• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے جب میری بیٹی نے کہا،’’اماں! اب بہت ہو گیا۔ آپ نے ابو کے بعد بیس سال اکیلے رہ لیا۔ ٹھیک ہے جب بھی آپ کو ضرورت پڑتی ہے میں اسلام آباد سے اکیلے ڈرائیو کر کے آپ کے پاس پہنچ جاتی ہوں۔ میرے لیے بھی اتنا آسان نہیں۔ اب آپ میرے پاس آ جائیں۔‘‘ میں نے اسے کہا میں آ تو جائوں گی مگر میری ایک شرط ہے کہ’’ میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ اس نے مجھے اپنے گھر سے قریبی ایک کشادہ فلیٹ لے دیا۔ اب میں وہاں رہتی ہوں۔ بیٹی بھی اکثر رات کو میرے پاس ہوتی ہے۔‘‘

امی آپ کو نہیں معلوم،امی آپ کی عمر گزر گئی، یہ نیا زمانہ ہے، امی آپ نے کیا کیا سب ہی کرتے، امی ہر بات میں بولا نہ کریں، اونچی کیوں بول رہی، کیا ہوگیا میں دو بجے رات گھر آگیا تھا، بس کر دیں نصیحت سن سن کے کان پک گئے،امی مجھے یہ کھانا نہیں کھانا، پھر ایک دن، امی چلی جاتی اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دعاؤں والے ہاتھ چلے گئے۔

کپڑے مختلف کونوں کھدروں سے اٹھا کر کون دھوئےاور الماری کے کپڑے کون ترتیب سے لگائے۔ بن کہئے ناشتہ کون بنائے،رات کو کون انتظار میں جاگے،کون لیٹ آنے پر بھی کھانا کا پوچھے۔ غصہ ہونے پر ماں چپ کر جاتی تھی۔ اب احساس ہوتا۔’’ماں سائبان تھی،ماں انمول تھی۔‘‘

یہ چند بچّوں کا اپنی ماں سے اس انداز سے باتیں کرنا نہیں ہے۔ آج کل پیش تر گھروں میں بوڑھے ماں باپ کے ساتھ بچّوں کا یہ وریہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ ذیل میں ایک ستر سالہ ماں کی بابت پڑھیں، شاید آپ کے دل پر کچھ اثر ہو اور بوڑھی ماں سے ہی نہیں باپ سے بھی رویہ بدل جائے۔ یعنی اچھا ہو جائے۔

میرا نام ماریہ ہے۔ اس سال میں ستر برس کی ہو گئی ہوں،ایک مکمل، خوبصورت سا عددلیکن سچ کہوں تو، اس نے مجھے کوئی خوشی نہیں دی۔ یہاں تک کہ وہ کیک بھی بے ذائقہ لگا جو میری بہو نے میرے لیے بنایا تھا یا شاید مسئلہ مجھ میں ہی ہے۔ شاید اب مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، نہ میٹھا، نہ نمکین ،نہ کھٹااور نہ توجہ۔ میں سمجھتی تھی کہ بڑھاپے کا مطلب ہے’’ تنہائی‘‘۔ایک خاموش گھر، ایسی فون کالز جو کبھی نہیں آتیں، ویک اینڈز جو خالی گزرتے ہیں۔مجھے لگتا تھا سب سے بڑی تکلیف یہی ہے:

چھوڑ دیے جانا، تنہا رہ جانا لیکن اب میں سچ جان چکی ہوں، اصل درد خالی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ گھر ہے جو لوگوں سے بھرا ہوہے ،مگر وہاں کوئی تمہیں دیکھتا ہی نہ ہو۔میرے شوہر کو گزرے دس سال ہو گئے۔ ہم تقریباً چالیس برس ایک ساتھ رہے۔سادہ آدمی تھے، سنجیدہ، کچھ سخت مزاج، لیکن مضبوط۔

دروازہ ٹھیک کرنا، آگ جلانا، اور وہ ایک چھوٹا سا درست لفظ کہنا، جس سے مجھے لگتا کہ میں محفوظ ہوں۔ یہ سب وہ بخوبی جانتے تھے۔ جب وہ چلے گئے تو لگا جیسے زمین میرے قدموں تلے سے نکل گئی ہو۔ لیکن میرے دو بچے تھے: کارلو اور لورا۔ میں نے انہیں سب کچھ دیا۔ اس لیے نہیں کہ ’’ماں ایسے ہی کرتی ہے‘‘ بلکہ اس لیے کہ مجھے محبت کا اور کوئی طریقہ ہی نہ آتا تھا۔

میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ یا گھومنے پھرنے والی عورت نہیں تھی لیکن ہمیشہ ان کے لیے موجود رہی۔ بیماری میں، ہوم ورک میں، ڈراؤنے خوابوں میں۔ مجھے یقین تھا کہ محبت واپس لوٹتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ میرے بچوں نے آنا چھوڑ دیا۔ ’’ماں، بہت کام ہے آج کل۔‘‘ ،’’اس ویک اینڈ پر تو ممکن نہیں۔‘‘اور میںاُن کا انتظار کرتی رہتی۔یہاں تک کہ ایک دن کارلو اور لورانے کہا:

’’ماں، ہمارے ساتھ آجاؤ۔ وہاں تمہیں زیادہ کمپنی ملے گی۔‘‘تو میں نے اپنا سامان باندھا۔ اپنا کمبل ہمسائی کو دے دیا،پرانی کافی والی کیتلی ایک دوست کو عطیہ کر دی، اپیانو بیچ دیا جو میرے دل کا حصہ تھا اور میں روانہ ہوگئی اپنے بچے کے ساتھ اُس کے گھر۔ ان کا گھر ایک جدید، کشادہ، روشن تھا۔ شروع میں بیٹا ،بہو، بچے سب بہت اچھے تھے۔

میری پوتی نے مجھے گلے لگایا، بیٹےلورا نے مجھے کافی بنا کر دی لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سب کچھ بدل گیا۔ ’’ماں، ٹی وی کی آواز کم کریں۔‘‘، ’’بہتر ہو گا کہ آپ اپنے کمرے میں رہیں، دوست آ رہے ہیں۔‘‘، ’’اوہ... کیا آپ نے پھر سب کے کپڑوں میں اپنے کپڑے رکھ دیے؟ میں نے منع کیا تھا نا!‘‘اور پھر کچھ جملے…گھر میں گونجنے لگے:

’’ہم نے آپ کو اپنے پاس رکھا ہے، فائدہ نہ اٹھائیں۔‘‘، ’’یہ آپ کا گھر نہیں ہے، ماں۔‘‘میں نے مدد کرنے کی کوشش کی۔ کھانا بنایا، صفائی کی، اُن کے بچے سنبھالنا لیکن ایسا لگتا جیسے میں موجود ہی نہیں ہوں یا شاید جیسے میں اُن کی راہ میں رکاوٹ ہوں۔

ایک رات میں نے بہو لورا کو فون پر کہتے سنا: ’’میری ساس تو ایک مجسمے جیسی ہیں جو کونے میں رکھ دیا ہو وہ موجود ہیں لیکن نظر نہیں آتیں۔ اور ویسے بھی، ایسا ہی بہتر ہے۔‘‘اس رات میں سو نہ سکی۔چھت کو تکتی رہی اور سمجھ گئی۔ میں اپنے ہی خاندان میں گھری ہوئی تھی لیکن کبھی اتنی تنہا نہیں تھی۔

ایک ماہ بعد، میں نے گھر چھوڑ دیا۔ انہیں بتایا کہ ایک دوست نے گاؤں میں کمرہ دیا ہے۔ ’’اچھا ہی ہوگا، ماں‘‘، کارلو نے کہا، ایک ایسے سکون کے ساتھ جسے وہ چھپا بھی نہ سکا۔

اب میں مضافات میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی ہوں۔ کافی بناتی ہوں۔ کتابیں پڑھتی ہوں۔ ایسے خطوط لکھتی ہوں جو کبھی بھیجنے کا ارادہ نہیں۔ کوئی مجھے ٹوکتا نہیں۔ کوئی مجھے جج نہیں کرتا۔ میں ستر سال کی ہوں۔اب کسی سے کچھ اُمید نہیں رکھتی۔ بس اتنا چاہتی ہوں کہ، خود کو ایک انسان محسوس کر سکوں نہ کہ بوجھ، نہ کہ ایک سایہ۔

آج مجھے معلوم ہےکہ اصل تنہائی خاموشی نہیں ہے بلکہ وہ لمحہ ہے جب آپ اُن لوگوں میں ہوتے ہیں جن سے آپ محبت کرتے ہیں لیکن وہ آپ کو دیکھتے نہیں۔ وہ آپ کو برداشت کرتے ہیں لیکن سنتے نہیں۔ آپ وہاں ہوتے ہیں لیکن جیسے غیر موجود ہوں۔ بڑھاپا جھریاں نہیں، بڑھاپا وہ تمام محبت ہے جو آپ نے دی اور وہ تلخ حقیقت کہ اب کوئی اس کی قدر نہیں کرتا۔