرت کے نظام کے تحت وہ پنچھی اڑ جاتے ہیں اور آخر میں ہم سفر بھی اگر راہ عدم ہو جائے تو عورت زندگی کے اس دور میں جذباتی طور پر کمزور اور اکیلی پڑ جاتی ہے ۔ماضی کی یادیں اگر خوشی اور اطمینان کا باعث بنیں تو ضرور یاد کریں، مگر اپنے حال سے توجہ ہٹا کر ماضی میں رہنادانشمندی کا ثبوت نہیں۔