• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اور سال رخصت ہوا۔ پیچھے مڑ کر دیکھو تو ان تین سو پینسٹھ دنوں میں خواتین کے حوصلے اور امکانات کی ان گنت کہانیاں نظر آتی ہیِ۔ یوں لگتا ہے کہ ایک خاموش انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو آج بھی روایات اور جدت کے درمیان جھول رہا ہے۔ پاکستانی عورت سیاست، ٹیکنالوجی، میڈیا ، کھیل، فنون لطیفہ اور کاروبار کے میدان میں اپنی جگہ بناتی چلی جا رہی ہےظاہر ہے یہ کوئی آسان سفر نہیں ہے۔

پدر شاہی اور طبقاتی نظام، معاشی نا ہمواری اور سماجی قدامت پسندی کے بوجھ کے باوجود پاکستان کی خواتین نے ثابت کیا ہے کہ طاقت اور خود مختاری کو نئے معانی دئیے جا سکتے ہیں۔ ان کی کامیابیاں نعرے بازی یا شور سے نہیں بلکہ استقامت، محنت اور اور ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کے حوصلے سے عبارت ہیں۔ گزرے سال نے ہمیں ایک اور موقع دیا کہ ہم ذرا رک کر دیکھیں۔ 

اپنی کامیابیوں کا جشن منائیں، ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں سوچیں جو ابھی بھی ہماری راہ میں حائل ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ پاکستانی خواتین کس طرح اس سماجی اور ثقافتی منظر نامے کو از سر نو تشکیل دے سکتی ہیں۔ ہمیں اپنے لئے ہی نہیں، آنے والی نسلوں کی سمت بھی مقرر کرنی ہے۔اور انہیں بہتر مستقبل کی راہ دکھانی ہے۔ آئیے ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں 2025میں خواتین کی صورت حال پر۔

پاکستانی خواتین نے 2025میں ادب، ٹیکنالوجی، سماجی خدمت اور دیگر شعبوں میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ ناول نگار علیشبہ خان نے لندن میں Young Woman of the Year کا ایوارڈ جیتا جب کہ بہت سی کاروباری منتظم خواتین نے Mobilink WIN Bank incubator جیسے کامیاب کاروباری پروگرام چلائے۔

ان خواتین نے مائیکرو فنانس کی مدد سے اپنے کاروبار شروع کئے اور ڈیجٹل ٹولز کی مدد سے پیسوں کا حساب کتاب رکھتے ہوئے مالیاتی خود مختاری حاصل کی۔ٹیکنالوجی کے شعبے میں کامیاب خواتین کے لئے the startup.pkایوارڈز جاری کئے گئے۔

خیبر پختونخواہ کی پولیس فورس میں عائشہ گل کو پہلی خاتون اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔ اسما باجوہ طویل عرصہ تک برٹش ائیر ویز میں کام کرنے کے بعد پاکستان واپس آ کر پی آئی اے سے وابستہ ہوئیں اور چیف ایچ آر آفیسر بنیں۔

ڈاکٹر نجات علی نے ایک خطر ناک حادثے کا شکار ہونے کے بعد ایچ آر میں ڈاکٹریٹ کی اور اب وہ ’ہیل آرگنائزیشن‘میں کام کر رہی ہیں۔ اقرا حسن منشا کو 2025 اپریل میں پاکستان کی امیر ترین خاتون قرار دیا گیا۔وہ ایک کامیاب کاروباری منتظم اور نجی ہوٹل کی سی ای او اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔

عورتوں کو ادارہ جاتی معاونت فراہم کرنے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے حوالے سے مارچ 2025میں تیرہ عورتوں کے اسٹارٹ اپس نے انکیوبیشن کے پروگرام میں موبی لنک بنک کے ویمن انسپریشنل نیٹ ورکWINکے تحت گریجویٹ کیا۔ 

ایکو برکس کی بانی کشف اختر کو بیسٹ اسٹارٹ اپ ایوارڈ ملا۔جنوری 2025 میں پی ٹی سی ایل نے خواتین کی خود مختاری کے پروگرام ’ با اختیار‘ کو بیس اضلاع میں پھیلانے کا اعلان کیا۔

بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں خواتین کے لئے جن بارہ کلیدی نکات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا پاکستان میں 2025 میں ان کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی، ملاحظہ کریں؛

غربت اور پاکستانی خواتین

دنیا بھر میں ہر سو مردوں کے مقابلے میں ایک سو بائیس عورتیں انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہی ہیں۔ پاکستان بلکہ جنوب کے سارے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے او ر اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ خواتین غربت سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں معاشی جھٹکے، غذائی عدم تحفظ اور صنفی رکاوٹوں نے خواتین کو پسماندہ رکھا۔

حکومت، سول سوسائٹی اور بین ا لاقوامی اداروں نے کچھ موثر اقدامات کئے۔نقد امداد، مائیکرو فنانس، اسکلز ڈیولپمنٹ اور دیگر تربیتی پروگرام شروع کئے گئے۔جب کہ سول سوسائٹی کی جانب سے ایک جامع سماجی تحفظ کا پروگرام شروع کرنے پر زور دیا جاتا رہا۔

بے نظیر انکم سپورٹ/احساس پروگرام کے تحت عورتوں کو نقد رقم کی فراہمی کے علاوہ تعلیمی وظائف اور وزیر اعظم کی جانب سے ڈیجیٹل والٹ اور سمز فراہم کی گئیں۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے بھی عورتوں کے لئے ای بائیک اور دیگر پروگرامز شروع کئے۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ پاکستانیوں کی غربت کا اصل سبب وہ نیو لبرل سرمایہ دارانہ ڈھانچہ ہے جو معیشت کو انسانی ضرورتوں کی بجائے منڈی کے مفادات کے تابع کرتا ہے۔

عورتوں کی تعلیم و تربیت

2025 میں بھی پاکستانی عورتوں کو سرکاری اور نجی شعبے کے بہت سے اقدامات کے باوجود مختلف چیلنجز کا سامنا رہا۔ سب سے بڑی رکاوٹ غربت کے بعد ثقافتی روایات اور ناکافی انفرا سٹرکچر ہے، جس کا نتیجہ خواندگی اور داخلوں کی شرح میں بڑھتے ہوئے صنفی تفاوت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ 2024-25کے اکنامک سروے کے مطابق خواندگی کی قومی شرح 60.6فی صد ہے۔ اس میں مردوں کی شرح خواندگی 68فی صد اور عورتوں کی باون فی صد ہے۔

دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق پاکستانی خواتین نے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے کی شرح اب تقریباََ اڑتالیس تا اٹھاون فی صد ہے۔ تدریس کے شعبے میں شروع سے خواتین کی تعداد زیادہ رہی ہے۔

پنجاب میں پبلک اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعداد چھپن فی صد ہے۔تعلیم کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے بجٹ میں تعلیم کے لئے GDPکا صرف صفر اعشاریہ آٹھ فی صد مختص کیا جاتا ہے، جب کہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ، دیہی سندھ اور کراچی کی کچی آبادیوں میں خصوصی پیکیجز، موبائل اسکولز، گرلز ہوسٹل اور ٹرانسپورٹ کا انتظام ضروری ہے۔

یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2025کے مطابق تدریس کے شعبے میں عورتوں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے ان کے لیڈر شپ رول کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں مساوات کے حصول کے لئے اس صنفی فرق پر توجہ دینا ضروری ہے جو ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں عورتیں تدریسی فورس کا بہت بڑا حصہ ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی عہدوں پر ان کی تعداد تیس فی صد سے بھی کم ہے۔

2025میں دنیا کی دو سو ممتاز یونیورسٹیوں میں سے صرف ستائیس فی صد یونیورسٹیوں میں کوئی عورت صدر یا ریکٹر تھی۔ اس سے تعلیم کے شعبے میں قیادت کے لحاظ سے صنفی فرق کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

صحت کی صورت حال

عورتوں کی صحت کے حوالے سے ایک اہم قدم سروائیکل کینسر سے لڑکیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے HPVویکسینیشن کی مہم چلانا تھا،اس کے ساتھ ایک نئے ہیلتھ سرویلنس سسٹم کا بھی آغاز کیا گیا اور زچہ و بچہ کی صحت کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی اور غذائی کمی، خون کی کمی اور ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش بھی کی گئی۔

صحت کے شعبے میں ترقی کے باوجود زچہ و بچہ کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں ہر تین میں سے دو عورتوں کو اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ چھاتی اور سروائکل سرطان کا خطرہ بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔

ذہنی صحت پر کوئی توجہ نہیں دیگئی۔ غذائیت اور خون کی کمی بھی زچگی کے دوران خاص طور پر عورتوں کے لئے لئے پیچیدگی کا باعث بنتی ہے۔ کوہی گوٹھ ہسپتال اس حوالے سے عورتوں کے لئے مینارہ ء روشنی بنا ہوا ہے۔2025میں بھی اس کی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔

یو این نیشنل ڈیولپمنٹ رپورٹ 2024کے مطابق پاکستان میں صرف بارہ فی صد عورتوں کو کسی بیماری کی صورت میں اپنے علاج کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے، جب کہ سترہ فی صد عورتوں کے علاج کا فیصلہ گھرانے کا سر براہ کرتا ہے۔ 

اٹھائیس فی صد عورتیں خاندان کی دیگر عورتوں سے صلح مشورے کے بعد اپنے علاج کا فیصلہ کرتی ہیں، جب کہ بیالیس فی صد عورتوں کا کہنا تھا کہ مریضہ کو چھوڑ کر گھر کے ہر شخص کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ مریضہ کا علاج ہونا چاہئیے یا نہیں۔

عورتوں پر تشدد

انسانی حقوق کے نیشنل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوے فی صد عورتوں کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یو این کی اگست 2025کی رپورٹ کے مطابق 15-49سال کی عمر کی اٹھائیس فیصد عورتوں کو جسمانی تشدد اور چھ فی صد کو جنسی تشددبرداشت کرنا پڑا۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، ریپ، اغوا، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ واقعات وہیں رپورٹ ہوئے، دوسرے نمبر پر خیبر پختونخواہ، تیسرے نمبر پر سندھ اور چوتھے پر بلوچستان رہا۔ 

سول سوسائٹی کی ایک تنظیم SSDOکے مطابق سندھ میں گھریلو تشدد کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے لیکن بہت کم ملزمان کو سزائیں ملیں۔ 2025کے پہلے چھ مہینوں میں سندھ میں گھریلو تشدد کے 204 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جس میں جسمانی تشدد کے 150، جنسی تشدد کے پچاس اور نفسیاتی تشدد کے چار کیسز شامل تھے۔مگر کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ 

ان میں سے جسمانی تشدد کے سب سے زیادہ کیسز کراچی کے ضلع کیماڑی میں اور اس کے بعد عمر کوٹ اور کراچی ساؤتھ میں رپورٹ ہوئے۔ سکھر، کورنگی اور میر پور خاص جیسے اضلاع میں کم کیسز رپورٹ ہوئے۔ جہاں تک جنسی زیادتی کا تعلق ہے ،کراچی ایسٹ میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔ 

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں گھریلو تشدد کے مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ گھریلو تشدد کے مرتکب ہونے والوں کو سزا دلانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، سماجی بہبود کے محکموں اور سول سوسائٹی کے درمیان رابطہ کاری ضروری ہے۔

2025 میں بلوچستان میں کاروکاری کے الزام میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی ہلاکت کی خبر نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس سے قبل جنوری میں ایک باپ نے ٹک ٹاک بنانے والی اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ جولائی میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو ٹک ٹاک اکاؤنٹ ڈیلیٹ نہ کرنے پر قتل کر دیا۔

کراچی کے علاقے لیاری میں شادی کی پہلی رات ہی دلہا نے تشدد آمیز طریقے استعمال کئے اور دلہن اسپتال پہنچنے کے چند دن بعد اپنی جان سے گزر گئی۔ مظلوموں کو انصاف نہ ملنے کی صورت میں اس طرح کے واقعات ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان کی صورت میں موجود رہیں گے۔ سزاؤں سے زیادہ ایسے جرائم کے انسداد اور روک تھام کے طریقے ڈھونڈنا ضروری ہے۔

معیشت اور عورتیں

2025میں معیشت میں مختلف پالیسیوں کے ذریعے عورتوں کا مالیاتی کردار بڑھانے کی خصوصی کوششیں کی گئیں۔ اسٹیٹ بنک نے بینکنگ آن ایکوالٹی فریم ورک بنا کے قرضوں، بچتوں اور ڈیجیٹل بینکاری تک دیہی عورتوں اور ان عام شہری عورتوں کی رسائی کے لئے آسانیاں پیدا کیں جن کا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بھی عورتوں کو درپیش مالیاتی مشکلات کو دور کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے ہیں۔ موبائل بینکاری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔مختلف تنظیمیں ڈیجٹل فنانشل سروسزفراہم کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں اور عورتوں کو اسے سکھا رہی ہیں۔

زیادہ تر عورتیں غیر رسمی شعبوں اور گھر بیٹھ کر اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ ان کی محنت کو تسلیم کرانے کے لئے پالیسی اور قانون بن چکے ہیں۔ 2025میں عورتوں کی اقتصادی شمولیت کے ذریعے GDPمیں اضافے کی کوشش کی گئی۔ ان کاوشوں کے باوجود رسمی شعبے کی لیبر فورس میں عورتوں کی شراکت کم رہی، صنفی اور اجرتی تفاوت برقرار رہا۔ 

امید ہے کہ 2025 میں کی جانے والی سرکاری اداروں، فنانشل ریگو لیٹرز، کارپوریٹ لیڈرز اور سول سوسائٹی کی کوششیں جیسے بنکنگ آن ایکوالٹی، ورکنگ ویمن اینڈومنٹ فنڈ اور دیگر پراجیکٹس کی بدولت عورتوں کو پاکستان کی معیشت میں اہم مقام حاصل ہوگا۔

اقتدار اور فیصلہ سازی میں عورتوں کا حصہ

2025میں اقتدار اور فیصلہ سازی میں عورتوں کی شراکت کے حوالے سے بہت سے چیلنجز بھی سامنے آئے اور ترقی بھی دیکھنے میں آئی۔اگرچہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2025میں 148 ممالک میں پاکستان آخری نمبر پر رہا لیکن عورتوں کے ووٹوں کے اندراج، عورتوں کی خود مختاری کے لئے کئے جانے والے حکومتی اقدامات، بین ا لاقومی کانفرنسوں میں شرکت جیسے معاملات میں ترقی بھی دیکھنے میں آئی۔

کمیشن برائے توقیر نسواں جیسے ادارے عورتوں کی نمائندگی میں اضافے سے متعلق پالیسیاں بنوانے کی کوشش کرتے اور سیاسی پارٹیوں پر زور دیتے رہے کہ خواتین اور اقلیتی رائے دہندگان پر توجہ دیں۔ پاکستان وژن 2025 کے مطابق حکومت بھی عورتوں کی نمائندگی میں اضافے کی کوشش کرتی رہی۔نوجوان سیاستدان اور دیگر اتحادی بھی عورتوں کی حمایت میں سامنے آئے۔

قیادت اور نمائندگی

2025میں بھی آئینی ضمانتوں اور خواتین امیدواروں کے لئے پانچ فی صد کوٹہ مختص کئے جانے جیسی قانونی اصلاحات کے باوجود پدرشاہی ڈھانچوں کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں عورتوں کی شراکت محدود رہی۔ مخصوص نشستوں کی وجہ سے عورتیں قانون ساز اداروں میں نظر تو آتی ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ میں عورتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

فافن کے مطابق2018-2025کے عرصے میں پاکستان کی ایک سو اڑتیس سیاسی پارٹیاں جن کے سرٹیفکیٹس الیکشن کمیشن کی ویب سائٹس پر موجود ہیں نے صرف سات فی صد خواتین کو پارٹی عہدے دئیے۔

اس وقت وفاقی پارلیمنٹ میں پندرہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندے موجود ہیں۔ 2024 میں عوامی نیشنل پارٹی میں خواتین عہدے داروں کی نمائندگی چھبیس فی صد، 2023میں بلوچستان عوامی پار ٹی میں صفر، بلوچستان نیشنل پارٹی میں سات فی صد، 2025 میں استحکام پاکستان پارٹی میں عورتوں کی نمائندگی صفر، 2019میں جمعیت العلمائے پاکستان میں صفر، 2022 میں مجلس وحدت المسلمین میں صفر، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں آٹھ فی صد، 2024میں نیشنل پارٹی میں عورتوں کی نمائندگی تیرہ فی صد، 2023 میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی میں صفر، پاکستان مسلم لیگ میں صفر، پاکستان مسلم لیگ نون میں 33فی صد، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور تحریک انصاف کے الیکشن سرٹیفکیٹس الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود نہیں ہیں۔ 

2025 میں خواتین گروپس کا یہ مطالبہ سامنے آتا رہا کہ الیکشن کمیشن کی سطح پر قانون سازی کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ خواتین امیدواروں کی انتخابی مہم کے لئے فنڈز فراہم کریں تا کہ مالی دباؤ خواتین کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔

عورتوں کی ترقی کے لئے پاکستانی اداروں کا کردار 

وفاقی سطح پر قومی کمیشن برائےترقی نسواں نے صنفی مساوات کے حصول کے لئے 2025میں عورتوں کی اقتصادی خود مختاری، لیگل ایڈاور ڈیجٹل تفریق کم کرنے کی کوشش کی۔

انسانی حقوق کی وزارت نے 2025میں پہلی مرتبہ اسلام آباد کے لئے جینڈر پیرٹی رپورٹ تیار کی۔مالیاتی سرگرمیوں میں عورتوں کو شامل کرنے کے لئے بہت سے معلوماتی سیشنز کرائے اور خواتین کاروباری منتظمین کے لئے آسان قسطوں پر قرضوں کی اسکیمیں شروع کیں۔

خواتین پارلیمنٹرینز پر مشتمل پارلیمانی کاکس WPC نے لیجسلیٹو ایڈوکیسی اور ریفارم میں اہم کردار ادا کیا۔ 2025میں کاکس نے عورتوں پر اثر انداز ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں، وراثت کے قوانین میں اصلاحات اور صنفی ضروریات کے حوالے سے بجٹ بنانے پر زور دیا۔

وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات 

وزارت منصوبہ بندی نے روزگار میں عورتوں کی شراکت کو فروغ دے کر اور کوٹے کو یقینی بنا کے صنف اور عورتوں کی خود مختاری کو وژن 2025 جیسے قومی ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرایا۔

صوبائی سطح پروفاق کی پیروی کرتے ہوئے عورتوں کے صوبائی کمیشنوں نے عورتوں کے حقوق دینے اور اپنے صوبوں میں بنائے جانے والی پالیسیوں کی نگرانی کا عمل جاری رکھا۔ صوبائی حکومتوں کے ویمن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹس عورتوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے پالیسیاں بناتے اور ان پر عمل درامد کرتے رہے۔

دیگر کلیدی میکانزم:

صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی عدالتیں بنائی گئیں اور ویمن پولیس اسٹیشنز قائم کئے گئے۔

عورتوں کی غربت دور کرنے اور مالیاتی مواقع تک رسائی دینے بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرامز کام کر رہے ہیں۔

قانونی اقدامات: عورتوں کو تشدد، ہراسانی اور امتیازی رویوں سے بچانے کے لئے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں۔ 2025 میں ان قوانین پر عمل درامد کی کوششیں جاری رہیں۔

انسانی حقوق

2025میں عورتوں کے انسانی حقوق کی صورت حال ملی جلی رہی۔ تولیدی حقوق، صنفی تشدد اور سیاسی شراکت کے حوالے سے پہلے کی طرح چیلنجز سامنے آتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات کا عمل جاری رہا۔

امسال دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عورتوں کی بیجنگ میں ہونے والی چوتھی عالمی کانفرنس کی تیسویں سالگرہ منائی گئی اور پاکستان کی حکومت نے جنرل اسمبلی میں یقین دہانی کرائی کہ بانی پاکستان کے اس قول کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ کوئی قوم اسی وقت رفعتوں کو چھو سکتی ہے جب اس کی عورتیں اس کے شانہ بشانہ ہوں۔

کچھ شعبوں میں ترقی کے باوجود2025-2026کے مالیاتی سال میں عورتوں سے متعلق پراجیکٹس کے لئے کل بجٹ کاصرف اعشاریہ دو فی صد حصہ رکھا گیا ہے جو گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ2025 میں عورتوں کی اقتصادی شراکت اور مواقع کے لحاظ سے پاکستان 148ممالک میں سے آخری نمبر پر رہا ہے۔

عورتیں اور ماحولیات

ماحولیاتی تبدیلیوں نے2025میں پاکستانی عورتوں کو خاص طور پر دیہات میں غیر متناسب طور پر متاثر کیا۔ وہ پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کا زیادہ شکار ہوئیں۔ ان پر گھر اور زرعی کاموں کا بوجھ بڑھ گیا، تشدد اور بے دخلی کے امکانات میں اضافہ ہوا۔

ان کے سماجی و اقتصادی مرتبے اور فیصلہ سازی کے محدود اختیارات کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں ان پر زیادہ اثر انداز ہوئیں۔ سول سوسائٹی قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے صنفی شمولیت والی پالیسیاں بنانے پر زور دیتی رہی۔

فائر فائٹر خواتین

٭سندھ میں اس وقت پچاس فائر فائٹر خواتین کام کررہی ہیں۔ جب کہ 180 خواتین ریسکیو غوطہ خور، ایمبولنس میڈکس اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔ 2025 میں کراچی کی فائر فائٹر تئیس سالہ معصومہ زیدی اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنیں۔ 

انہوں نے پنجاب ریسکیو سروس اکیڈمی سے گریجویشن کی جہاں انہوں نے ہائی اینگل ریسکیو کی مہارتوں پر عبور حاصل کیاجن میں آتش زدگی کے دوران بلند بالا عمارتوں میں پھنس جانے والوں اور دیگر پانی اور آگ سے متعلق ہنگامی صورتحال میں لوگوں کو بچانے کے لئے سیڑھیوں، رسیوں اور ٹرالی کے استعمال کی تربیت شامل ہے۔

ان کی ٹیم مردوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ کہیں آگ بجھانے جاتی ہیں تو لوگ انہیں دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’یہ تو لڑکی ہے، یہ کیسے آگ پر قابو پائے گی؟‘‘ ان کی ساتھیوں میں عریبہ تاج اور دیگر خواتین کولیگز شامل ہیں۔ 

 2025میں اخبارات کی سرخیوں کی زینت بننے والی پاکستانی خواتین

٭…ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ پر امن مزاحمت میں یقین رکھتی ہیں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قائد ہیں۔ مارچ 2025 میں انہیں ریاستی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف کوئٹہ میں ایک پر امن احتجاج کے دوران گرفتا ر کر لیا گیا۔ وہ ابھی بھی جیل میں ہیں۔

٭…پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا شمار پاکستان کی نمایاں طبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ اکتوبر 2025 میں انہیں انٹرنیشنل فیڈریشن آف گائنا کولوجی اینڈ آبسٹریٹکس کی ٹرسٹی منتخب کیا گیا، وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔یہ بین ا لاقوامی سطح پر خواتین کی صحت کے شعبے میں ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔

٭… خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے 2025میں اس وقت تاریخ رقم کی جب گلگت بلتستان کی بی بی افزون اور زیبا بتول، پنجاب سے بسمہ حسن اور اقرا جیلانی، سندھ سے مدیحہ سید، خیبر پختونخواہ سے ماریہ بنگش، اسلام آباد سے امینہ شبیر اور بلوچستان سے لاریب بتول نے کامیابی سے دیو سائی میں باری لا چوٹی سر کی۔ 

صرف مدیحہ سید جو اس سے پہلے تنزانیہ کی سب سے اونچی چوٹی سر کر چکی ہیں کو طبیعت کی خرابی کے باعث پانچ ہزار فٹ کی بلندی سے واپس آنا پڑا۔اس مہم کے انتظامات اور مالی اعانت پاکستان الپائن کلب نے کی تھی۔

٭…پچیس سالہ وکیل ماہ نور عمر اس وقت اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنیں جب انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں سینیٹری پیڈز پر لگائے جانے والے اٹھارہ فی صد سیلز ٹیکس کے خلاف پیٹیشن دائر کی۔ ان کے بقول یہ’پیریڈ ٹیکس‘ ہے۔ یوں انہوں نے عدلیہ میں حفظان صحت کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز کیا۔

نصف سے زیادہ سے مزید